تربیت سے قبل حفاظت ضروری

October 26, 2018

بیٹی اس پھول کی مانند ہے جس کی حفاظت اگر بہترین طریقے سے نہ کی جائے تو وہ جلد مرجھاجاتا ہے۔ ہم بچیوںکی تعلیم و تربیت میں اس قدر مگن ہوجاتے ہیں کہ کئی بار ان کی حفاظت کا پہلو نظر اندازکردیتےہیں، یہی نظر اندازی وحشیوں کو اپنی ہوس پوری کرنے کا موقع دیتی ہے۔ کسی تحریر کے لیے لفظوں کا چناؤ شایدکبھی اتنا مشکل محسوس نہ ہوا ہو، جتنا کسی معصوم کلی سے متعلق شرمناک واقع پر کچھ لکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے۔ بطور صنف نازک ایک ماں کے جذبات ہم سے اچھا بھلا کوئی سمجھ سکتا ہے؟ لیکن اس جذباتی لگاؤ سے زیادہ آگہی ضروری ہے کیونکہ تربیت کے ساتھ بیٹی کی حفاظت ضروری ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلا کردار ماں ہی ادا کرتی ہے، بچیاں محفوظ ہوں گی تو ان کی بہترین تربیت کا خواب پورا ہوسکے گا، بصورت دیگر خدانخواستہ ہر خواب کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا، معاشرے میںجس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھٹے بڑےملک پاکستان میں سالانہ اوسطاً ایک ہزار سے زائد بچے بچیاں اغوا کر لیے جاتے ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والے معصوم لڑکے لڑکیوں کی اوسط تعداد بھی ہزار سے زائد ہوتی ہے۔اغواء اور تشدد کے بڑھتے واقعات کی جہاں دیگر وجوہات ہیں انھیں میں سے ایک والدین کی بے خبری بھی ہے۔ اگر بچوں کو محفوظ کرنا ہے تو سب سے پہلا قدم آپ نے اٹھانا ہے۔

رویے پر نظر

بچیوںکے مسائل پر ہی نہیں بلکہ ان کی تمام حرکات وسکنات پر نظر رکھیں اور جہاں کہیں کچھ بھی غیر معمولی ہو ان سے پیار محبت سے پوچھنے کی کوشش کریں ۔گر آپ کو محسوس ہو کہ آپ کی بیٹی کے رویے میںکسی بھی قسم کی تبدیلی یا خوف محسوس ہورہا ہے تو مختلف نوعیت کے سوالات کے ذریعےاس تبدیلی کی وجہ تلاش کرنے کی کوشش کریں بچوں سے پیار محبت سے ان متعلق پوچھنے کی کوشش کریں ۔

اساتذہ پرنظر

اگر چہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اساتذہ والدین کا دوسرا روپ ہوتے ہیں لیکن آپ کو اس بات پر آنکھیں بند کرکے اندھا اعتماد نہیں کرنا۔ یہ دیکھیں کہ جن اساتذہ کو آپ اپنی بچوں کے لیے منتخب کررہی ہیں وہ بھروسے کے قابل ہیں بھی یا نہیں۔ ہم اکثر یہ سنتے ہیں کہ فلاں بچی کے ساتھ اساتذہ نے غیر مناسب رویہ رکھا یا فلاں نے بچیوں کے ساتھ زیادتی کی۔ کچھ عرصہ قبل کسی سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ ان کے رشتہ دار اپنی بچی کا خوف سمجھنے سے قاصر تھے لیکن جب وہ ان کے گھر ملاقات کے لیے گئے تو اپنی دور اندیشی کی بدولت بھانپ گئے کہ بچی کو خوف کسی اور سے نہیں بلکہ اپنے ٹیوٹر سے ہے۔ انھوںنے والدین کو آگاہ کیا اوربچی سےپوچھنے پر معلوم ہوا کہ ٹیوٹر پڑھانے کے دوران غیر مناسب رویہ اختیار کرتے ہیں اور یہ بات گھر میں کسی کو بتانے سے بھی منع کیا ہے۔

اجازت لینے کی تربیت دیں

بچوں کو بچپن سے ہی تربیت دیں کہ جس طرح ان کی اپنی پرائیویسی ہے، اسی طرح دوسروں کی بھی ہے۔ چاہے بہن بھائی ہی کیوں نہ ہوں کوئی بھی کام کرنے سے قبل ایک دوسرے سے اجازت لیںمثلاً بھائی بہن کے کمرے میں اجازت لے کر جائے،اسی طرح بہن بھی مختلف باتوں کی اجازت لے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ خود یہ عمل کرکے دکھائیں مثلاً جہاں بیٹیاں بیٹھی ہوں اس حصے میں جاتے ہوئےان سے اجازت لیجیے۔

ہچکچاہٹ یا غیر معمولی پسندیدگی کیوں ؟

والدین مصروفیات کے سبب اکثر وبیشتر بچوں یا بچیوں کو ملازم کے سپرد کرجاتے ہیں، اگر آپ کا بچہ یا بچی کسی بڑے کے ساتھ کہیں باہرجانے میں یا تنہائی میں وقت گزارنے میں ہچکچائے تو کبھی بھی اس کو مجبور نہ کریں بلکہ وجہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی نظر رکھیں کہ اسے کہیں بڑی عمر کے کسی مخصوص شخص کی صحبت تو پسند نہیں کرتا۔

باڈی رائٹس

صرف بچے ہی نہیں بلکہ ہم میں سے کتنے ہی بڑے ایسے ہوں گے، جو یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آپ کے باڈی رائٹس کیا ہیں؟ آپ نے کتنے فاصلے پر رہ کر کسی سے بات کرنی ہے ؟کسی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھنا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن بطور ماں آپ کا فرض ہے کہ آپ بچیوںکو گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ سے آگاہ کریں ۔ بیڈ ٹچ اور گڈ ٹچ سے متعلق آگہی فراہم کرنا اساتذہ یا میڈیا کاہی نہیں آپ کا بھی کام ہے ۔بچوں سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے شرمندگی محسوس نہ کریں، انھیں بتائیں کہ جسم کے مخصوص حصوں کو چھونے کی اجازت کسی کو بھی نہ دیں۔ بلاوجہ کسی کی گود میں بیٹھنے سے گریز کریں ،پیار لینے ہی نہیں کسی کو بھی پیار کرنے یاچاکلیٹ لینے سے بھی گریز کریں۔ بچے اور بچیوں کو اکیلے کمرے میں ہرگز ساتھ نہ سلائیں۔