استاد کی ہتھکڑی

October 20, 2018

’بے گناہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا۔‘ چلو اچھا ہوا اساتذہ کو بھی ہتھکڑی لگ گئی کیونکہ یہ تو بہت خطرناک لوگ ہوتے ہیں جو نہ فرار ہوتے ہیں نہ جیل توڑ کر بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر انہوں نے ماورائے عدالت قتل کیے ہوتے تو یقین جانیے یہ ہتھکڑی میں نہ ہوتے۔ ان کا یہ جرم کم ہے کہ یہ ایک نسل تیار کرتے ہیں، شعود دیتے ہیں، اچھے اور برے کی تمیز سکھاتے ہیں۔ میں یہ بات اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کہ میں خود ایک ایسے استاد کا بیٹا ہوں جن کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

یہ تو وہ استاد بھی نہیں ہیں جیسا کہ استاد مسرور احسن۔ وہ استاد نہیں تھا مگر اس نے سیاسی کارکن پیدا کیے تو اس کو استاد کا لقب مل گیا۔ استاد جب گرفتار ہو کر ہتھکڑی میں عدالت میں پیش ہوا تو دوسرے دن اخبارات میں اس کی ایک تصویر بڑی مشہور ہوئی جس میں ہتھکڑی لگی ہوئی تھی اور اس کی بچی گود میں اس سے کھیل رہی تھی۔ نیچے شعر لکھا ہوا تھا:

ہتھکڑی شاید اس کو اچھی لگی

میری بچی مجھے دیکھ ہنس پڑی

جن اساتذہ کو پچھلے دنوں لاہور کی عدالت میں پیش کیا گیا ان پر غیر قانونی بھرتیوں کا الزام ہے۔ الزام اگر ثابت ہوتا ہے تو یہ باعث شرمندگی ضرور ہو گا مگر کیا یہ ایسا خطرناک جرم ہے کہ ملزمان کو ہتھکڑی لگا کر پیش کیا جاتا۔ ذرا چینل پر چلنے والی اس ویڈیو کو دیکھیں، ان اساتذہ کی عمروں کو دیکھیں، ان کے ہاتھوں میں لگی ہتھکڑیوں کو دیکھیں اور پھر ایک نظر ان کی تعلیمی قابلیت پر ڈالیں، یہ بھی ضرور دیکھیں کہ ان میں ایک کو سہارا دے کر لایا جا رہا تھا۔ شکر ہے ان کے ’سر کی قیمت‘ نہیں لگی ہوئی تھی وگرنہ ماورائے عدالت ہی کچھ ہو جاتا۔

جن لوگوں نے یہ کہہ کر ان کی گرفتاری اور ہتھکڑی میں پیش کرنے کا دفاع کیا ہے کہ قانون سب کیلئے یکساں ہوتا ہے اور اس کی نظر میں کوئی بڑا، چھوٹا یا امیر، غریب نہیں ہوتا۔ وہ غلطی پر ہیں، کاش ایسا ہی ہوتا۔ کسی آئین توڑنے والے کو ’نظریہ ضرورت‘ کے تحت حکومت کرنے کا اختیار نہیں ملتا بلکہ اس کے ہاتھوں میں بھی ہتھکڑی لگتی۔ کسی ماورائے عدالت قتل کے الزام میں پولیس افسر بھی ایسے ہی پیش کیا جاتا۔ کم سے کم 71سال کی تاریخ تو ہمیں یہی بتاتی ہے کہ ’قانون سب کیلئے یکساں‘ صرف قانون کی کتابوں میں ہوتا ہے۔ آزاد عدلیہ کے بعد یہ امید بھی ہے اور شاید اسی وجہ سے چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار نے اس واقعہ کا نوٹس لیا اور افسران کو معافی مانگنی پڑ گئی۔

ہماری تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ شاعر، ادیب، صحافی جیلوں میں بھی گئے، کوڑے بھی کھائے۔ جرم صرف اپنے وقت کے طاقتور کے سامنے ’انکار‘کرنا یا لکھنا۔ فیض احمد فیض، حبیب جالب ہوں یا جوش یا تو وہ جیل گئے یا پابندیوں کا سامنا کیا۔ مدیران اور صحافیوں نے تو بیروزگاری بھی دیکھی۔

چونکہ سیاسی سوچ رکھنا بھی جرم رہا ہے لہٰذا وہ اساتذہ کرام جو نظریاتی تھے انہیں جیل بھی بھیجا گیا اور ہتھکڑی میں بھی پیش کیا گیا جیسا کہ پروفیسر جمال نقوی مرحوم یا ڈاکٹر حسن ظفر عارف مرحوم کے ساتھ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ہوا۔ جن دانشوروں نے 1983میں چلنے والی تحریک بحالی جمہوریت کو سندھ میں طاقت کے ذریعے دبانے کی مخالفت میں بیان جاری کیا انہیں سزا کے طور پر اپنے اپنے اداروں سے نوٹس دے کر فارغ کر دیا گیا۔ ان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے اساتذہ بھی تھے۔ ان کو تو ایوارڈ ملنا چاہئے تھا کہ انہوں نے سندھ کے اس احساس محرومی کو ختم کرنے میں مدد دی کہ پنجاب کے عوام آپ کے ساتھ ہیں۔ اتحاد کی اس سے بہتر مثال کیا ہو سکتی تھی۔

