مرا علاج میرے چارہ گر کے پاس نہیں

November 07, 2018

چند روز پیشترمیری اپنے بھتیجے تنویر اقبال سے ٹیلیفون پرسعودی عرب میں بات ہو رہی تھی۔ میں نے گاؤں میں ہونے والی کھیتی باڑی کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے کہ دیکھیں پانی کی بہت کمی ہے اب اگر ڈیم بن جائیں تو شاید کوئی بہتری آئے۔ میں نے کہا کہ اگر ڈیم بن بھی گئے تو ہمارے گاؤں میں پانی کی مقدار کیسے بڑھے گی کیونکہ یہ تو پہلے ہی لوئر باری دواب سے آنے والے پانی سے سیراب ہوتا ہے۔ اس سے پہلے میں اپنے گاؤں میں یہ مضحکہ خیز بات سن چکا ہوں کہ میری زمین کے ساتھ کھدے ہوئے سیم نالے کو سعودی عرب نہر میں تبدیل کرنے والا ہے ۔ زرعی شعبے میں یہ خیالی اور ہوائی باتیں صرف بہت نچلی سطح پر ہی نہیں بلکہ لفظوں کے ہیر پھیر کے ساتھ اعلیٰ ترین سطح پر بھی ہو رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب پاکستان کی ترقی زرعی شعبے کے حوالے سے نہیں ہو سکتی اور جو کچھ ہو سکتا ہے اس کے لئے وسائل موجود نہیں ہیں لیکن بنیادی مسئلہ ترجیحات کو درست کرنے کا ہے۔

سب سے پہلے تو فیصلہ سازوں کو اپنے ذہنی ادراک کو بدلنے کی ضرورت ہے جو ابھی تک ساٹھ کی دہائی میں رہ رہے ہیں جب قومی آمدنی میں اسی فیصد سے زیادہ پیداوار زرعی شعبے میں ہوتی تھی۔ اب پاکستان کی قومی آمدنی میں زرعی شعبے کا حصہ محض بیس یا اکیس فیصد ہے۔ اس بیس فیصد میں پندرہ فیصد مویشیوں کا پالنا ہے جس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ زمین پر ہونے والی کاشت کاری کا حصہ پانچ یا چھ فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ اب یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ معیشت کے پانچ یا چھ فیصد حصے میں بہتری لانے کے لئے نایاب وسائل خرچ کردئیے جائیں اور باقیماندہ اسی فیصد غیر زرعی شعبے کو نظر انداز کر دیا جائے۔

یہ درست ہے کہ ابھی تک چالیس فیصد سے زیادہ آبادی کا انحصار کھیتی باڑی پر ہے لیکن ایک تو یہ تعداد حقیقی نہیں ہے اور دوسرے جو کچھ مرضی کر لیں پاکستان کی چالیس فیصد آبادی کی کھپت زرعی شعبے میں ہو ہی نہیں سکتی۔ اب بھی بظاہر چالیس فیصد آبادی کا کلی انحصار زرعی شعبے پر نہیں ہے کیونکہ ہر خاندان کا ایک حصہ شہروں میں یا ملک سے باہر محنت مزدوری کر کے دیہی علاقوں میں بسی آبادی کو پال رہا ہے۔ زرعی شعبے پر بظاہر انحصار کرنے والی آبادی کے آدھے سے زیادہ حصے کو وہاں سے نکال بھی لیا جائے تو زرعی پیداوار میںکوئی فرق نہیں پڑے گا۔

