جوہری ہتھیاروں کی دوڑ دوبارہ شروع ہونے کا خطرہ

November 04, 2018

31 برس سے قائم جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے معاہدے کو خطرات میں ڈالنے والا روسی میزائل،’’نواٹور 9M729‘‘

ایسا لگتا ہے کہ دُنیا میں ایک بار پھر جوہری ہتھیاروں کی باقاعدہ دوڑ شروع ہونے والی ہے اور ایسا اس لیے محسوس ہو رہا ہے حال ہی میں امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے ’’آئی این ایف‘‘ معاہدے (انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز ٹریٹی) سے دست بردار ہونے کی دھمکی دی ہے۔ خیال رہے کہ ایٹمی ہتھیاروں میں تخفیف کا یہ تاریخی معاہدہ آج سے 31برس قبل1987ء میں رُوس اور امریکا کے درمیان طے پایا تھا۔ ٹرمپ نے رُوس پر الزام عاید کیا ہے کہ وہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف رہا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ سابق امریکی صدر، باراک اوباما نے اس سے چشم پوشی کی۔ تاہم، رُوس اس الزام کی تردید کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اگر امریکا مذکورہ معاہدے سے یک طرفہ طور پر دست بردار ہوتا ہے، تو اس کے نتیجے میں دُنیا میں مُہلک ترین ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو جائے گی۔ دوسری جانب ٹرمپ نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ امریکا، رُوس اور چین پر دبائو بڑھانے کے لیے اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ کرے گا اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رکھے گا کہ جب تک ان کی عقل ٹھکانے نہ آ جائے۔ امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ رُوس اور چین کے جارحانہ رویّے سے پوری دُنیا کو خطرات لاحق ہیں۔ ماہرین کے مطابق، امریکی صدر کے اس بیان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ انہوں نے کوئی معمولی بات نہیں کی، بلکہ یہ ایک عالمی طاقت کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی بِلا روک ٹوک تیاری کا کُھلا اعلان ہے۔ پھر چُوں کہ امریکا کی کسی سیاسی جماعت یا تنظیم کی جانب سے ٹرمپ کے اس بیان پر ابھی تک کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا،تو اسے ’’پالیسی اسٹیٹمنٹ‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ خیال رہے کہ آئی این ایف ٹی کے تحت 500سے 5,500کلو میٹر کی دُوری تک مار کرنے والے میزائلز کی تیاری پر پابندی عائد کی گئی تھی اور اس معاہدے کے وقت مذکورہ رینج کے حامل 2.5ہزار سے زاید میزائلز تلف بھی کر دیے گئے تھے۔ اُس زمانے میں رُوس میں، جو تب سوویت یونین کہلاتا تھا، میخائل گوربا چوف برسرِ اقتدار تھے، جو مغرب، بالخصوص امریکا کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی پر گام زن تھے اور بعدازاں اُن ہی کے دَور میں سوویت یونین بکھر کر رُوس تک سمٹ کر رہ گیا۔ گوربا چوف شخصی آزادی اور ریاستی پابندیاں نرم کرنے کے حامی تھے اور کمیونزم کے تحت عاید کی گئی پابندیوں کو رد کرتے تھے، جب کہ امریکا میں رونالڈ ریگن عہدۂ صدارت پر متمکن تھے۔

