پاک چین تعاون :خوش آئند پیش رفت

November 05, 2018

وزیراعظم عمران خان کی گزشتہ روز بیجنگ میں چینی ہم منصب لی کی چیانگ سے ملاقات کے بعد دونوںممالک کے درمیان وفود کی سطح پر ہونیوالے مذاکرات میں دو طرفہ تعاون کے پندرہ معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط بلاشبہ خوش آئند پیش رفت ہے ۔دونوں ممالک کے درمیان جن معاہدوں پر دستخط کیے گئے ان میں چین کی اکیڈمی آف سائنسز اور پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ، ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان اور چین کی سائنس اکیڈمی، اسلام آباد پولیس اور بیجنگ پولیس کے درمیان تعاون، زراعت اور اقتصادی و تکنیکی تعاون سے متعلق معاہدے شامل ہیں۔ مفاہمت کی جن یادداشتوں پر دستخط ہوئے ان میں پاک۔ چین وزرائے خارجہ کی سطح کے تزویراتی مذاکرات، پاکستان سے غربت کے خاتمے اور جنگلات، ارضیات سائنس اور الیکٹرونکس مواد کے تبادلے سے متعلق مفاہمت کی یادداشتیں شامل ہیں۔ چین نے سی پیک منصوبوں میں کمی نہ کرنے اور اقتصادی بحران سے نمٹنے کیلئے مالی امداد کی یقین دہانی بھی کرائی ہے تاہم اس کی تفصیلات پر مزید بات چیت کی ضرورت کا اظہار کیا ہے جو پوری طرح قابل فہم ہے لیکن یہ توقع بے جا نہیں کہ یہ مرحلہ بھی جلد طے ہوجائے گا تاکہ پاکستان مالی وسائل کی قلت کے مسئلے سے جلد نمٹ کر معاشی بہتری کیلئے کلیدی اور پائیدار اقدامات شروع کرسکے۔ آئی ایم ایف کی ٹیم اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق رواں ہفتے اسلام آباد پہنچ رہی ہے، اورچین کے مالی تعاون کا اعلان واضح کرے گا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے کتنا قرضہ درکار ہوگا اور اس کی شرائط کیا ہوں گی تاہم اس امر میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ معاشی مشکلات سے نمٹنے میں چین کا تعاون پاکستان کیلئے بہت مددگار ثابت ہوگا۔فی الحقیقت ملک کی نئی وفاقی حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے وزیر اعظم عمران خان کا پاکستان کے آزمودہ دوست اور عظیم ہمسائے عوامی جمہوریہ چین کا پہلا دورہ وطن عزیز کو درپیش موجودہ چیلنجوں کے علاوہ تیزی سے بدلتے ہوئے بین الاقوامی اور علاقائی حالات کے تناظر میں بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کی نئی حکومت کے ذمہ دار چین کی دانشمند،تجربہ کار اور مدبر قیادت سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ چین اور پاکستان کے درمیان اگرچہ پچھلے کئی عشروں سے دوستی اور قرابت کے نہایت گہرے اور مخلصانہ رشتے قائم ہیں لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکی پالیسی سازوں نے نیو ورلڈ آرڈر کے نام سے پوری دنیا پر واحد سپر پاور کی حیثیت سے اپنے تسلط کا جو خواب دیکھا ، اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے حالات نے چین اور پاکستان کو ایک دوسرے کی ناگزیر ضرورت بنادیا ہے۔ امریکہ افغانستان اور پھر عراق میں فوجی مداخلت کرکے ، بھارت کو خطے کا چوہدری بنانے کی حکمت عملی اپنا کر اورمشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی بے جا پشت پناہی کرکے اپنے عزائم کی تکمیل کی راہ ہموار کرنے کیلئے کوشاں ہے ۔ جبکہ چینی قیادت نے انتہائی فراست سے کام لیتے ہوئے اپنی معاشی اور فوجی طاقت میں مسلسل اور ہموار اضافہ کرکے امریکہ کی عالمی بالادستی کی خواہش کے آگے ایک مضبوط بند باندھ دیا ہے۔ افغانستان پر جن مقاصد کیلئے 17 سال پہلے امریکہ نے اپنے مغربی اتحادیوں کے ساتھ مل کر فوج کشی کی تھی، ناقابل شکست مقامی مزاحمت ان کے حصول میں حائل ہے ۔ امریکی قیادت اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی خواہاں رہی لیکن پاکستان نے پچھلے چند برسوں کے دوران غیرمبہم طور پر واضح کردیا کہ افغانستان کی جنگ کو پاکستان میں لانے کی خواہش پوری نہیں کی جاسکتی۔اس کا نتیجہ پاکستان کیخلاف اقدامات کی شکل میں نکلا جبکہ بھارت کی نازبرداریاں بڑھتی چلی گئیں۔ان حالات نے پاکستان اور چین کی قربت میں مزید اضافہ کیا جس کا نتیجہ پاک چین اقتصادی راہداری کی شکل میںسامنے آیا جو چین اور پاکستان ہی نہیں پورے خطے کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن اور اس امر کا اعلان ہے کہ پاک چین تعلقات آنے والے برسوں میں عالمی منظرنامے اور بین الاقوامی معیشت کی صورت گری میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