دوست آں باشدکہ گیرد دستِ دوست

October 26, 2018

حافظ سعدی شیرازی کی دو کتابوں ’گلستان‘ اور ’بوستان‘ نے اِس خطے کی اخلاقی اور ذہنی تربیت میں غیر معمولی حصہ لیا، اُن کا ایک شعر ہے کہ ’دوست وہ ہوتا ہے جو پریشانی اور واماندگی کی حالت میں اپنے دوست کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیتا ہے‘۔ تاریخ شاہد ہے کہ سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا اور پاکستان نے بھی حقِ دوستی ادا کرنے میں کبھی تساہل سے کام نہیں لیا۔ 1965ء کی جنگ میں خادم الحرمین شریفین شاہ فیصل نے پاکستان کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے تھے۔ میں نے اُن کا اکتوبر 1967ء میں انٹرویو کیا تو وہ چھ روزہ اسرائیل، عرب جنگ کے نتائج سے بہت افسردہ تھے جبکہ 1965ء کی جنگ میں پاکستان کی فتح پر بہت مطمئن۔ اُنہوں نے بتایا تھا کہ ہم اپنے جواں ہمت پاکستانیوں اور اُن کی شیردل فوج کی حفاظت کے لیے اپنے ربِ کریم سے رات کے آخری پہر گڑگڑا کر دعائیں مانگا کرتے تھے، کیونکہ ہم پاکستان کو اسلام کا سب سے مضبوط قلعہ سمجھتے ہیں۔

پھر سانحہ مشرقی پاکستان ظہور پذیر ہوا جو اسلامی دنیا کے لیے ایک انتہائی اندوہناک واقعہ تھا۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے پاکستانی فوجی افسروں پر جنگی جرائم کے مقدمات چلانے کا اعلان کر دیا تھا جو پاکستان میں سخت اشتعال پھیلانے کا باعث بنا ہوا تھا۔ اِن حالات میں شاہ فیصل نے ایک مدبرانہ کردار اَدا کیا اور لاہور میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کے انتظامات کیے جس کے زیادہ تر اخراجات سعودی عرب نے برداشت کیے۔ وہ شیخ مجیب الرحمٰن کو اِس امر پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے کہ وہ فوجی افسروں پر مقدمات نہیں چلائیں گے، چنانچہ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس میں شیخ مجیب الرحمٰن آئے اور فلسطینی تحریک کے صدر یاسر عرفات بھی۔ لاہور میں شاہ فیصل کے استقبال کے لیے لاکھوں شہری موج درموج پھیلے ہوئے تھے۔ اِسی دورے میں جناب حکیم عبدالرحیم کی دعوت پر وہ لائل پور گئے اور اِس شہر کا نام فیصل آباد رکھا گیا۔ اِسی موقع پر جناب شاہ فیصل نے پاکستان کو فیصل مسجد کا تحفہ پیش کیا۔

سقوطِ پاکستان میں بھارتی فوج نے براہِ راست حصہ لیا تھا اور پاکستانی فوج کو شکست دینے کے بعد وزیراعظم اندراگاندھی کے حوصلے بہت بڑھ گئے تھے جنہوں نے فخریہ انداز میں کہا تھا کہ ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے۔ بھارت نے ایٹمی طاقت بننے کے لیے سرتوڑ کوششیں شروع کر دی تھیں جن سے پاکستان کی سلامتی کو حقیقی خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ اِس نازک مرحلے میں جناب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سعودی عرب کے دورے پر گئے اور فرمانروا شاہ فیصل کو ملاقات کے دوران بتایا کہ پاکستان اور عالمِ اسلام کی سلامتی کے لیے ایٹمی پروگرام انتہائی ضروری ہو گیا ہے۔ اِس پر شاہ فیصل نے کسی تذبذب کے بغیر کہا کہ آپ مالی وسائل کی طرف سے بےفکر ہو جائیں اور ایٹمی پروگرام کسی تاخیر کے بغیر شروع کر دیں۔ یہ پروگرام جس کا آغاز جناب بھٹو کے عہد میں ہوا، اِس کی تکمیل جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ہوئی جس کی مالی نگرانی میں صدر غلام اسحٰق خاں نے کلیدی کردار اَدا کیا۔ میاں محمد نوازشریف نے 28اور30مئی 1998ء کو بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں چھ ایٹمی دھماکے کر ڈالے جن سے ایک دنیا حیرت زدہ رہ گئی۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے باز رکھنے کے لیے پانچ ارب ڈالر کی پیشکش کی جسے پاکستانی وزیراعظم نے قوتِ ایمانی سے مسترد کر دیا، اِس پر امریکہ نے پاکستان پر پابندیاں عائد کر دیں جن سے اس کی معیشت ڈگمگانے لگی۔