ٹرمپ نے اپنے حالیہ بیان میں معاہدے کی جس خلاف ورزی کا ذکر کیا، وہ مبیّنہ طور پر 2014ء میں کی گئی تھی اور تب باراک اوباما امریکا کے صدر تھے۔ امریکی صدر نے رُوس پر یہ الزام انٹیلی جینس ایجینسی سے ملنے والی معلومات کی بنیاد پر عاید کیا، جس کے مطابق، رُوس نے زمین سے فضا میں مار کرنے والا میزائل لانچ کیا تھا۔ تاہم، اُس وقت اوباما نے سخت بیانات دینے کے باوجود کوئی عملی قدم اُٹھانے سے گریز کیا اور نہ ہی معاہدے سے دست بردار ہوئے۔ ناقدین کا ماننا ہے کہ اوباما نے اپنے یورپی حلیفوں کے دبائو کی وجہ سے احتیاط کا مظاہرہ کیا تھا، جو اس بات پر مُصر تھے کہ اگر امریکا نے جوابی کارروائی کی، تو جوہری ہتھیاروں کی دوڑ دوبارہ شروع ہو جائے گی۔ مبصّرین کا ماننا ہے کہ سابق امریکی صدر اقوامِ عالم سے متعلق حکمتِ عملی تشکیل دیتے وقت یورپی رہنمائوں کی رائے کو خاصی اہمیت دیتے تھے اور حتیٰ کہ مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے معاملے میںتو ان ہی کی آراء کو مقدّم رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر یوکرین کے علاقے، کریمیا پر رُوسی فوج کے قبضے کے بعد محض رُوسی زبان بولنے والی جرمن چانسلر، اینگلا مِرکل کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے اوباما کسی فوجی اقدام سے گریزاں رہے۔ ہر چند کہ بعد ازاں رُوس نے کریمیا کو اپنا اٹوٹ انگ بھی بنا لیا، لیکن یورپ، نیٹو جیسی فوجی طاقت رکھنے کے باوجود دَم سادھے بیٹھا رہا۔ اسی طرح شام میں بشار الاسد کو کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کے باوجود امریکا نے رُوس کے کہنے پر معاف کر دیا اور کہا جاتا ہے کہ اس موقعے پر بھی یورپی رہنمائوں نے امریکی صدر پر دبائو ڈالا کہ وہ اتنے قریبی علاقے میں جنگ پر آمادہ نہ تھے۔ اسی عرصے میں شام میں 5لاکھ سے زاید معصوم شہریوں کا قتلِ عام ہوا اور ایک کروڑ سے زاید پناہ گزین بن گئے، لیکن اس کے باوجود رُوس اور ایران کُھلے عام بشار الاسد کا ساتھ دیتے رہے اور باراک اوباما نہ صرف خاموش تماشائی بنے رہے، بلکہ اس دوران انہوں نے ایران سے جوہری معاہدہ کر کے اسے اُس کے 40ارب ڈالرز پر مشتمل منجمد اثاثے بھی واپس کر دیے۔ ماہرین کے مطابق، چُوں کہ اس معاہدے سے یورپ کو اربوں ڈالرز کے تجارتی فواید حاصل ہوئے، لہٰذا گمان ہے کہ یہ نیوکلیئر ڈِیل بھی یورپی رہنمائوں کے مشوروں ہی سے ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس موقعے پر خود امریکی میڈیا نے اوباما کو رُوسی صدر، پیوٹن کے مقابلے میں ایک احمق اور غیر مؤثر رہنما کے طور پر پیش کیا۔ اپنے دَورِ صدارت میں رُوس کی اس مبیّنہ خلاف ورزی پر سخت ردِ عمل نہ دینے کی وجہ تو اوباما ہی بہتر بتا سکتے ہیں، البتہ ٹرمپ کے حالیہ بیان پر رُوس کی وزارتِ خارجہ کا ردِ عمل یہ ہے کہ ’’یہ بیان امریکا نے عالمی طاقت برقرار رہنے کے خواب کی تعبیر کے لیے دیا ہے۔‘‘

