ہیلو ڈاکٹر...

October 28, 2018

آپ نے اکبر بادشاہ کا قصّہ تو سُنا ہوگا۔ ایک روز اُنھوں نے اپنے دربار میں موجود وزراء سے پوچھا ’’بتاؤ ،دہلی میں سب سے زیادہ افراد کس پیشے سے وابستہ ہیں؟‘‘کسی نے کہا، فوج، تو کوئی کاشت کاروں کی تعداد زیادہ بتا رہا تھا۔ بعض وزراء کا اصرار تھا کہ دارالحکومت میں سب سے زیادہ تعداد تاجروں کی ہے اور کچھ بزازوں اور درزیوں کی تعداد زیادہ بتاتے رہے، مگر بیربل کے جواب نے تو سب کو حیران کردیا۔ اُس نے کہا’’ جہاں پناہ! دہلی میں سب سے زیادہ تعداد طبیبوں کی ہےاور اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں، تو صبح بازار تشریف لے آئیں۔‘‘ قصّہ مختصر، بادشاہ صبح سویرے بھیس بدل کر بازار پہنچ گئے، جہاں بیربل پہلے ہی سے موجود تھا۔ بادشاہ نے دیکھا کہ بیربل نے ہاتھ پر پٹّی باندھ رکھی ہے، تو اُس نے پوچھا’’ یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘ بیربل نے کہا’’ حضور! کوئی سنجیدہ مسئلہ نہیں۔ بس کل رات کھانے پکانے میں اہلیہ کی مدد کر رہا تھا کہ چُھری سے انگلی پر ہلکا سا کٹ لگ گیا۔‘‘ یہ سُن کر بادشاہ نے اُسے کئی علاج تجویز کردیے۔ بعدازاں اُنھیں بازار میں کئی اور لوگ بھی ملے اور ہر ایک پٹّی دیکھ کر سبب معلوم کرتا اور زخم کا سُن کر طرح طرح کے طبّی مشورے بھی دیتا۔ اس پر بیربل نے کہا’’ حضور! آپ نے دیکھ لیا؟ یہاں تو آپ سمیت ہر شخص ہی طبّی ماہر ہے ۔‘‘ اس طرح کے تجربات سے آپ بھی بارہا گزرے ہوں گے، اگر نہیں، تو دیر کس بات کی، ابھی اور اسی وقت تجربہ کر لیجیے۔ جسم کے کسی حصّے پر ہاتھ رکھ کر درد کا تاثر دیجیے اور پھر دیکھیں، آپ کے اطراف کیسے کیسے حکیم اور ڈاکٹرز موجود ہیں۔ اللہ کریم بیماریوں سے بچائے، لیکن اگر کبھی کوئی بیماری لگ جائے، تو سب سے مشکل مرحلہ ماہر ڈاکٹر کی تلاش ہی ہوتا ہے۔ ملنے جُلنے والوں کی جانب سے اس قدر مشورے ملتے ہیں کہ مریض پریشان ہو جاتا ہے کہ کس کی مانے اور کس کی سُن کر دوسرے کان سے نکال دے۔ تاہم، بدلتے زمانے کے ساتھ ڈاکٹرز کی تلاش کے طریقوں میں بھی جدّت آگئی ہے اور اب ڈاکٹرز آن لائن بھی دست یاب ہیں۔ آپ ٹیلی فون یا ویڈیو کالز کے ذریعے نہ صرف یہ کہ اُن سے طبیّ معاملات پر مشاورت کر سکتے ہیں، بلکہ وقت طے کر کے علاج معالجہ بھی کرواسکتے ہیں۔ جی ہاں، پاکستان میںبھی ایسا ہو رہا ہے اور بڑے منظّم طریقے سے ہو رہا ہے۔

گزشتہ دنوں چین کے شہر، شنگھائی میں منعقدہ ایک تقریب میں پاکستان میں آن لائن طبّی سہولتیں اور خدمات فراہم کرنے والی ایک کمپنی نے گوگل کے’’ڈیمو ڈے ایشیا‘‘ میں’’ آڈیئنس چوائس ایوارڈ‘‘ اپنے نام کیا۔ گوگل نے رواں سال آن لائن کمپنیز سے درخواستیں طلب کی تھیں، جس میں ایشیا بھر سے انٹرٹینمنٹ، فوڈ، ہیلتھ، ٹیکنالوجی اور زراعت سمیت دیگر شعبوں میں کام کرنے والی 305 نئی آن لائن کمپنیز کی جانب سے درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں سے صرف 10 کو شارٹ لسٹ کیا گیا اور ان 10 کمپنیز میں پاکستان سے صرف یہی ایک کمپنی جگہ بنا سکی۔ پھر ان 10 کمپنیز نے 21 ستمبر کو شنگھائی میں منعقدہ تقریب میں اپنی خدمات کا ڈیمو پیش کیا، جس میں پاکستانی کمپنی کو’’ آڈیئنس چوائس ایوارڈ‘‘ ملا، جب کہ’’ ججز ایوارڈ‘‘ بھارتی آن لائن طبّی کمپنی جیت گئی۔ ایوارڈ جیتنے والی یہ پاکستانی کمپنی کیا ہے؟ اور کیسے کام کرتی ہے؟ ہم نے یہ سوال اُس کمپنی کے سی او، محمّد نعمان امام سے پوچھا، تو اُنھوں نے بتایا’’ ہم نے دو برس قبل آن لائن طبّی سہولتوں کی فراہمی کے لیے’’ مرہم‘‘ کے نام سے کمپنی قائم کی۔ مریض ہماری ویب سائٹ، فیس بُک پیج یا اسمارٹ فون ایپلی کیشن کے ذریعے کسی بھی بیماری کے ماہر ڈاکٹر تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس ضمن میں ہم دو طرح کی سروسز فراہم کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہمارے ذریعے ماہر ڈاکٹر سے آن لائن مشاورت کی جا سکتی ہے اور دوسری یہ کہ ہم مریضوں کو ماہر ڈاکٹرز سے آن لائن اپائنٹمینٹ حاصل کرنے کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں۔ اِن دنوں ہم لاہور، کراچی، اسلام آباد، کوئٹہ، پشاور، جیکب آباد، لاڑکانہ، حیدرآباد، بہاول پور، واہ کینٹ، ڈیرہ غازی خان اور راول پنڈی سمیت متعدّد دیگر شہروں میں یہ سہولتیں فراہم کر رہے ہیں اور 12 ہزار سے زائد ڈاکٹرز ہماری کمپنی سے منسلک ہیں۔ نیز، اب تک 50 لاکھ سے زائد مریض ہماری آن لائن خدمات حاصل کرچُکے ہیں، جب کہ ماہانہ ڈھائی لاکھ سے زائد افراد ویب سائٹ وِزٹ کرکے ڈاکٹرز سے مشورے اور اپائنٹمینٹ حاصل کر رہے ہیں اور تقریباً اتنے ہی فیس بُک کے ذریعے ہم سے رابطہ کرتے ہیں۔ ہم ان خدمات کے عوض مریضوں سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتے، البتہ ڈاکٹرز سے سروسز فراہم کرنے کی فیس لیتے ہیں۔‘‘ اسی طرح’’ امن فاؤنڈیشن‘‘نامی سماجی تنظیم بھی 2012ء سے’’ ٹیلی ہیلتھ‘‘ کے نام سے ایک بڑا آن لائن طبّی پروگرام چلا رہی ہے۔ اس تنظیم کے مینیجر مارکیٹنگ اور کمیونی کیشنز، مرتضیٰ عباس کاظمی نے اِس ضمن میں بتایا’’ امن ٹیلی ہیلتھ ایک ایسی سروس ہے، جس میں 24 گھنٹے طبّی اور ذہنی مسائل سے متعلق بہ ذریعہ فون مشورے اور معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس سروس کے علاوہ، امن ٹیلی ہیلتھ میں موجود ہیلتھ ڈائریکٹری کے ذریعے نزدیکی ڈاکٹرز اور ہاسپٹلز کے بارے میں بھی معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اس ڈائریکٹری میں تقریباً23,000ڈاکٹرز اور 5,500صحتِ عامّہ کے مراکز کے بارے میں معلومات موجود ہیں۔ اس سروس کا چھے برس قبل آغاز ہوا اور اب تک امن ٹیلی ہیلتھ کے پلیٹ فارم سے تقریبا 920,000افراد مختلف قسم کی سروسز سے استفادہ کر چُکے ہیں۔ پھر یہ کہ اس سروس کے لیے کال کر نے والوں سے کوئی اضافی چارجز وصول نہیں کیے جاتے۔‘‘ان کے علاوہ بھی مزید کئی معروف اور غیرمعروف تنظیمیں آن لائن طبّی مشاورت کے حوالے سے خدمات فراہم کر رہی ہیں۔ خیبر پختون خوا کے گاؤں، بھوسہ میںقائم’’ صحت کہانی کلینک‘‘ بھی ایک آن لائن طبّی مرکز ہے، جس کا پچھلے دنوں غیر مُلکی میڈیا میںخاصا چرچا رہا۔ اگر حکومتی حوالے سے بات کریں، تو اِس ضمن میں سب سے پہلے پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت نے خیبر پختون خوا میں عوام کو صحت کی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے ضلع مانسہرہ میں’’ ای- علاج‘‘ کے نام سے آن لائن ہیلتھ سینٹر قائم کیا۔ اس سینٹر کو ایک تیز رفتار انٹرنیٹ سروس کے ذریعے پشاور میں بیٹھے اسپیشلسٹ ڈاکٹرز سے مربوط کیا گیا، جن کا کام انٹرنیٹ کے ذریعے مریض کی کیفیت جاننے کے بعد سینٹر میں موجود طبّی عملے کو علاج سے متعلق ہدایت دینا تھا۔

اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ آن لائن طبّی مشاورت اور علاج کا سلسلہ پاکستان میں بھی مسلسل فروغ پا رہا ہے اور عوام اس طریقۂ علاج کی جانب راغب ہو رہے ہیں، تو اس تناظر میں کئی سوالات بھی سامنے آ رہے ہیں، جن کے جواب تلاش کرنا ازحد ضروری ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک عام شخص کو یہ کیسے معلوم ہو کہ اُس کی جس شخص سے بات کروائی جا رہی ہے، وہ واقعی اپنے شعبے کا کوئی ماہر ڈاکٹر ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ’’ نیم حکیم‘‘ ٹائپ افراد ہی عوام کو فونز پر مشورے دیتے ہوں۔ اس ضمن میں نعمان امام کا کہنا ہے کہ’’ ڈاکٹرز کو اپنی ٹیم کا حصّہ بنانے سے قبل سب سے پہلے ہم اُن کی اسناد کی خُوب جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ نیز، پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کاؤنسل کی جانب سے جاری کردہ سرٹیفیکیٹ کی بھی تصدیق کروائی جاتی ہے۔ پھر یہ کہ ہمارے پینل پر موجود ڈاکٹرز کی مکمل تفصیلات ہماری ویب سائٹ پر موجود ہیں تاکہ عوام ہر لحاظ سے اپنی تسلّی کرلیں۔‘‘ اس ضمن میں مرتضیٰ عبّاس نے بتایا’’ امن فاؤنڈیشن کی ٹیلی ہیلتھ سروس میں رجسٹرڈ نرسز فارماسٹس، ڈاکٹرز اور سائیکولوجسٹس موجود ہوتے ہیں۔ دورانِ سروس بھی عملے کی پیشہ ورانہ مہارت کو برقرار رکھنےکے لیے وقتاً فوقتاً مختلف قسم کے تربیتی کورسز کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ بہترین سروس کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔‘‘ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر، ڈاکٹر محمّد افضل میاں’’ ای- علاج‘‘ کو جدید دَور کی ضرورت سمجھتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے’’ ترقّی یافتہ ممالک میں’’ ای-علاج سسٹم‘‘ بہت منظّم طور پر کام کر رہا ہے۔ بنیادی طور پر تو اس نظام میں کوئی خرابی نہیں ہے،کیوں کہ جب ہم دیگر معاملات میںجدید ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں، تو علاج معالجے میںاسے کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے، تاہم ہمارے جیسے مُمالک میںرائج طور طریقوں کے پیشِ نظر اس طرح کے معاملات پر گہری نظر رکھنا بھی ضروری ہے تاکہ کوئی انسانی جان سے نہ کھیل سکے۔ ڈاکٹرز پر لازم ہے کہ وہ مریض کو مشورہ دیتے ہوئے اس حوالے سے اسلامی احکامات کو اپنے سامنے رکھیں۔ تاہم، ڈاکٹرز کو چیک اینڈ بیلنس کے نام پر بلاوجہ تنگ بھی نہیں کرنا چاہیے۔ آج کل ہمارے ہاں ڈاکٹرز کو بات، بے بات تنقید کا نشانہ بنانے کا رواج سا ہو گیا ہے۔ کبھی اُن کی فیسز پر تنقید کی جاتی ہے، تو کبھی وہ اپائنٹمینٹ کے معاملات پر غیض و غضب کا نشانہ بنتے ہیں، حالاںکہ اس ضمن میں ہمیں ڈاکٹرز کی مجبوریوں اور دنیا میں اس پیشے کے مقام و مرتبے کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔‘‘

