کس کو ووٹ، کس کے حق میں کیا جائے گا!

December 11, 2012

میں پہلے بھی کسی کالم میں لکھ چکا ہوں کہ تحریک انصاف کے ترجمان اعلیٰ شفقت محمود سے میرا دوستانہ اور برادرانہ تعلق ہے۔ تحریک میں شمولیت سے کچھ ہی دیر قبل انہوں نے میرے سیل فون پر ایک خوبصورت پیغام بھیجا تھا کہ ”میں تحریک انصاف میں جا رہا ہوں لیکن سیاسی فکر و نظر میں اختلاف کے باوجود ہمارے باہمی رشتہ و تعلق میں کوئی فرق نہیںآ نا چاہئے“۔ ایسی بات کوئی مثبت فکر کاحامل ایک سنجیدہ خو شخص ہی کر سکتا ہے۔ سو شفقت بھائی کے لئے میرے احترام میں آج بھی کوئی کمی نہیں آئی۔
ضمنی انتخابات سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کے بعد کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں معدوم ہوگئی ہے۔ شفقت صاحب نے جیالوں سے اپیل کی۔
"A vote for PPP in Punjab would be a vote for N.Diehard PPPites should rally behind PTI and vote for its candidates instead of wasting vote."
پنجاب میں پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے کا مطلب مسلم لیگ ن کو ووٹ دینا ہوگا۔ پی پی پی کے کٹر حامیوں (جیالوں) کو چاہئے کہ وہ ڈٹ کر تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور اپنا ووٹ ضائع کرنے کے بجائے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو دیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پی پی پی کا نامہٴ عمل، بیاض ندامت کے سوا کچھ نہیں۔ تمام تر انتخابی جائزوں کے مطابق اس کی مقبولیت کا گراف زمین کو چھو رہا ہے۔ صدر زرداری بے دست و پا ہوں گے۔ انتخابی مہم چلانے اور عوامی اجتماعات میں ارتعاش پیدا کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔ آزاد الیکشن کمیشن، غیرجانبدار نگران حکومت، توانا عدلیہ، بیدار میڈیا اور جمہوری عمل کی پشت پر کھڑی فوج کے ہوتے ہوئے کوئی چال کام آئے گی، نہ کرشماتی کرتب۔ یہی حال مسلم لیگ ق کا ہے۔ لیکن یہ فتویٰ جاری کر دینا شاید درست نہ ہو کہ پیپلز پارٹی کلی طور پر معدوم ہو گئی یا مسلم لیگ ق کا قصہ تمام ہوگیا۔ دونوں جماعتوں کے اتحاد کا تجربہ کامیاب نہیں رہا لیکن بڑی برادریوں اور ذاتی اثرورسوخ کے حامل امیدوار دونوں کے پاس ہیں۔ گجرات کے حلقے میں ان کے مشترکہ امیدوار کا 76ہزار ووٹ لے جانا کیا ظاہر کرتا ہے؟ زمینی حقیقت یہی ہے کہ دونوں جماعتیں وجود بھی رکھتی ہیں اور قابل لحاظ ووٹ بینک بھی۔ اگر مسلم لیگ ن کو کہنی مارنے والی کوئی تیسری قوت موثر رہی تو ”پی پی، ق“ اتحاد کی کشت ِویراں شاداب بھی ہو سکتی ہے۔
