معیشت: بگاڑ کے اسباب دور کریں

October 31, 2018

ملک اس وقت جس بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے اس پر قابو پانے کیلئے موجودہ حکومت کی بھاگ دوڑ کے نتائج برآمد ہونے میں کتنا عرصہ لگے گا اس بارے میں قطعیت کے ساتھ کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی لیکن قومی اور بین الاقوامی اقتصادی ماہرین پرامید ہیں کہ معاشی بگاڑ کے اصل اسباب پر کنٹرول کر لیا گیا تو پاکستان دوتین سال میں اس مشکل سے نکل آئے گا۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیرخزانہ اسد عمر کی کوششیں آہستہ آہستہ رنگ لانے لگی ہیں۔ بین الاقوامی گریڈیٹرز کے مطابق 30فیصد روایتی غیر ملکی فنڈنگ سکڑ جانے کے بعد پاکستان سعودی عرب کی جانب سے تیل کی خریداری پر تین ارب ڈالر کی موخر ادائیگیوں اور وزیراعظم کے دورہ چین کے نتیجے میں مالیاتی خلا پر کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہو جائے گا۔ سعودی عرب نے تین ارب ڈالر سٹیٹ بینک میں جمع کرا دیئے ہیں اس رقم کو کرنٹ اکائونٹ خسارہ پورا کرنے کیلئے تو استعمال نہیں کیا جا سکتا لیکن اس سے غیر ملکی زرمبادلہ کی پوزیشن بہتر کرنے میں ضرور مدد ملے گی۔ تین سال کے لئے پاکستان کی مالی ضروریات کا تخمینہ 80سے90 ارب ڈالر تک لگایا گیا ہے جس میں سے پہلے سال کی ضروریات کا اندازہ 30ارب ڈالر بتایا جاتا ہے ایک خبر کے مطابق اقتصادی امور کے حکام آئندہ دس دنوں میں ایک سے 3سال کیلئے متحدہ عرب امارات اور چین کے علاوہ دیگر ذرائع سے ملنے والی پاکستان کی مالی ضروریات کا تخمینہ لگائیں گے اس کی روشنی میں 7نومبر کو پاکستان کے دورے پر آنے والا آئی ایم ایف مشن ملک کی مالی امداد کے حوالے سے پاکستانی حکام سے مذاکرات کرے گا اور امداد کا حجم طے ہونے کے بعد اس کی شرائط بھی 20نومبر تک طے کر لی جائیں گی۔ وزیراعظم عمران خان2نومبر کو چین کے دورے پر جارہے ہیں ان کی چینی وزیراعظم سے ملاقاتیں ہوںگی جن میں دونوں ملکوں کے درمیان تزویراتی معاملات کے علاوہ پاکستان کے اقتصادی مسائل اور انہیں حل کرنے کیلئے چین کی امداد پر بھی تبادلہ خیال ہوگاچین پاکستان کو پہلے ہی دو ارب ڈالر سے زیادہ دے چکا ہے اور اس نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ مشکلات میں پاکستان کو اکیلا نہیں چھوڑے گا۔سعودی عرب سے ملنے والی 6ارب ڈالر کی موعودہ امداد کے علاوہ چین بھی گزشتہ مالی سال میں ساڑھے پانچ ارب ڈالر مہیا کر چکا ہے۔ دوسرے دوست ممالک بھی کسی نہ کسی شکل میں پاکستان کی اقتصادی مشکلات دور کرنے میں مدد دیں گے اس طرح رواں سال غیر ملکی زرمبادلہ کی آمد کا ہدف تقریباً9ارب ڈالر لگایا گیا ہے تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم آئی ایم ایف اور دوست ملکوں کی امداد یا قرضوں پر کب تک انحصار کرتے رہیں گے۔ اس لئے حکومت کو ان اسباب پر غور کرکے ان کا حل نکالنا چاہئے جو معیشت میں بگاڑ کی اصل وجہ ہیں ان میں سے کرپشن، ناقص اقتصادی منصوبہ بندی غیر ملکی قرضے، بجلی و گیس کی چوری، اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں کمی اور ٹیکس اصلاحات کا فقدان خرابیوں کی اصل جڑ ہیں۔ پانی، بجلی اور گیس کی چوری کے علاوہ بلوں کی مد میں 684ارب روپے سے زائد کے واجبات کی وصولی حکومت کا ایک بڑا امتحان ہے دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف ٹیکس چوری کے 24ارب روپے کا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا۔ متعلقہ محکمے اپنی نااہلی چھپانے کیلئے اربوں روپے صارفین کے بلوں میں ڈال دیتے ہیں۔ نچلے اور متوسط طبقے کے لوگ چارو ناچار یہ بل جمع کرا دیتے ہیں جبکہ اثر و رسوخ رکھنے والے بڑے لوگ بل بھی نہیں دیتے نہ ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے۔ سرکاری اداروں میں کرپشن زوروں پر ہے ایک اطلاع کے مطابق پی ایس او میں56ارب روپے کے گھپلے کی تحقیقات آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ سیاسی تبدیلی اور الیکشن کمیشن کی عائد کردہ پابندی کے باعث ڈونرز کی جانب سے پراجیکٹ فنانسنگ پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جس سے گزشتہ 5ماہ میں ایک بھی ترقیاتی منصوبے کی منظوری نہیں دی جا سکی۔ حکومت غیر ملکی امداد اور قرضوں کے علاوہ ان کمزوریوں کا بھی حل نکالے تو ملکی معیشت ایک بار پھر اپنے پائوں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