یہ بات درست ہے کہ ہمارا تعلیمی معیار زوال پذیر ہے۔ یہ بھی غلط نہیں کہ آج کے اساتذہ اور ماضی کے اساتذہ میں بڑا فرق ہے۔ اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ تعلیمی ادارے کمائی کا ذریعہ زیادہ اور تعلیم کا کم بن کے رہ گئے ہیں۔ سرکاری مداخلت اداروں میں بڑھ گئی ہے مگر سوال استاد کے تقدس کا ہے۔ ان کو ہتھکڑی میں پیش کرنا تذلیل ہے۔ ابھی تو الزام کی تحقیقات ہونی ہیں، غیر قانونی تقرریوں کی۔

ایسے واقعات کا ایک نفسیاتی پہلو بھی ہوتا ہےجو معاشرے کو بھی متاثر کرتا ہے۔ کیا ہم یہ تصور کر سکتے ہیں کہ جس انداز میں ان اساتذہ کو ہتھکڑی لگا کر پیش کیا گیا اس سے ان ہزاروں طالبعلموں پر کیا اثر ہوا ہو گا جنہوں نے ان سے تعلیم حاصل کی۔

ہم بہ حیثیت معاشرہ ویسے ہی تقسیم ہیں اور آج تک اپنی سمت کا تعین نہیں کر پائے۔ آج بھی اساتذہ کی اکثریت گھر اور گاڑی کے بغیر اپنا کام انجام دے رہی ہے یا وہ ٹیوشن پر گزارہ کرتے ہیں۔ ہر ادارے میں کرپشن سرطان کی مانند گھس گئی ہے تو تعلیمی ادارے کہاں محفوظ رہ سکتے ہیں۔

میں ان اساتذہ کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا نہ ان میں سے کسی سے ملا ہوں ماسوائے شاید مجاہد کامران صاحب کے، وہ بھی جامعہ پنجاب میں کسی کانفرنس کے موقع پر۔ مگر اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ آپ کے نام کے ساتھ سر، ٹیچر یا استاد لگا ہو۔ پروفیسر کے گھر سے کتاب کا ذخیرہ تو برآمد ہو سکتا ہے مگر اسلحہ کا ذخیرہ نہیں۔ قابل اعتراض نظریاتی مواد تو مل سکتا ہے مگر بم بنانے کی فیکٹری دریافت نہیں ہو سکتی۔ اگر ان گرفتار اساتذہ نے کوئی غیر قانونی کام کیا ہے تو ضرور قانون اپنا راستہ لے مگر ملزم کو مجرم بنا کے پیش کرنا، استاد کو دہشت گرد کی طرح ہتھکڑی پہنانا انسانیت کی تذلیل ہے۔ اس واقعہ کا یا ان جیسے دیگر واقعات کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ ایک جمہوری دور میں ہو رہا ہے۔ ہماری سیاست کوئی بہت زیادہ قابل تقلید نہیں رہی مگر سیاستدانوں نے چاہے ان پر لگائے جانے والے الزامات غلط ہوں، عدالتوں کا سامنا بھی کیا اور اکثر ان کو مجرموں کی طرح پیش کیا گیا۔ اب سیاست کو منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور ہر منفی چیز کو ’سیاسی‘کہہ کر تعبیر کیا جاتا ہے۔

یہی حال اب ہمارے تعلیمی نظام کا ہو گیا ہے۔ اصل مسئلہ جامعات کی خودمختاری کا ہے۔ کیوں کوئی گورنر یا وزیراعلیٰ جامعات کا چانسلر ہو یا کیوں کوئی سرکاری افسر سنڈیکیٹ کا ممبر ہو۔ ایک زمانہ تھا جب پولیس کی جرأت نہیں ہوتی تھی کہ کسی جامعہ میں داخل ہو سکے ماسوائے اس وقت جب وائس چانسلر اسے طلب نہ کرے۔ اب خودمختاری یرغمال ہو کر رہ گئی ہے جس سے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم ویسے بھی ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں نہیں رہی مگر یہ مسئلہ تعلیم یا جامعات کی خودمختاری سے زیادہ بنیادی حقوق کا ہے اور اساتذہ کو ہتھکڑی میں پیش کرنے پر انسانی حقوق کے وزیر کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ وہ خود بھی ایک قابل خاتون ہیں اور انسانی حقوق پر آوازیں اٹھاتی رہی ہیں پھر یہ خاموشی کیوں۔

چلو اچھا ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے ورنہ تو اب تک انسانی حقوق کی وزارت کو نوٹس لے لینا چاہئے تھا۔ چلو اچھا ہوا اساتذہ کو ہتھکڑی لگی۔ یہ بڑے خطرناک لوگ ہوتے ہیں، فرار بھی نہیں ہوتے، جیل بھی نہیں توڑتے۔ جیل چلے جائیں تو وہاں بھی تعلیم ہی دیتےہیں جرم سے بچنے کی۔ بے گناہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا۔ قاتل آزاد، استاد بند۔