جنگ گروپ کی معذرت قبول، سپریم کورٹ نے نوٹس واپس لے لیا

November 16, 2018

اسلام آباد (رپورٹ : عاصم جاوید) عدالت عظمیٰ نے ”بنی گالہ میں ناجائز تعمیرات اور تجاوزات“ سے متعلق کیس میں جنگ میڈیا گروپ کی جانب سے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے منسوب وفاقی حکومت کے خلاف ریمارکس شائع کرنے کے الزام میں بدھ کے روز جاری کیا گیا نوٹس ، ادارہ جنگ کی جانب سے غیر مشروط معافی مانگ لینے کی بناءپر واپس لے لیا ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے جمعرات کے روز کیس کی سماعت کی تو روزنامہ جنگ کے سینئر صحافی حنیف خالد پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہی بتائیں کہ جنگ اور دی نیوز میں جو غلط خبر چھا پی گئی ہے اس کا مداوہ کیا ہے؟ آپ کے رپورٹر تو عدالت میں موجود ہی نہیں تھے ، ان کواگر کوئی مذاق مذاق میں کوئی غلط خبر دیدے توکیا یہ اسے بھی چھاپ دیں گے؟ انہوںنے کہا کہ کیا آپ کا ادارہ ریاستی اداروں کے درمیان تناؤ پیدا کرنا چاہتا ہے ، آپ خود کونمبر ون میڈیا ہاؤس کہتے ہیں ، کیا نمبر ون میڈیا ہاؤس کا یہی کام ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جنگ میڈیا گروپ کی جانب سے دانستہ طور پر غلط رپورٹنگ کی جارہی ہے یہ ساری غلط رپورٹنگ میڈیا کا کوئی اورادارہ کیوں نہیں کرتا ، یہ کام صرف دی نیوز اور روزنامہ جنگ ہی کیوں کر رہے ہیں؟ اس پر حنیف خالد نے کہا کہ میں جنگ میڈیا گروپ کی انتظامیہ کی جانب سے آپ سے معذرت کرتا ہوں ، ہم عدلیہ کی تہہ دل سے عزت کرتے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ یہ خبر صرف جنگ اور دی نیوز نے ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سے اداروں نے چلائی ہے ، میں اس کی ساری تفصیلات عدالت کو پیش کرنا چاہتا ہوں کہ کس کس اخبار نے یہ خبر شائع کی اور کس کس چینل نے یہ خبر کس وقت نشر کی ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ آپ باقی اداروں کی بات چھوڑیں اور صرف اپنے ادارہ کی بات کریں ، آپ کے رپورٹر ز تو عدالت میں آتے ہی نہیں ہیں ، رات کو جیو چینل پر شاہزیب خانزادہ اور دیگر اینکرز کو بٹھا دیا جاتا ہے جو اداروں میں تناؤ پیدا کرنے کے لئے پروگرام کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو خبر آپ نے شائع کی ہے کیا یہ صحافتی اصولوں کے مطابق ہے؟ آپ حکومت اور سپریم کورٹ میں لڑائی کیوںکروانا چاہتے ہیں ، آپ نے جو کچھ چھاپا ہے کیا اس کا یہی مقصد تھا؟ جنگ اور دی نیوز میں انتہائی غلط رپورٹنگ کی گئی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کے چینل کے مختلف پروگراموں میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی حکومت پر بد اعتمادی کا اظہار کردیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں تو تمام اداروں کی مضبوطی کا داعی ہوں ، اداروں کو مضبوط ہونا چاہئے ، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اداروں کو مضبوط کرے ، آپ نے ایسی خبر چھاپ دی ہے جس کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے؟ اور آج جس انداز سے اس کی تردید چھاپی گئی ہے وہ بھی بڑی عجیب ہے؟ دوران سماعت جنگ میڈیا گروپ کے انگریزی روزنامہ دی نیوز کے سینئر سٹاف رپورٹر سہیل خان نے روسٹرم پر آکر عدالت کو بتایا کہ میں نے اپنے اخبار کویہ خبر فائل ہی نہیں کی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ 13نومبر کی شام ساڑھے چھ اورسات بجے تک ملک بھر کے اکثر ٹیلی ویژن چینلز اسے مسلسل چلاتے رہے تھے ، مجھے شکوہ ہے کہ اگر اس وقت تک سپریم کورٹ کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے کوئی تردید آجاتی تو کم از کم اخبارات کی حد تک تو یہ کام رک سکتا تھا ، انہوںنے کہا کہ میں پندرہ سال سے مسلسل اس عدالت کی رپورٹنگ کر رہا ہوں اور ہمیشہ عدلیہ کی دل وجان سے عزت و احترام کرتا ہوں ، ہم روزانہ کی بنیاد پر صحیح رپورٹنگ کرتے ہیں ، میں نے یہ خبر تو فائل ہی نہیں کی تھی بلکہ ملک ریاض والی خبر فائل کی تھی جس میں عدالتی آبزرویشنز بھی پوری باریکی کے ساتھ شائع ہوئی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں چیزیں بدل رہی ہیں ان کو بدلنے دیں ، خبر کچھ ایسی ہو تو اسے شائع کرنے سے پہلے اس کی تصدیق کر لینی چاہئے ، جنگ اور دی نیوز کا کوئی رپورٹر سپریم کورٹ میں نہیں آئے گا جبکہ 5 روز کے لئے جنگ اور دی نیوز کی اشاعت پر بھی پابندی لگا دیتے ہیں اور متعلقہ رپورٹرز کو توہین عدالت میں نوٹس جاری کرکے کاروائی شروع کر رہے ہیں۔ اس پر جنگ کے نمائندے نے کہا کہ ہم نے متعلقہ رپورٹر رانا مسعود حسین کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے تین چار روز میں جواب طلب کرلیا ہے جس کی روشنی میں ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔ بعد ازاں عدالت نے جنگ گروپ کے غیر مشروط معافی نامہ کو منظور کرتے ہوئے نوٹس واپس لینے کا حکم جاری کیا اورجنگ میڈیا گروپ کو آئندہ محتاط رپورٹنگ کی ہدایت کے ساتھ معاملہ نمٹا دیا۔ دوسری جانب جنگ میڈیا گروپ کے پبلشر،پرنٹر اور ایڈیٹر کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ 13 نومبر 2018 کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ”بنی گالہ میں ناجائز تعمیرات اور تجاوزات“ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کچھ ریمارکس دیئے تھے جوکہ مختلف اخبارات ،ٹیلی ویژن چینلز اور نیوز ایجنسیوں نے مختلف انداز میں پیش کئے ، تاہم جب اگلی صبح ہمارے علم میں آیا کہ روزنامہ جنگ اور دی نیوز میں غلط خبر شائع ہوئی ہے تو ہم نے اس کی مکمل چھان پھٹک کی تو معلوم ہوا کہ اردو اور انگریزی اخبارات نے چیف جسٹس کے ریمارکس کے حوالے سے خبر چلائی ہے کہʼʼ حکومت میں اہلیت نہ منصوبہ بندی ہےʼʼ جبکہ خبر ایجنسیوں نے بھی اخبارات کو یہی خبر بھجوائی تھی۔ جواب میں مزید کہا گیاکہ اے آر وائی نے بھی خبر کو اپنے ٹکرز اور ہیڈ لائنز میں اسی طرح ہی پیش کیا تھا۔ اس رپورٹنگ میں اکثرنیوز ایجنسیوں کی جانب سے بھجوائی گئی خبروں کی وجہ سے مزید کنفیوژن بڑھا تھا ،جواب میں کہا گیا ہے کہ ہم نے روزنامہ جنگ کے سپریم کورٹ رپورٹر رانا مسعود حسین اور دی نیوز کے سینئر ایڈیشن انچارج کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے ان سے وضاحت طلب کرلی ہے کہ ”جب وہ عدالت میں موجود نہیں تھے تو انہوں نے دیگر ذرائع سے حاصل کی جانے والی خبر پر انحصار کرتے ہوئے اسے کیسے درست مان لیا ؟“ جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ جنگ گروپ عدالت عظمیٰ کو پہنچنے والی تکلیف پر دلی طور پر معذرت کرتا اور اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مستقبل میں محتاط رہنے کی یقین دہانی کرواتا ہے۔ جواب میں فاضل عدالت سے بغیر کسی مزید کارروائی کے نوٹس واپس لینے کی استدعا کی گئی تھی۔ ادھر روزنامہ جنگ کے سپریم کورٹ رپورٹر رانا مسعود حسین نے ادارہ جنگ کی جانب سے جاری ہونے والے شوکاز نوٹس کے جواب میں بیان کیاہے کہ میں سپریم کورٹ میں تقریباًدس گیارہ سال سے مسلسل ر پورٹنگ کررہا ہوں اورا س ادارہ اور اس کے فاضل ججز کا تہہ دل سے احترام کرتا ہوں اور ان کے ساتھ اتنی طویل رفاقت کی بناءپر ہم خود کو عدالت کا ایک حصہ تصور کرتے اور اس کی عزت ووقار کو اپنی عزت و وقار تصور کرتے ہیں ، عدالتی پروسیجر سے واقفیت اور توہین عدالت کے مرتکبین کے انجام کی وجہ سے جان بوجھ کر یا بدنیتی سے کسی قسم کی توہین کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ اس خبر کی اشاعت میں ہونے والی غلطی میں میری کسی بدنیتی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ کام کے لوڈ کی وجہ سے غفلت ضرور ہوئی ہے جس پر میں شرمندہ ہوں اور آئندہ کے لئے مزید محتاط رہنے کا عہد کرتا ہوں ،میں نے اس سلسلے میں وضاحت کے لئے فاضل چیف جسٹس جناب جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب سے ان کے چیمبر میں جاکر رابطہ کرکے وضاحت کی پوری پوری کوشش بھی کی تھی لیکن انہوں نے شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے میری معذرت کو قبول نہیں کیا تھا ،تاہم آئندہ میں بہت محتاط ہو کر رپورٹنگ کروں گا۔