سر رہ گزر.

December 08, 2012

افغان صدر حامد کرزئی کہتے ہیں: القاعدہ ہے بھی یا نہیں کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔
القاعدہ ہے یا نہیں طالبان تو ہیں، اور ”مسٹر قرضئی“ کے لئے وہی کافی شافی ہیں، جو امریکہ جیسی سپر پاور کے قابو نہ آئے بھلا اس کی کٹھ پتلی، ملایک چشم اور پائے لنگ سے کیسے بچ سکتی ہے، یہ مہمان وردی پوش تو چلے جائیں گے، اور ”القاعدہ“ کی جگہ اس کے پڑھنے والے آ جائیں، کیونکہ وہ قاعدہ پڑھ کر ہی باقاعدہ ہوئے ہیں، مسلم آبادیوں میں داخل ہونے کے لئے بیرونی مہم جوؤں کی خوش قسمتی ہے کہ اندر کے کلمووؤں کی کمی نہیں، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں، آج تک تاریخ میں کسی مسلم ریاست کو اس وقت تک زیر نگیں نہیں لایا جا سکا جب تک اپنوں نے دروازہ نہ کھولا
من از بیگانگاں ہرگز نہ نالم
کہ بامن ہر چہ کردآں آشنا کرد
(مجھے بیگانوں سے کوئی گلہ نہیں کہ میری جو بھی درگت بنائی اپنوں نے بنائی) افغانستان ایک زمانے سے کیوں ان طالع آزماؤں کی توجہ کا مرکز ہے، اس کی تحقیق بھی کرزئی سے کرانی چاہئے، کہ زخم لگانے والے کو زخم کی گہرائی کا بہت پتہ ہوتا ہے، وہ افغانستان جس کے قندھاری انارکی جب کوئی حاملہ خاتون خواہش کرتی تھی تو ماہرین فلکیات کہتے تھے کہ ضرور اس کے بطن سے کوئی بادشاہ پیدا ہونے والا ہے آج وہی افغانستان کیوں مجبور و مقہور ہے، اس کا جواب بھی کرزئی کے ہرے کوٹ کی تلاشی لینے سے مل سکتا ہے۔ پھول سے لوگ چاند سے چہرے، چناروں کے جھنڈ، اناروں کی وادیاں، جھرنوں اور آبشاروں کی روح کو گرما دینے والے ساز سب بے آواز کر دیئے گئے ہیں لیکن زمینِ چمن تو پھر سے زندہ ہو گی، اور کوئی افغان شاعر کہے گا
پسینے سپگمئی گونگئی شلے لے نہ وہے آلون
چہ جانان بوچرتہ وی نا
(روپیلی چاندنی اب گونگی کیوں ہو گئی ہو، بولتی کیوں نہیں کہ محبوب کہاں ہو گا
####
میاں شہباز شریف کہتے ہیں: عوام آئندہ الیکشن میں ”کرپشن کے بت“ گرا دیں گے، پیپلز پارٹی کی بیڈ گورننس بے نقاب ہو گئی۔
ضمنی انتخابات میں ”شاباش شریف“ کی پارٹی مسلم لیگ نون نے جو فتوحات حاصل کی ہیں، اس کے بعد نہ صرف شریف برادران متحرک ہو گئے ہیں، بلکہ بعض قلم بھی حرکت میں آ گئے ہیں، اور حق نمک ادا کرنے میں ایک دوجے پر سبقت لے جانے کے لئے سیکھے ہوئے سارے لفظ اور منطقیں اس طرح لٹا رہے ہیں جیسے ابوالکلام انگریز کی جیل میں چائے کے فنجان لنڈھاتے تھے، یہ ساری رونق وجشن فتح مندی اپنی جگہ مگر ہمارے کان میں ہاتف سیاست یہ کہہ رہا ہے کہ یہ فتح و کامرانی کسی بڑے بریک تھرو کا پیش خیمہ نہیں، کیونکہ ہارا ہوا پہلوان زیادہ کسرت کر کے، بے تحاشا سردائی پی کر جب میدان میں اترے گا تو ہر سو پی پی پی ہو جائے گی، کرپشن کے بتوں کا کوئی ایک بت خانہ نہیں بلکہ
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الٰہ الا اللہ
اور تو اور شاہ محمود قریشی جو گردن تک تحریک انصاف میں ہیں، وہ بھی میاں صاحب وڈے کو ٹوسیٹر پر مبارکباد پیش کر چکے ہیں، کیا وہ بھی کبھی مبارکبادیں وصول کریں گے۔ کرپشن تو ایک سدا بہار میوہ ہے، کہ ہر سیاسی موسم میں با افراط ملتا ہے یہ کرپشن دیوی تو ایسی شریر اور بے پیر ہے، کہ اس کی نقل و حرکت کا پتہ نہیں چلتا اور یار لوگ جو اس کی تلاش میں رہتے ہیں کہتے ہیں
کرشمہ دامن دل میکشد کہ جا اینجا است
(کرشمہ دل کے دامن کو کھینچتا ہے کہ یہی جگہ ہے)
####
تعلیمی بورڈز داخلہ فیس کی جگہ 550 روپے سرٹیفکیٹ فیس وصول کرنے لگے۔ تعلیمی صورتحال کیا ہے، اس کے بارے بھلا وہ قلم کیا کہے جس کی قسم اللہ نے کھائی، اور وہ قلم کیا کہے جس نے دولت کی قسم اٹھائی، اگر صریر خامہ، نوائے سروش ہوتا، تو یوں تو نہ ہوتا کہ #
