جعلی اکاؤنٹس اور حکومتی کارکردگی

November 04, 2018

جعلی اکاؤنٹس کامعاملہ اربوں روپے تک پہنچ چکا ہے اورمنی لانڈرنگ کیس میں دن بدن مزید پیش رفت ہوتی جارہی ہے۔اس سلسلے میں مزیدنام اور کمپنیاں سامنے آرہی ہیں۔اس حوالے سے جے آئی ٹی کی رپورٹس میں ہونے والے انکشافات نے قوم کو تشویش میں مبتلاکردیا ہے۔سندھ حکومت کی جانب سے بڑے ناموں کو چھپانے کے لیے جے آئی ٹی کے ساتھ تعاون نہ کرناقابل مذمت اور لمحہ فکریہ ہے۔یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس معاملے کو سردخانے میں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ملک میں کرپٹ عناصر نے اپنی لوٹ مار کے ذریعے کرپشن کی انتہاکردی ہے۔تمام کرپٹ افراد ایک دوسرے کوبچانے کی غرض سے متحد ہوچکے ہیں۔اوپر سے لے کر نیچے تک کرپشن کابازارگرم ہے۔کرپٹ افراد چاہے ان کا تعلق سرکاری محکموں سے ہویاپھروہ کسی سیاسی جماعت میں ہوں جنہوں نے بھی منی لانڈرنگ کی ہے اور قومی خزانے کو لوٹاہے ان سب کا کڑا اور سخت احتساب کیا جائے۔ملک میں جب تک کرپٹ عناصر اور کرپشن دونوں کاخاتمہ نہیں کردیا جاتااس وقت تک پاکستان ترقی وخوشحالی کی جانب نہیں بڑھ سکے گا۔ دنیا کے بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں کرپشن ثابت ہونے پر سخت ترین سزائیں دی جاتی ہیں مگربدقسمتی سے پاکستان میں قانون ہونے کے باوجود سزاؤں پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔جب تک ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی مضبوط اور پائیدار جمہوریت قائم نہیں ہوسکے گی۔طرفہ تماشایہ ہے کہ قومی احتساب بیورو کی کارکردگی پربھی سپریم کورٹ کے تحفظات تشویش ناک اور لمحہ فکریہ ہیں۔نیب کا ادارہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بنایاگیا تھا،اس کامقصد کرپشن کاخاتمہ اور کرپٹ عناصر سے لوٹی گئی ملکی دولت وصول کرنا تھامگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ سابق ڈکٹیٹرجنرل مشرف کے دور میں بھی اسے ذاتی اور سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا گیا۔سابق ڈکٹیٹرکے دور حکومت میں وفاقی وزراء کی کرپشن کاکوئی نوٹس نہیں لیاگیااورماضی میں نیب کا ادارہ سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہوتارہا۔ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے بطور نیب کے سربراہ مقرر ہونے پریہ توقع کی جارہی تھی کہ نیب کا ادارہ بلاامتیازکرپٹ افراد کے خلاف کارروائی کرے گا مگر ابھی تک ایسی صورتحال دکھائی نہیں دے رہی ۔ پاناماکیس میں شامل دیگر436افراد،سوئس اکاؤنٹس اور قرضے معاف کرانے والے بااثر افراد کواحتساب کٹہرے میں لایاجانا چاہئے۔احتساب کادائرہ کارکسی ایک پارٹی اورایک خاندان کے خلاف نہیں ہونا چاہئے بلکہ کرپٹ افرادچاہے ان کا تعلق کسی بھی پارٹی سے کیوں نہ ہوان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے۔پوری قوم ملک سے کرپشن کاخاتمہ اورملکی دولت لوٹنے والوں کا احتساب چاہتی ہے۔نیب کی جانب سے تمام مقدما ت میں بلاتفریق پیروی ہونی چاہئے مگر بدقسمتی سے قوم میں ایسا تاثر جارہا ہے کہ جیسے نیب نے کچھ افراد اور خاندانوں کو ٹارگٹ کررکھا ہے۔اس حوالے سے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے ریمارکس نے نیب حکام کی کارکردگی کاپول کھول کررکھ دیا ہے۔ احتساب بیوروپرقومی خزانے سے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں مگر یہ ادارہ لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہورہاہے۔محض شک کی بنا پر لوگوں کو پکڑکرکئی کئی دن غیر قانونی طورپرحراست میں رکھاجاتاہے اور گرفتاریوں کے بعد ثبوت تلاش کیے جاتے ہیں ،یہ روش اب تبدیل ہونی چاہئے۔

