ریاض کانفرنس اور پاکستان

October 24, 2018

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں عالمی سرمایہ کاری کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے منگل کو وزیراعظم عمران خان نے بڑی دلسوزی سے پاکستان کی مسائل زدہ معیشت کا جامع تجزیہ پیش کیا اور ان اقدامات کا ذکر کیا جو ان کی حکومت ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ اور معاشی بحران کے حل کے لئے کررہی ہے۔ سعودی عرب نے گزشتہ سال سے سرمایہ کاری کے مواقع کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنسوں کا سلسلہ شروع کیا ہے ان کانفرنسوں میں دنیا بھر سے سرمایہ کاروں، تاجروں، صنعت کاروں، کارپوریٹ اور ہائی ٹیک انڈسٹری کے نمائندے اور بڑے میڈیا ہائوسز کے مندوبین شرکت کرتے ہیں اس سے انہیں ایک ہی چھت کے نیچے باہمی ملاقاتوں اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔ کانفرنس میں پچھلے سال 90 ممالک سے تقریباً چار ہزار نمائندے شریک ہوئے اس سال بھی حکومتی وفود سمیت بڑی تعداد میں لوگ شرکت کر رہے ہیں۔ ترکی میں سعودی صحافی جمال خشوگی کے پراسرار قتل کی وجہ سے ایک تنازع پیدا ہوگیا جس کے نتیجے میں امریکہ سمیت بعض ممالک نے کانفرنس میں شرکت پر اپنے تحفظات ظاہر کئے لیکن آخر کار سبھی شریک ہو گئے۔ وزیراعظم عمران خان بھی جو ملک کے بدترین معاشی بحران کے حل کے لئے فکر مند ہیں پیر کو سعودی عرب پہنچ گئے اور کانفرنس کے مندوبین سے خطاب کے علاوہ ان کے سوالات کے جواب بھی دیئے۔ سعودی عرب جانے سے قبل ایک انٹرویو میںانہوں نے کہا تھا کہ ملک کے معاشی بحران پر قابو پانے کے لئے ہمارے پاس دوست ملکوں سے مالی معاونت اور آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہم سعودی عرب سے بھی قرضہ لینے کے خواہاں ہیں۔ کانفرنس کی اہمیت کے پیش نظر وزیراعظم اپنے ساتھ خارجہ، خزانہ اور اطلاعات کے وزرا کے علاوہ اپنے اقتصادی معاونین کو بھی لے گئے ہیں۔ وہ ملائشیا کا دورہ بھی کرنے والے ہیں جہاں وزیراعظم مہاتیر محمد سے ملاقات کریں گے جنہوں نے اپنے غریب ملک کو انقلابی اقدامات سے دنیا کے ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا ہے ریاض کانفرنس میں شرکت سے وزیراعظم اور ان کے وفد کو دنیا کے بہترین بزنس مینوں اور سرمایہ کاروں کے سامنے پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع ، سہولتوں اور مراعات کو اجاگر کرنے کا موقع ملے گا۔ کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آنے والے تین سے 6ماہ پاکستان کے لئے سخت ہیں جن پر قابو پانے کے لئے ہم بیرونی سرمایہ کاروں اور اوورسیز پاکستانیوں کے لئے ترغیبات دے رہے ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ ہے برآمد کنندگان کو سہولتیں دے کر ہم اس پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں ٹیکسوں کے نظام میں بھی اصلاحات لارہے ہیں، سی پیک ہمارے لئے بڑے مواقع لے کر آیا ہے جس کی مدد سے کئی اقتصادی زون بن رہے ہیں، کرپشن کا خاتمہ ہمارا مرکزی ایجنڈا ہے ترقی یافتہ ممالک نے اس لئے ترقی کی کہ وہاں کرپشن نہیں ہے۔ وزیراعظم نے چین اور سعودی عرب سمیت برادر ملکوں سے مالی معاونت کی بات کی اور آئی ایم ایف سے بھی قرضہ لینے کو مجبوری قرار دیا برادر ملکوں سے مدد مل جائے تو آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی مگر معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ آئی ایم ایف کی شرائط بہت سخت ہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس ادارے کی مدد سے ہمیشہ ملکی معیشت کو استحکام ملا اور جونہی اس سے باہر نکلے معیشت غیر مستحکم ہونا شروع ہو گئی پا کستان کی موجودہ معاشی صورت حال اسی کا نتیجہ ہے تاہم کوشش یہ ہونی چاہیئے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کو بلا چوں چرا قبول نہ کیا جائے اور ہر فیصلہ ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے میرٹ پرکیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان کا سعودی عرب کا یہ دوسرا دورہ ہے جو خالصتاً معاشی معاملات کے حوالے سے ہے، توقع کی جانی چاہئے کہ پاکستان بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کرنے اور دوست ملکوں کو مشکل وقت میں پاکستان کی امداد پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