مہنگائی کا جن بے قابو

November 04, 2018

وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں اس وقت مہنگائی چار سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ماہِ اکتوبر کے دوران مہنگائی میں 2.56فیصداضافہ ہوا۔ جس کے بعد مہنگائی کی شرح 7فیصد تک پہنچ گئی ہے ، حالانکہ حکومت کی طرف سے مہنگائی کا متوقع ہدف 6فیصد مقرر کیا گیا تھا۔ستمبر میں یہی شرح 1.5فیصد تھی۔ گیس، بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ملک میں مہنگائی کا جن بوتل سے ایسانکلا ہے کہ ابھی تک قابو سے باہر ہے۔حکومت کے پالیسی فیصلوں کی وجہ سے درجنوں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق ماہِ ستمبر کے مقابلے میں اکتوبر میں مرغی کی قیمت میں 35فیصد ، انڈے 14فیصد،ٹماٹر 3.85فیصد، تازہ سبزی 3.7فیصد،گیس 105فیصد، ایم بی بی ایس ڈاکٹر کی فیس 3.39فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔بد قسمتی سے ہمارے ملک میں کئی سال سے یہ غلط روش چلی آ رہی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کیساتھ ہی نجی کاروباری حضرات ہر چیز کے قیمت میں مرضی کا اضافہ کر دیتےہیںاور حکومت بھی کوئی روک ٹوک نہیں کرتی، جبکہ اِنہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں باقی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں حالیہ گرانی کااثر کس پر پڑیگا؟ بلاشبہ ان پر جو خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، امرا کی تو خوراک تک زیادہ تر بیرون ملک سے آتی ہے۔ عوام کیلئے تو پہلے ہی جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہورہا ہے ایسے میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ’’مرے پہ سو درے‘‘ کے مترادف ہے۔ملکی معاشی صورتحال اور ڈالر کی اونچی اڑان کے پیش نظر حکومت کی طرف سے قیمتوں میں اضافہ سمجھ میں آتا ہے ، مگر حکومت کو چاہئے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں من مانا اضافہ روکنے کیلئے مانیٹرنگ ٹیمیں تشکیل دے جو ناجائز منافع خوروں کیخلاف کریک ڈائون کریں تاکہ مہنگائی کے بے قابو جن کو بوتل میںبند کیا جا سکے۔