ماضی پہ گہری نظر رکھنے والے مبصرین اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اصل مقابلہ دو روایتی سیاسی دھڑوں، بھٹو اور اینٹی بھٹو کے درمیان ہی ہوگا۔ ضمنی انتخابات کا اشارہ بھی یہی ہے تاہم اگلے برس کے عام انتخابات میں تحریک انصاف، جماعت اسلامی اورکچھ مزید دینی سیاسی جماعتیں بھی میدان میں اتریں گی۔ جماعت اسلامی بہت سے نشیب و فراز دیکھ چکی ہے اس لئے وہ کسی زعم یا خوش گمانی کا شکار نہیں۔ تحریک انصاف البتہ ”خواب خرامی“ کے جوبن پر ہے اور زمینی حقیقتوں سے آنکھیں چار کرنے پر آمادہ نہیں۔ اب تک کے انتخابی جائزوں، سیاسی تجزیوں اور چار برس پر محیط تمام ضمنی انتخابات کے نتائج کے پیش نظر، تحریک انصاف کا تیسرا عنصر اتنا صف شکن دکھائی نہیں دیتا کہ وہ دونوں روایتی دھاروں کو پچھاڑ کر کامرانی کے پرچم گاڑ دے۔ سو لامحالہ اس تیسرے عنصر نے کسی ایک فریق کو ضرور نقصان پہچانا ہے اور عمومی قیاس یہ ہے کہ متاثرہ سیاسی فریق، مسلم لیگ ن ہی ہوگی۔
کوئی ڈیڑھ سال قبل جولائی2011ء میں عمران خان نے فیصل آباد میں صحافیوں کی جرح سے زچ ہو کر کہا تھا کہ ”اگر مجھے دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ اتحاد پر مجبور ہونا پڑا تو زرداری سے کر لوں گا، نواز سے نہیں“۔ ان کے بیانات اور تقاریر کا ہدف بھی نواز شریف ہی رہتے ہیں۔ مجھے حال ہی میں شیریں مزاری نے بتایا کہ ”ہم لوگ پارٹی میٹنگز میں خان صاحب کو توازن قائم رکھنے کے لئے کہتے تھے لیکن ان کی سوئی نواز شریف پر ہی اٹکی رہتی تھی۔ تازہ ضمنی انتخابات کے دوران بھی تحریک انصاف کے وابستگان نے عملاً بائیکاٹ کی پالیسی کی نفی کرتے ہوئے کھل کر ”پی پی، ق“ اتحاد کا ساتھ دیا۔ راجہ نعیم نواز، 2008ء میں حلقہ پی پی114 (گجرات vii) سے مسلم لیگ ن کے امیدوار تھے، تقریباً 29ہزار ووٹ لے کر مسلم لیگ ق کے امیدوار سے ہار گئے۔ سونامی نے انگڑائی لی تو تحریک انصاف میں چلے گئے۔ ضمنی انتخابات میں انہوں نے پوری مقامی سپاہ انقلاب کے ساتھ زبردست جوش و خروش سے ”پی پی، ق“ امیدوار کے حق میں مہم چلائی۔ شاید اسی پس منظر میں نواز شریف نے میلسی کے جلسہٴ عام میں تقریر کرتے ہوئے کہا ”سارے رَل کے مینوں پے گئے“۔ تحریک انصاف نے تمام انتخابی حلقوں میں یہی کردار ادا کیا۔ این اے 162 چیچہ وطنی میں تحریک انصاف کے رہنما رائے حسن نواز اور پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر میاں منظور وٹو کے درمیان انتخابی مفاہمت کے لئے باقاعدہ مذاکرات بھی ہوئے، معاملات طے بھی پا گئے۔ مجھے اس کا علم نہیں کہ رائے حسن نواز نے یہ مفاہمت کرتے ہوئے خان صاحب کی منظوری لی یا نہیں لیکن وٹو صاحب نے صدر زرداری کو ضرور اعتماد میں لیا جنہوں نے اس کی منظوری دے دی۔ یہ راز بھی ابھی نہیں کھلا کہ وٹو صاحب اور رائے صاحب نے ایک دوسرے سے کیا عہد و پیماں کئے تھے۔ بیل اس لئے منڈھے نہ چڑھ سکی کہ پی پی پی کا بے لچک جیالا علی فرید کاٹھیا ڈٹ گیا اور رائے صاحب کے حق میں دستبردار ہونے سے انکار کر دیا۔ اسی جذبہ و احساس کی جھلک شفقت محمود کے ٹویٹر میں دکھائی دیتی ہے۔ دراصل وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ پی پی پی اور تحریک انصاف دونوں کا مشترکہ ہدف نواز شریف کو شکست دینا ہے لہٰذا اپنی جماعت کمزور ہو جانے کے باعث پیپلز پارٹی کے جیالے ووٹ ضائع کرنے کے بجائے پوری قوت سے تحریک انصاف کا ساتھ دیں۔پیپلز پارٹی کی تمام تر حکمت عملی کا دارومدار یہ ہے کہ انتخابی جنگ براہ راست یعنی دو رخی نہیں، سہ رخی ہو۔ سیاست کے گرگ باراں دیدہ میاں منظور وٹو نے جب صحافیوں کے سامنے کھلے بندوں کہا کہ ہماری کامیابی میں عمران خان معاون ثابت ہوں گے تو ان کی نظر ماضی کے تجربات پر تھی۔ 1993ء میں جماعت اسلامی نے اپنی روایتی قبائے فضیلت اتاری اور ”پف“ (پاکستان اسلامک فرنٹ) کا جامہ خوش رنگ پہن کر انتخابات میں اتری۔ اس کے پاس جوانان صف شکن کی ایک بڑی سپاہ بھی تھی، ایک ٹھوس نظریہ بھی اور بڑی حد تک بے داغ امیدوار بھی۔ ساری چکاچوند کے باوجود وہ صرف چار سیٹیں لے سکی البتہ مسلم لیگ ن کو کم و بیش بیس سیٹوں پر پیچھے دھکیل کر محترمہ کی وزارت عظمیٰ کا راستہ ہموار کر دیا۔
شفقت محمود سیاسی مفکر ہیں لیکن فکر، آرزو کے کھونٹے سے بندھ جائے تو بات بنتی نہیں تمام تر توضیحات، توجیہات، تجربات، تاویلات اور تفصیلات سے قطع نظر، بیالیس برس پر محیط انتخابی تاریخ کا غیرمبہم سبق وہی ہے جو آج بھی آنکھیں رکھنے والوں کو نوشتہ دیوار کی طرح دکھائی دے رہا ہے۔ صدر زرداری کے ایک دست راست نے مجھ سمیت کئی لوگوں سے شرط لگا رکھی ہے کہ سونامی قومی اسمبلی میں دس سیٹوں تک نہیں پہنچ پائے گا البتہ وہ مسرت سے سرشار لہجے میں کہتے ہیں کہ خان صاحب نواز شریف کو کم از کم پچیس سیٹوں سے محروم کر دیں گے اور پی پی پی پانچویں بار حکومت بنا لے گی۔ ممکن ہے یہ خواہش پر مبنی ایک بے معنی رائے ہو لیکن اس میں تو کچھ کلام نہیں کہ دو رخی جنگ کی صورت میں پیپلز پارٹی نمونہ عبرت بن جائے گی لیکن سہ رخی جنگ میں اسے اپنی بقا ہی نہیں ایک نئے عہد اقتدار کی صبحِ جمیل بھی دکھائی دے رہی ہے۔
فیصلہ عوام کو کرنا ہے اور سوچ سمجھ کر کرنا ہے۔ شفقت محمود کہتے ہیں ”جیالے نواز شریف کو ہرانے کے لئے ہمیں ووٹ دیں کیونکہ پی پی پی کو ووٹ نواز شریف کو ووٹ ہوگا“۔ نواز شریف کہتے ہیں ”جو ووٹ مسلم لیگ ن کی صندوقچی میں نہیں پڑیگا وہ چاہے کسی بھی بکسے میں ڈالا جائے، زرداری صاحب کے حق میں گنا جائیگا۔“ خود زرداری صاحب کو بھی اس کا یقین ہے۔ ماضی کے تمام تجربات بھی یہی کہتے ہیں اور پاکستان کے عوام بھی اس بھید کو پا چکے ہیں۔ ”پف“ کے تجربے کو ذہن میں رکھتے ہوئے شاید ہی وہ کسی اندھے کنوئیں میں چھلانگ لگانے پر آمادہ ہوں۔