سونا نہ چا ندی نہ کو ئی محل...!

October 25, 2018

پچھلے چند روز سے اسلام آباد میں دو اجتماع یا دو ہجوم نظر آرہے ہیں۔ میں گھومتا گھماتا ان دونوں ہجوموں کے قریب پہنچ گیا۔ ایک ہجوم سے کچھ فاصلے پر چند لوگ ایک نیم دائرہ سا بنا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں سلام کیا اور ہجوم یا احتجاج کرنے والے لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟ انہوں نے یک زبان ہو کر جواب دینے کی کوشش کی اور کہا کہ یہ سب یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے ملازمین ہیں، جو اس ادارے کو بند یا پرائیوٹائز کرنے کی خبروں کی وجہ سے پریشان ہوکر پورے ملک سے یہاں آئے ہیں اور ہم بھی انہی کے ساتھ ہیں اور دھرنے میں شامل ہیں، بس تھوڑی تھکاوٹ کا شکار ہو جانے کی وجہ سے سائیڈ پر ہوکر بیٹھ گئے ہیں۔ میں نے ان میں سے ایک سینئر شخص سے کہا کہ آپ بتائیں، آپ کیا چاہتے ہیں؟ اس شخص نے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو جو حقیقی لیڈر تھے، وہ نہ صرف عوام کے مسائل کے حل کیلئے کوشاں رہے بلکہ ادارے بھی بنائے۔ یوٹیلٹی اسٹورز کا ادارہ تقریباً 45سال قبل بھٹو نے اس لئے بنایا تھا کہ متوسط اور غریب عوام کو سستے داموں اشیائے ضروریہ دستیاب ہوں۔ یہ ایک زبردست آئیڈیا تھا جس سے لوگوں کو روزگار بھی ملا اور سستے داموں اشیاء بھی، لیکن ایک غلطی ہوئی کہ اس ادارے کے اہم عہدوں پر بھی سیاسی بنیادوں پر لوگ بٹھا دیئے گئے۔ یہ نئی اور شاندار عمارت کا ایک ایسا سوراخ تھا جس نے گھر کو اندر سے آلودہ کرنا شروع کر دیا، حالانکہ اگر اس کی درست روح یا سپرٹ کے مطابق کام جاری رکھا جاتا تو آج ان اسٹورز کی تعداد چار پانچ ہزار کے بجائے پچاس ہزار سے زائد ہوتی اور لاکھوں بے روزگار لوگوں کو روزگار ملتا۔ میں نے اس شخص کی عقل اور بلاغت کی داد دیتے ہوئے پوچھا کہ آپ کے مطالبات کیا ہیں؟ اس شخص نے کہا کہ ایک ایماندار اور قابل افسر کو اس کا سربراہ لگا دیں تو ہمارے مطالبات خود ہی حل ہو جائیں گے مثلاً کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز ملازمین کو مستقل کیا جائے، اس ادارے کو پرائیوٹائز نہ کیا جائے۔ اس شخص نے کہا کہ میری ایک اور تجویز ہے کہ اسٹورز کے لئے اجناس کی خریداری کے لئے براہ راست کسان اور انڈسٹری سے گفت و شنید کر کے اچھی کوالٹی اور سستے داموں سامان خریدا جائے اور اسٹورز کی ظاہری شکل و صورت بھی اچھی بنائی جائے تو یہ اسٹورز لاکھوں ملازمتوں کے علاوہ مہنگائی کا توڑ بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔

آپ کو اسلام آباد کے دوسرے ہجوم کے حوالے سے بتائوں، یہ ہجوم نیا پاکستان ہائوسنگ پروگرام کے فارم کے حصول کیلئے اکٹھا ہوا تھا۔ میں نے ایک شخص سے پوچھا کہ وہ کیا کرتا ہے اور اس اسکیم کے حوالے سے اس کا کیا کہنا ہے؟ اس نے بتایا کہ وہ ایک ہوٹل میں ویٹر ہے اور چھٹی لیکر فارم لینے آیا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ سمجھتا ہے کہ اس کو اپنا گھر مل جائے گا؟ اس شخص نے ایک لمبا سانس لیا اور کہنے لگا کہ ہر غریب آدمی کو پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے دو وقت کی روٹی، بچوں کیلئے اسکول اور صحت کے لئے اسپتال کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے اور اس کے بچوں کے لئے اپنی چھت ہو اور دوسری بڑی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے بچے تعلیم حاصل کرکے والدین سے اچھی زندگی گزارنے کے لائق ہو جائیں۔ اگر تو یہ اسکیم واقعی غریبوں اور بے آسرا لوگوں کیلئے ہے تو وہ لوگ جو اپنے پیسے کے بل بوتے پر غریبوں کو خرید لیتے ہیں، انہیں اس اسکیم سے دور رکھا جائے اور ان کو دور رکھنے کے لئے قانون بنایا جائے کہ اگر کسی نے غریب کو سامنے رکھ کر مکان حاصل کیا تو اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہو گی، اس طرححقدار کو یہ مکان ضرور ملے گا۔ ورنہ لائنوں میں ہم لگے رہیں گے اور فائدہ کسی اور کو پہنچے گا۔ اس شخص کے قریب ایک اور آدمی بھی کھڑا تھا وہ کہنے لگا سرجی! آپ نے فلم ’’بندش‘‘ دیکھی ہے؟ میں نے نفی میں سر ہلایا تو وہ کہنے لگا: یہ 1980ء کی دہائی کی فلم ہے جس میں ہیرو ندیم اور ہیروئن شبنم تھی، اس فلم کا مشہور گانا تھا:

سونا نہ چاندی نہ کوئی محل جانِ من

تجھ کو میں دے سکوں گا

پھر بھی یہ وعدہ ہے تجھ سے

تو جو کرے پیار مجھ سے

چھوٹا سا گھر تجھ کو دوں گا

دکھ سکھ کا ساتھی بنوں گا

اگر موجودہ حکومت ہر غریب کو چھت دینے والا کام کر گئی تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ عوام طویل عرصہ تک اس حکومت کے گن گائیں گے....ورنہ حالات مزید خراب ہوں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)