فیض آباد دھرنا کیس، اٹارنی جنرل غیر حاضر، عدالت برہم

November 16, 2018

فیض آباد دھرنا ازخود نوٹس کیس میں اٹارنی جنرل کی غیر موجودگی پر عدالت برہم ہو گئی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں تحریک لبیک پاکستان کے نومبر 2017 میں فیض آباد دھرنے کے معاملے پر لیے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نےکی۔

سماعت کے آغاز پر ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود نے عدالت سےکہا کہ 'اٹارنی جنرل موجود نہیں، لہذا سماعت ملتوی کر دی جائے۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے برہم ہو کر ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل کدھر ہیں ؟ انکی مرضی ہے آئیں یا نہ آئیں۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل لاہورمیں ہیں،انہیں چیف جسٹس نےہدایت دی تھی کچھ کیسز میں وہاں آئیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کی تصیح کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس نہیں عدالت ہدایات دیتی ہے،ہم بھی تو عدالت ہیں اور یہ تاریخ بھی اٹارنی جنرل کی خواہش پر دی تھی،پاکستان بند ہو گیا اس سے اہم کیس کیا ہو سکتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےسوال کیا کہ یہ مذاق نہیں ہے، اٹارنی جنرل کو تنخواہ کون دیتا ہے؟

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ عوام کے ٹیکس سے اٹارنی جنرل کو تنخواہ ملتی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ٹیکس سے تنخواہ ملتی ہے تو وہ جوابدہ ہیں،اگر حکومت اس کیس کو نہیں چلانا چاہتی تو عدالت کو بتا دے،بتایا جائے ، دفن کر دیتے ہیں۔پاکستان کو فعال ریاست بنانا ہے یا اسے ہجوم نے چلانا ہے،بتا دیں پاکستان کو قانون کے زریعے چلانا ہے یا اسٹریٹ پاور سے۔

یاد رہے کہ آئینی ترمیم الیکشن بل 2017 میں حلف نامے کے الفاظ کو تبدیل کیے جانے پر تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی جانب سے گزشتہ برس نومبر میں اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر 22 روز تک دھرنا دیا گیا، مظاہرین کے خلاف ایک آپریشن بھی کیا گیا، جس کے بعد ایک معاہدے کے بعد دھرنا اختتام پذیر ہوا۔

مظاہرین کے مطالبے کے بعد اُس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کو عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔

فیض آباد دھرنے میں اسلام آباد پولیس کا کُل خرچہ 19 کروڑ 55 لاکھ روپے آیا جبکہ میٹرو اسٹیشن کی توڑ پھوڑ اور بندش کے باعث قومی خزانے کو 6 کروڑ 60 لاکھ روپے کا نقصان بھی ہوا۔