’’ اگر مریض، ڈاکٹرز سے مطمئن نہیں یا اُنھیں کوئی شکایت ہے، تو اس کا ازالہ کیسے کیا جاتا ہے؟ ‘‘ہمارے اس سوال پر’’ مرہم‘‘ کی میڈیا کوآرڈینیٹر، اطلس برنی نے بتایا’’ ہم رابطہ کرنے والے ہر مریض سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے فیڈ بیک سے ہمیں ضرور آگاہ کرے، تاہم بیش تر افراد اپنی آراء سے آگاہ نہیں کرتے۔ ہمیں مریضوں کی جانب سے جو بھی فیڈ بیک ملتا ہے، اُسے ویب سائٹ پر ڈاکٹر کی پروفائل کے ساتھ منسلک کر دیتے ہیں تاکہ وزیٹرز، ڈاکٹرز سے متعلق عوامی آراء سے آگاہ ہو سکیں۔ نیز، کسی بھی شکایت کی صُورت میںفوری طور پر ڈاکٹرز سے رابطہ کرکے ازالے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘‘ امن فاؤنڈیشن کے ترجمان نے بتایا’’ ٹیلی ہیلتھ سروس میں کال کرنے والے افراد کی شکایات وصول کرنے اور اُنہیں دُور کرنے کے لیے ایک الگ کمپلینٹ نمبر 31523673 021موجود ہے ۔ اس نمبر پر کال کرکے کوئی بھی شکایت رجسٹر کروائی جاسکتی ہے، ادارے کی جانب سے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ہر شکایت کا ازالہ کر کے شکایت کنندہ کو اس کے متعلق مطلع کیا جائے۔‘‘ ای-علاج سے متعلق عوام میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ کراچی کے علاقے، نارتھ ناظم آباد میں رہائش پزیر، ناہید اقبال کا اس حوالے سے کوئی اچھا تجربہ نہیں۔ وہ کہتی ہیں’’ مَیں نے ای-علاج سے متعلق ایک ادارے کی آن لائن سروس میں فون کیا تاکہ ایک طبّی معاملے پر مشاورت کر سکوں، مگر دوسری طرف فون لائن پر موجود شخص نے جس طرح کا رویّہ اختیار کیا، اُس سے تو یہی لگ رہا تھا کہ اُس شخص نے طب کی بنیادی تعلیم بھی حاصل نہیں کی ہے۔ وہ بلاوجہ بات کو طول دینے کی کوشش کر رہا تھا اور اس معاملے کی بجائے اِدھر اُدھر کی باتوں میں زیادہ دِل چسپی لے رہا تھا۔ ممکن ہے اس طرح کا رویّہ خواتین کالرز ہی سے برتا جاتا ہو۔‘‘ اس کے برعکس، احسن جمال نے ای-علاج کی بہت تعریف کی۔ اُنھوں نے بتایا’’ پہلے خاندان میں کوئی بیمار ہوتا، تو ماہر ڈاکٹرز سے اپائنٹمینٹ لینا کسی دردِ سر سے کم نہیں ہوتا تھا، مگر ایک دوست نے ہمیں ایک ایسے ادارے سے متعارف کروایا کہ جس کے ذریعے ماہر ڈاکٹرز سے باآسانی اپائنٹمینٹ لیا جا سکتا ہے، تو اب ہم اُسی ادارے کے ذریعے ڈاکٹرز سے وقت لے لیتے ہیں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس کام کی کوئی فیس بھی نہیں دینی پڑتی۔‘‘

آن لائن علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنے والے اداروں کے منتظمین، طبّی ماہرین اور عوام کی آرا کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ جدید دنیا’’ ای- علاج‘‘ سے مستفید ہو رہی ہے اور اس طریقۂ علاج کو پاکستان میں بھی اپنانے میں کوئی حرج نہیں، تاہم یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے ایسے افراد کی بھی کمی نہیں ،جو ذاتی اغراض کے لیے انسانی جان داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ سو، جہاں عوام کو ای- علاج کی سہولتیں فراہم کرنا ضروری ہیں، وہیں ایسے اقدامات بھی کیے جانے چاہئیں کہ کوئی آن لائن علاج کے نام پر انسانی جانوں سے کھیلنے کی ہمّت نہ کرے۔