سابق وزیراعظم نوازشریف سعودی ولی عہد شہزادہ عبداللہ بن عبدالعزیز سے ملے، اُنہوں نے گلے سے لگایا اور مبارک باد پیش کی۔ کھل کے مالی امداد فراہم کی اور کئی برسوں تک سعودی عرب پاکستان کو ادھار پر بڑی مقدار میں تیل فراہم کرتا رہا۔ 2013ء میں نوازشریف طویل جلاوطنی کاٹنے کے بعد وزیراعظم بنے، تو خزانہ بوجھ اُٹھانے کے قابل نہیں تھا۔ سعودی عرب نے نہایت خاموشی سے ڈیڑھ ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں جمع کرا دیے اور پاکستان کو سانس لینے کی مہلت میسر آ گئی۔ عمران خاں وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے سعودی عرب گئے۔ بڑا مقصد مالی امداد حاصل کرنا تھا۔ کچھ معاملات طے بھی پا گئے تھے، مگر اُن کے وزیروں اور مشیروں کی لاف زنی کے باعث توقعات پوری نہ ہوئیں۔ اِس کے بعد ایک اندوہناک واقعے نے عالمی تناظر یکسر بدل کے رکھ دیا اور سعودی عرب پر کڑا وقت منڈلانے لگا۔ سعودی صحافی جمال خاشقجی جو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں کا سخت ناقد تھا، امریکہ منتقل ہو گیا تھا اور واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھتا تھا۔ وہ ایک ترک خاتون خدیجہ سے شادی کرنے کے سلسلے میں بعض دستاویزات حاصل کرنے 2؍اکتوبر 2018ء کو سعودی قونصلیٹ استنبول کے دفتر گیا اور واپس نہیں آیا۔ اِس پر خدیجہ نے مختلف واقف کاروں کو اطلاع دی اور پوری دنیا میں یہ خبر پھیل گئی۔ پندرہ روز گزرنے کے بعد سعودی وزیرِخارجہ نے اعتراف کیا کہ صحافی غلطی سے قتل ہو گیا ہے جو ایک خوفناک واقعہ ہے جس کی ہم تحقیقات کر رہے ہیں اور ذمہ دار لوگوں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔ یہ انکشاف بھی کیا کہ اِس واقعے میں اٹھارہ اشخاص ملوث تھے جن میں سیکورٹی اور انٹیلی جنس کےمنصب دار بھی شامل تھے، وہ سب کے سب عہدوں سے ہٹا دیے گئے ہیں اور حقائق اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔

یورپین یونین کے بیشتر ممالک کے وزرائے خارجہ نے صحافی کے قتل کے حوالے سے سعودی عرب کے خلاف ایک تندوتیز بیان جاری کر دیا۔ امریکی صدر ٹرمپ، شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر امریکی، برطانوی اور جرمن اخبارات آسمان سر پر اُٹھائے ہوئے ہیں۔ سعودی ولی عہد جو 500ارب ڈالر کی مالیت سے ایک جدید شہر بسانا چاہتے ہیں، وہ چند برسوں سے سرمایہ کاری کانفرنس منعقد کر رہے ہیں۔ اِس بار یہ کانفرنس 23؍اکتوبر کو منعقد ہوئی، مگر اِس کا بڑے ممالک اور عالمی کمپنیوں نے بائیکاٹ کیا، تاہم پاکستان کے وزیراعظم اپنے کلیدی وزیروں اور مشیروں کے ہمراہ شریک ہوئے اور سعودی عرب کے ساتھ ثابت قدمی سے کھڑے رہے۔ اس سے پہلے ایک بین الاقوامی فورم پر یہ شکایت زیرِ بحث آئی کہ سعودی عرب انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے، تو پاکستان نے سعودی عرب کے حق میں ووٹ دیا۔ مشکل کے وقت ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑ لینا ہی اصل دوستی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)