برطانیہ سے ملزموں کے تبادلے کا معاہدہ

November 10, 2018

مالی بحران سے نبردآزمائی کے حوالے سے حکومت کے اقدامات بلاشبہ لائق ستائش ہیں کہ ان حالات میں ان سے بہتر اقدامات ممکن نہ تھے۔ چین اور سعودی عرب کی اس موقع پر پاکستان کی مالی اعانت دونوں ملکوں کی پاکستان سے بے لوث اور دیرینہ دوستی کی علامت ہے جس سے پاکستان اس پوزیشن میں آگیا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کو من و عن تسلیم کرنے سے گریز کرے۔ ان حالات میں ایک سوال بہرکیف جواب طلب ہے کہ آخر پاکستان معاشی اعتبار سے اس حالت کو کیونکر پہنچا اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ لاریب کہ کسی بھی ملک میں کسی بھی نوع کی ابتری کی ذمہ داری حکمران طبقے کی غفلت، بے پروائی، نااہلی اور بسا اوقات لالچ کا شاخسانہ ہوتی ہے۔ وطن عزیز بھی اسی عمل سے گزرا اور یہاں تک پہنچا۔ عمیق نظری سے جائزہ لیا جائے تو اس کی ابتدا قیام پاکستان کے ساتھ ہی لالچی لوگوں کی جانب سے جعلی کلیموں کی مدد سے بیش قیمت جائیدادیں اپنے نام کرانے سے ہوئی ۔ پاکستان کے پہلے 9برس تو بیوروکریسی ملک کے سیاہ سفید کی مالک بنی رہی۔ اس کے بعد بھی آنے والی کوئی حکومت ایسی نہیں تھی جس کے دامن پر بدعنوانی کے دھبے نہ ہوں بلکہ ایسی بدعنوانی پر ہی تو سپریم کورٹ کے حکم پر حکومتیں فارغ بھی ہوئیں۔ ستم یہ ہوا کہ ملکی سرمائے پر ہاتھ صاف کرنے والوں سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوئی۔ کچھ تو ایسے نکلے کہ پاکستان سے سرمایہ باہر منتقل کر کے وہاں جائیدادیں بھی بنائیں اور اپنی اولادوں کو بھی ان ممالک میں بھیج دیا۔ اس سارے گورکھ دھندے کے خلاف کوئی موثر سنجیدہ اقدام اس لئے نہ ہوا نہ کوئی قانون سازی ہوئی کہ اس حمام میں تقریباً سبھی ننگے تھے جب بھی ان کے مفادات کی بات آتی ہے اور مفادات کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے، سب اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ حیرانی اس بات پر ہوتی ہے کہ ہر کوئی اپنی پاک دامنی کے راگ الاپ رہا ہے گویا دبئی، لندن، امریکہ، بنگلہ دیش، نیوزی لینڈ اور ملائیشیا میں ملکی دولت خود اُڑ کر چلی گئی۔ کیا عوام کے علم میں نہیں کہ محض سوئس بینک میں پاکستان اور پاکستانیوں کے 200ارب ڈالر پڑے ہیں۔ تشویش کی بات تو یہ ہے کہ سرمایہ ملک سے باہربھیجنے کو کوئی جرم ہی خیال نہیں کیا جارہا۔ مشرف دور میں ہونے والے این آر او میں سیاستدانوں سے زیادہ دیگر حکومتی عمال تھے۔ گویا سبھی ایک دوسرے کے سہولت کار تھے۔ یہاں تک کہ جب سوئس حکومت نے پاکستان سے منی لانڈرنگ کے معاہدے کی بات کی تو اسے ہماری جانب سے دفن کردیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے جمعرات کے روز کابینہ کے 21نکاتی ایجنڈے میں پاکستان اور برطانیہ (بشمول آئرلینڈ) کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدےکی منظوری دیدی ہے۔ ان حالات میں دیکھنا یہ ہے کہ اس معاہدے کی زد میں کون کون آتا ہے۔ جہاں تک ملزموں کی بات ہے یہ دو طرح کے ہیں ،ایک تو وہ جو فوجداری مقدمات میں مطلوب ہیں اور بیرونی ممالک میں پناہ لئے ہوئے ہیں ،دوسرے وہ جو بدعنوانی جیسے الزامات میں مطلوب ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جس ملزم کو برطانیہ میں سیاسی پناہ مل جائے اس کو کسی بھی ملک کے حوالے نہیں کیا جاتا اور برطانیہ اس حوالے سے آئیڈیل قرار دیا جاتا ہے چنانچہ دنیا بھر کے مطلوب افراد یہیں کا رخ کرتے ہیں۔ پاکستان کو یہ تمام امور پیش نظر رکھ کر معاہدے کیلئے آگے بڑھنا ہوگا۔ خاص طور پر جو لوگ منی لانڈرنگ میں مطلوب ہیں صرف انہی کو عدالت کے کٹہرے میں لانے کے بجائے ملکی دولت واپس پاکستان لانے کی کوشش کرنا ہوگی جو یہاں سے لیجائی اور پاکستان کو بدحالی کا شکار کر گئی۔ برطانیہ ہی کیا دنیا کے ہر اس ملک سے یہ معاہدہ کیا جانا چاہئے جہاں دولت لیجائی گئی ہے۔ اس معاہدے کے ساتھ چین کی طر ز پر قانون سازی سونے پر سہاگے کا کام دے گی کہ جس سیاستدان کے بیرون ملک اثاثے ثابت ہو جائیں، اسے الٹا لٹکا دیا جاتا ہے۔ بلاشبہ یہ کڑی سزا کا خوف ہی ہے جس سے منی لانڈرنگ کا سلسلہ رک سکتا ہے ورنہ نہیں۔