پاکستان کو اس وقت کرپشن اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کاچیلنج درپیش ہے۔ملک میں مہنگائی دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ٹیکسوں کی بھرمار اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ سے عوام پریشان ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے قوم کو مسائل سے نجات دلانے کاوعدہ کیا تھامگر برسراقتدار آتے ہی پی ٹی آئی کی حکومت نے عوام کومزیدمسائل کے دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ ہوناتو یہ چاہئے تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنے وعدوں کو پوراکرتی اورعوام کوریلیف فراہم کیا جاتا مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ ریلیف کی بجائے عوام کو تکلیف دی جارہی ہے۔ موجودہ حکومتی اقدامات سے غریب عوام کے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں میں مایوسی پھیل چکی ہے۔عوام کو کسی بھی قسم کاکوئی ریلیف میسر نہیں۔اگر موجودہ حکومت عوام کو ریلیف فراہم نہیں کرسکتی تو اس کوعوامی مسائل میں اضافہ کرنے کابھی کوئی حق نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی نئی حکومت سے جو عوامی توقعات تھیں وہ پوری ہوتی نظر نہیں آرہیں۔موجودہ حکومت کی تقریباً دو ماہ کی کارکردگی نے عوام کو متاثرکرنے کی بجائے مایوس کیاہے۔ڈالرکی مسلسل اڑان کی وجہ سے مہنگائی میں30فیصدسے زائد تک کااضافہ ہوچکا ہے جس سے عوام کی مشکلات مزید بڑھ گئیں ہیں۔جب تک لوگوں کی زندگی میں آسودگی نہیں آئے گی تبدیلی کانعرہ کبھی عملی صورت اختیار نہیں کرسکے گا۔ حکمران بڑے بڑے دعوے کرنے کی بجائے اپنی کارکردگی پر توجہ دیں ۔ پاکستان معاشی طورپر ایک نازک موڑ پر آن کھڑا ہے۔ملکی معیشت کو بہتربنانے کے لیے ٹھوس حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنا ہوگا۔ایک ماہ کے دوران گیس کی قیمتوں میں بھی 462فیصد تک مجموعی اضافے سے حکمرانوں نے اپنی کارکردگی کاعوامی ردعمل ضمنی انتخابات میں دیکھ لیا ہے۔اگر صورتحال جوں کی توں ہی رہی تو عوام کا اعتمادتحریک انصاف کی حکومت سے مکمل طورپراٹھ جائے گا۔ تبدیلی کے دعویداروں نے عوام میں مایوسی پھیلانا شروع کردی ہے۔جب سے موجودہ حکومت برسراقتدار آئی ہے مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوگیاہے۔ گیس کے نرخ بڑھانااور فلاحی اداروں، اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کو30فیصد مہنگی گیس فراہم کرنا غیردانشمندانہ فیصلہ ہے۔ کمرشل استعمال پرفکسڈ چارجز کو1225سے بڑھا کر 4680اور آئس فیکٹریوں کے لیے5880روپے کرنے سے مینوفیکچرنگ انڈسٹری تباہ ہوجائے گی۔ تحریک انصاف کی حکومت آنے سے مہنگائی کانہ تھمنے والاطوفان آیا ہے۔روپے کی قدر روزبروزگرتی جارہی ہے۔ حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کی بدولت اسٹاک مارکیٹ مندی کاشکار ہے۔ گیس کی قیمت،درآمدی ڈیوٹی اور ایکسائزڈیوٹی میں اضافے سے مہنگائی بڑھی ہے اور تمام ٹیکسزکابوجھ براہ راست عوام پر منتقل ہوگیا ہے جس سے عوام کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے اور لوگوں کی قوت برداشت جواب دے رہی ہے۔حکمرانوں نے اگر اپنی روش نہ بدلی تو ان کاانجام بھی ماضی کے حکمرانوں جیساہی ہوگاا اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعدادوشمارکے مطابق انسانی ترقی کے حوالے سے پاکستان کانمبر189ممالک میں150ویں نمبر آتا ہے۔بھارت،بنگلہ دیش،نیپال،سری لنکاکاشمار پاکستان سے کہیں زیادہ بہترہے۔یہ تشویش ناک امر ہے کہ ملکی معیشت دن بدن خراب سے خراب ترہوتی چلی جارہی ہے۔اگرچہ وزیر اعظم عمران خان کاحالیہ دورہ سعودی عرب کامیاب رہا ہے مگر گرتی ہوئی ملکی معیشت کو بہتربنانے کے لیے موجودہ حکومت کوابھی مزیدسنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