امریکا کا ماننا ہے کہ رُوس نے ایک درمیانی رینج کا حامل جوہری میزائل، ’’نواٹور 9M729‘‘، جسے نیٹو ’’SS-8‘‘ کہتی ہے، نہایت خاموشی سے تیار کیا۔ ماہرین کے مطابق، رُوس کا ماننا ہے کہ اس میزائل کی تیاری پر نسبتاً کم لاگت آتی ہے اور اسے بہ آسانی استعمال کیا جاسکتا ہے، جس کی وجہ سے طاقت کا توازن اس کے حق میں چلا جاتا ہے۔ اس میزائل کی خاص بات یہ ہے کہ یہ نہایت کم وقت میں نیٹوکے رُکن ممالک کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے اور کہنے کو تو یہ ایک روایتی ہتھیار ہے، لیکن ماہرین کے مطابق، اس میں جوہری ہتھیار نصب کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم، رُوس کا ماننا ہے کہ مذکورہ میزائل کی تیاری، معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ مزید تفصیل میں جانے سے قبل اگر ایک نظر ’’انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز ٹریٹی‘‘ پر ڈال لی جائے، تو پتا چلتا ہے کہ یہ معاہدہ امریکا اور سوویت یونین کے درمیان 1987ء میں مُہلک ہتھیاروں میں تخفیف کے لیے ہوا تھا۔ اس معاہدے کی روشنی میں درمیانے اور کم فاصلے تک مار کرنے والے تمام میزائلز پر پابندی عاید کر دی گئی تھی اور صرف سمندر سے مار کرنے والے میزائلز کو، جنہیں ’’کروز میزائیل‘‘ کہا جاتا ہے، استثنیٰ حاصل تھا۔ اس معاہدے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ سرد جنگ کے بعد پہلی مرتبہ سوویت یونین نے یورپ میںSS-20میزائلز نصب کیے تھے، جس کے جواب میں امریکا نے نیٹو کے ذریعے ’’پرشنگ‘‘ اور ’’کروز میزائلز‘‘ نصب کر دیے۔ اس پر یورپ اور دیگر خطّوں میں شدید احتجاج ہوا اور تب امریکا میں بُش سینئر کی حُکم رانی تھی۔ بعد ازاں، اوباما کے دَورِ صدارت میں 2009ء میں امریکا نے یورپ سے یہ میزائلز ہٹا لیے اور ان کی جگہ ایک ترمیم شُدہ دفاعی شیلڈ نصب کر دی۔ خیال رہے کہ اس معاہدے کے بعد2,700میزائلز کو تلف کیا گیا اور دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی تنصیبات کے معاینے کی اجازت بھی تھی۔

اس معاہدے پر عمل درآمد جاری تھا کہ 2007ءمیں اچانک رُوسی صدر، پیوٹن نے یہ اعلان کر کے ایک ہل چل سی مچا دی کہ یہ معاہدہ رُوس کے مفاد میں نہیں، جب کہ اس سے قبل 2002ءمیں امریکا اینٹی بیلیسٹک میزائل کے معاہدے سے دست بردار ہو چُکا تھا۔ واضح رہے کہ ’’انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز ٹریٹی‘‘ بنیادی طور پر یورپ کے تحفّظ کی خاطر کیا گیا تھا، کیوں کہ تب یورپی ممالک کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ رُوس کے درمیانے درجے کے میزائل اُس کو ہدف بنا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کی جانب سے اس معاہدے سے دست بردار ہونے کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد سب سے زیادہ یورپی ممالک ہی اس پر تحفّظات کا اظہار اور تبصرے کر رہے ہیں۔ گرچہ جرمنی نے ٹرمپ کے اس بیان پر تشویش کا اظہار کیا ہے، لیکن برطانیہ نے امریکا کی حمایت کے ساتھ ہی اس معاملے پر مزید بات چیت کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ غالباً یورپ یہ چاہتا ہے کہ امریکا کو یہ فیصلہ یک طرفہ طور پر کرنے کی بہ جائے یورپ کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ یاد رہے کہ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے امریکا نے یورپی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر جس قسم کے اقدامات کیے ہیں، چاہے اُن کا تعلق امورِ خارجہ یا امورِ دفاع سے ہو، اس پر پورا یورپ ہی مضطرب ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، یورپی ذرایع ابلاغ اور ماہرین ٹرمپ کی ہر پالیسی کو اس وجہ سے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ اُن کی خواہش ہے کہ امریکا، یورپ کی مرضی کے بغیر کوئی قدم نہ اُٹھائے۔ تاہم، کم از کم ٹرمپ کے دَورِ صدارت میں تو ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔

1987ء میں اُس وقت کے رُوسی و امریکی صدور، میخائل گورباچوف اور رونالڈ ریگن ، ’’آئی این ایف‘‘ معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے

عسکری ماہرین کے مطابق، ٹرمپ کی اس معاہدے سے دست بردار ہونے کی دھمکی کا ایک سبب چین بھی ہے۔ امریکا نے گزشتہ برس اپنی عالمی سیکوریٹی پالیسی کا اعلان کیا تھا، جس میں رُوس اور چین دونوں ہی کو امریکا کا مقابل وحریف قرار دیا گیا تھا، جب کہ اس سے کچھ عرصہ قبل امریکا، چین کو اپنا مقابل تصوّر نہیں کرتا تھا، بلکہ عالمی نظام کا حصّہ بنانے کے لیے اسےرعایتیں دینا ضروری سمجھتا تھا اور اسی سوچ کے تحت ہی اوباما دَور میں دونوں ممالک کے درمیان خاصی گرم جوشی دیکھی گئی، بالخصوص بیجنگ سے تجارتی معاملات میں واشنگٹن نے بڑی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا، جس کا نتیجے میں دونوں ممالک کی باہمی تجارت میں امریکی خسارہ 300ارب ڈالرز سے بھی زاید ہوگیا اور اسی خسارے پر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مُہم میں زبردست تنقید کی تھی، جس نے ان کی جیت کی راہ ہم وار کی۔ حال ہی میں امریکا نے تجارت میں توازن قائم کرنے کے لیے چینی برآمدات پر بڑے پیمانے پر ٹیکسز عاید کیے ہیں، جس کے ردِ عمل میں چین نے بھی امریکی مصنوعات پر ٹیرف عاید کیے ہیں، جسے ’’ تجارتی جنگ‘‘ سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ گرچہ چین پیسیفک ریجن کی ایک بڑی طاقت ہے اور مذکورہ معاہدے میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے اس پر ہتھیار تیار نہ کرنے کی کوئی پابندی بھی نہیں، لیکن ٹرمپ کی معاہدے سے دست بردار ہونے کی دھمکی کا ایک سبب چین کو پابند کرنا بھی ہے کہ شاید اس کے ردِ عمل میں چین بھی کسی معاہدے میں شامل ہو جائے۔

یہاں ایک غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ رُوس، جو ٹرمپ کے اعلان پر برہمی کا اظہار کر رہا ہے، خود بھی جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے معاہدے کو اپنے مفادات کے خلاف قرار دے چُکا ہے اور اس کا اظہار آج سے 11برس قبل کسی اور نے نہیں، بلکہ خود رُوسی صدر، پیوٹن نے کیا تھا، جو رُوس کی نشاۃِ ثانیہ کے سب سے بڑے داعی تصوّر کیے جاتے ہیں اور دُنیا بَھر میں ’’مَردِ آہن‘‘ کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔نیز، اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ’’انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز ٹریٹی‘‘ کے باوجود گزشتہ 31برس کے دوران کئی ممالک جوہری ہتھیار تیار کر چُکے ہیں، تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس معاہدے اور ہتھیار تلف کرنے کا فائدہ کیا ہوا؟ نیز، ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے پر جتنا زور دیا جا رہا ہے، ان کے پھیلائو میں اتنی ہی تیزی آتی جا رہی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حال ہی میں دو بڑے جوہری تنازعات دُنیا بَھر کی توجّہ کا مرکز بنے، جن میں شمالی کوریا کا جوہری پروگرام اور ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والا جوہری معاہدہ شامل ہے۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں معاملات ہی میں امریکا کا مرکزی کردار رہا اور پھر ساری دُنیا یہ بھی جانتی ہے کہ 1945ء میں دوسری عالم گیر جنگ کا اختتام بھی جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے ہوا۔ یعنی امریکا نے جاپان کے دو شہروں، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے اور جاپان نے فوراً ہتھیار گرا دیے۔ ان ایٹمی حملوں سے اس قدر تباہی پھیلی کہ جس کا انسانیت تصوّر بھی نہیں کر سکتی تھی اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس سانحے کے بعد جوہری ہتھیاروں کے حامل کسی بھی مُلک نے تنازعات و اختلافات کے باوجود کسی دوسرے مُلک پر ایٹمی حملے کی جرأت نہیں کی اور انہیں صرف ڈرانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس عمل کو ’’دہشت کا توازن‘‘ کہا جاتا ہے اور اگر یہ قائم نہ رہے، تو پھر ہر جانب تباہی ہی تباہی ہو گی۔ بہر کیف، امریکی دبائو پر شمالی کوریا کی جانب سے اپنے جوہری ہتھیار تلف اور جوہری تنصیبات ختم کرنے کے اعلان، ایران کے جوہری معاہدے سے امریکا کی دست برداری اور اب ’’انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز ٹریٹی‘‘ سے الگ ہونے کی دھمکی کے پیشِ نظر ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے کسی قسم کے سمجھوتے پر آمادہ نہیں اور ہر صورت دُنیا میں اپنی جوہری برتری قائم رکھنا چاہتا ہے۔