اب زرعی شعبے کے ٹھوس حقائق کا جائزہ لیجئے۔ پاکستان میں چار بڑی فصلیںہیں جن میں گندم، گنا، چاول اور کپاس ہے۔ ان میں سے گندم، گنا اور چاول کی فصلوں کی پیداواری لاگت اتنی زیادہ ہے کہ پاکستان عالمی منڈی میں مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ گندم برآمد کرنے والے بڑے ملک امریکہ، آسٹریلیا اورقازقستان ہیں۔ ان تینوں ملکوں میں گندم آبپاشی کے بجائے برف کی پیدا کی ہوئی نمی سے پیدا ہوتی ہے۔ ان ملکوں کو پاکستان کی طرح بھاری بھر کم آبپاشی کے انفرا اسٹرکچر کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ یہی صورت حال چاول کی ہے جس کی پیداوار ایشیا کے ان ملکوں میں ہوتی ہے جہاں بارشوں کا قدرتی پانی میسر ہے۔ گنا بھی ویسٹ انڈیز جیسے ان علاقوں میں بغیر آبپاشی کے پیدا ہوتا ہے جہاں سارا سال قدرتی پانی کی فراوانی ہوتی ہے۔اس سے یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ پاکستان ان اجناس میں کبھی بھی عالمی منڈی میں مقابلہ نہیں کر پائے گا۔ پاکستان کو اپنے تصرف کے لئے جتنی گندم اور چاول درکار ہے وہ پہلے ہی ضرورت سے زیادہ پیدا ہو رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان فصلوں کی کاشت کو ممکن بنانے کے لئے حکومت کو سبسڈی دینا پڑتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے تو مزید سبسڈی دینا پڑے گی جو کہ حکومت کے بس میں نہیں ہے۔

اب پانی کی فراہمی کا تجزیہ کیجئے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کے آبی وسائل اس کی ضروریات کے لئے کافی ہیں اور ان میں اگر کوئی کمی ہے تو وہ اس لئے ہے کہ نئی ٹیکنالوجی کو استعمال نہیں کیا جا رہا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان کے پاس مطلوبہ آبی وسائل نہیں ہیں تو گندم اور چاول کس طرح وافر مقدار میں پیدا ہو رہے ہیں؟ جنوبی افریقہ میں 15 بلین کیوبک میٹر پانی میسر ہے جبکہ 65فیصد قومی آمدنی پیدا کرنے والے جو ہانسبرگ کے علاقے کو صرف 3 بلین کیوبک میٹرپانی ملتا ہے۔ پاکستان میں 180بلین کیوبک میٹرپانی دستیاب ہے۔ جنوبی افریقہ کی قومی آمدنی 416بلین ڈالر ہے جبکہ پاکستان 305 بلین ڈالر کی معیشت ہے۔ ان اعداد و شمار کا تقابلی جائزہ لے کر دیکھئے کہ پانی کی فراہمی اور قومی پیداوار کا آپسی تعلق کیا ہے۔ اب اگر ڈرپ اور دوسری نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے آبپاشی کی جائے تو پاکستان میں پانی کی بظاہر نظر آنے والی کمیابی بھی دور کی جا سکتی ہے۔

پاکستان کے زرعی شعبے کو قومی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے فصلوں کی ترجیحات کو یکسر بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستان خوردنی تیل کی در آمد پر کثیر زر مبادلہ خرچ کرنے پر مجبور ہے۔ اگر پاکستان میں گندم اور چاول کی فصلوں کی پیداوار میں کمی کر کے خوردنی تیل بنانے والی فصلوں (سرسوں، سورج مکھی وغیرہ) کو ترجیح دی جائے تو ملک بہت سا زرمبادلہ بھی بچا سکتا ہے، کاشتکاروں کی آمدنی بھی بڑھ سکتی ہے اور حکومت کو سبسڈی دینے کی بھی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ ٹیکنالوجی کے استعمال اور فصلوں کی ترجیحات میں تبدیلی لانے سے زرعی شعبے میں مثبت تبدیلیاں آسکتی ہیں لیکن ان سب کے باوجود 40 فیصد آبادی کو نہ تو اس شعبے میں کھپایا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کی کفالت کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کو صنعتی اور تجارتی شعبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے معاشی ترقی پر گامزن ہونے کی ضرورت ہے۔ امریکہ میں صرف دو فیصد آبادی کا زرعی شعبے کے ساتھ تعلق ہے اور یہاں دنیا کے لئے وافر اجناس پیدا کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں بھی آبادی کی خوشحالی کے لئے زرعی شعبے سے باہر روزگار مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)