پارک میں کرتا ہے ان کے روز اسپیچ وفا
زاغ بن جائے گا اک دن آنریری عندلیب
تعلیمی بورڈز ہوں یا سرکاری یونیورسٹیاں اب اپنے سندات اور ڈگریوں کی قیمت وصول کرتا ہے، یہ فیس بورڈ کی سطح پر ساڑھے پانسو اور یونیورسٹی کی ڈگریوں کے عوض 10 سے 15 ہزار روپے وصول کئے جاتے ہیں، جب پرائیویٹ تعلیمی سیکٹر نے یہ بے جا وصولی کا بازار گرم ہوتے دیکھا تو اس نے بھی یہی وطیرہ اختیار کیا اور پرائیویٹ یونیورسٹیاں جو ہر سمیسٹر کے لاکھوں وصول کرتی ہیں، ڈگریوں کی فروخت بھی شروع کر دی اور ریٹ 15 سے 20 ہزار مقرر کر دیا، گویا طلبہ سارا سال ٹیوشن فیسیں بھی دیں داخلہ فیسیں بھی ادا کریں پھر بھی وہ پیسہ دیئے بغیر ڈگری نہیں لے سکتے کتنے ہی طلبہ صرف اسی وجہ سے کہیں اپلائی نہیں کر سکتے کہ وہ ڈگری کے لئے 20,15 ہزار کہاں سے لائیں، ماں باپ بیچارے جیبیں خالی کر کے اس کے سوا اور کیا کہیں کہ
وہ پیسہ کہاں سے لائیں جسے دے کے ڈگری دلائیں
اور یوں نوجوان، اوور ایج ہو جاتے ہیں، وطن عزیز میں جو لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ اکثر و بیشتر غریب لوگ ہوتے ہیں، پیٹ کاٹ کر بیٹوں، بیٹیوں کو ایم اے کراتے ہیں، اور یونیورسٹیاں عین پھل پکنے کے موسم میں ہزاروں کی ڈیمانڈ کر دیتی ہیں۔ مقدور ہو تو ہم بھی حکمرانوں سے پوچھیں تم نے تعلیم عام کرنے کے دعوے وہ کیا کئے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کو ضمنی انتخابات جیتنے کی مبارکباد دینے کے ساتھ یہ عرض ہے کہ وہ یہ ڈگری و سرٹیفکیٹ فروشی تو بند کرا دیں، ایسا تو پہلے کبھی دیکھا نہ سنا، اس اقدام سے طلبہ کے ووٹ بھی مل سکتے ہیں۔
####
امریکی خلائی ادارے ناسا نے مریخ پر بہتے لاوے کی جو تصویر پیش کی ہے اس سے یوں لگتا ہے کہ وہ ہاتھی ہے، اور اس طرح لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ مریخ پر ہاتھی پائے جاتے ہیں۔
جب خیبر پختونخوا میں ”مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے، “ ممکن ہے، تو مریخ پر امریکیوں کو لاوہ ہاتھی کیوں نظر نہیں آ سکتا اور امریکہ میں کوئی یاوہ کیوں نظر نہیں آ سکتا، امریکیوں کے بارے خود امریکہ کے دانشوروں نے کہا ہے کہ امریکی شہری بدتمیز اور اخلاقیات سے عاری ہو رہے ہیں، اب وہ تھینک یو اور ویلکم بھی نہیں کہتے، بلکہ ہر بات پر نو پرابلم کہتے ہیں، یہی پرابلم کیا ہمارے ہاں نہیں کہ دو مسافر بس سٹاپ دو دو گھنٹے ایک بنچ پر ایک دوسرے سے سلام دعا کئے بغیر گزار دیتے ہیں، صرف اس لئے کہ سلام دعا کے لئے ان کے نزدیک واقفیت ضروری ہے، اگر کوئی کسی سے واقف نہیں تو کیا وہ دوسرے کے انسان ہونے سے بھی واقف نہیں۔ بہرحال ان دنوں گلوبل ویلج میں سارے اجڈ پینڈو رہتے ہیں، یا پھر صحرا کے بدو، مگر یہ بھی تو ہے کہ اگر ایک غریب آدمی با اخلاق ہو اور تپاک سے سلام کرے تو بھی برا،
خُلق نکو کو سب نے خوشامد سمجھ لیا
کیا کیا مصیبتیں ہیں غریب آدمی کے ساتھ
نو پرابلم کا یہاں بھی اتنا اثر پڑا ہے کہ کوئی آپ کا مسئلہ حل کر ے نہ کرے کوئی مسئلہ نہیں ضرور کہہ دیتا ہے، یہ نہیں سوچتا کہ امریکہ مریخ تک پہنچ گیا اور ہم ڈٹھے کھوہ،
ببیں تِفاوت راہ از کجا است تا یکجا
(ذرا رستے کا فرق تو دیکھو کہ کہاں شروع کہاں ختم)
اگر تصور نہ ہوتا پاکستان بھی نہ ہوتا، اسی طرح امریکی بھی تصور کر کر کے ایک دن مریخ پر ہاتھی دریافت کر لیں گے یا اپنے چڑیا گھر کا کوئی ہاتھی ہی وہاں پہنچا دیں گے، بہر صورت وہ پھر کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں، اور شاید اس کام میں وہ ہم سے پیچھے بھی ہیں کہ ہم کیا نہیں کر سکتے اور نہیں کرتے۔
####