میرا کراچی

November 19, 2018

سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر عروس البلاد کراچی میں تجاوزات ہٹانے کا سلسلہ جاری ہے۔ کچھ علاقوں سے تجاوزات کا خاتمہ بھی کردیا گیا ہے، اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ تجاوزات نہیں تھیں بلکہ کراچی کے ماضی، حال اور مستقبل کو جوڑنے والی تاریخ کی رہ گزر پر رکاوٹیں تھیں۔ تجاوزات کا ملبہ صاف ہونے کے بعد کراچی کا وہ خوبصورت چہرہ سامنے آگیا ہے، جو تجاوزات میں دب گیا تھا اور آج ہم سے یہ سوال کر رہا ہے کہ تم نے کیا کیا لوگو! کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔

مجھ سمیت کراچی میں بہت سے لوگ ایسے ہیں، جن کی روح اور نس نس میں کراچی بسا ہوا ہے۔ میں اکثر یہ کہتا ہوں کہ میں کراچی میں نہیں رہتا بلکہ کراچی مجھ میں رہتا ہے اور جنہیں اپنی زندگی کی ڈھلتی شام کا اتنا زیادہ غم نہیں ہے، جتنا اس بات کا دکھ ہے کہ وہ کراچی کہاں گیا جسے ہم نے بچپن اور جوانی میں دیکھا اور جس نے ہم میں ایک خوبصورت اور عظیم شہر کا باسی ہونے کا احساس پیدا کیا۔ کراچی کے دل ’’ایمپریس مارکیٹ‘‘ کے اردگرد تجاوزات کے خاتمے کے بعد وہاں پانچ عشرے قبل والا کراچی نکھر کر ہمارے سامنے آیا ہے اور ہم شاید تاریخ کی ان چند نسلوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے تاریخ کا پہیہ الٹے گھومتا دیکھا۔ ہمیں خود کو بھی یہ ادراک ہوا ہے کہ ہمارے وجود پر گزرنے والا وقت ہم سے معذرت کرکے پیچھے چلا گیا ہے۔ اب میں ان لوگوں کو کراچی آنے کی دعوت دیتا ہوں، جنہوں نے کراچی کو دنیا کا سب سے گندہ شہر قرار دیا تھا، میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ کراچی 1960ء اور 1970ء کے عشرے تک دنیا کے انتہائی خوبصورت اور جدید شہروں میں سے ایک تھا۔

میں کراچی ہوں، میرا وجود کراچی ہے، میری روح کراچی ہے۔ کراچی سے میرے رشتے کو میں سمجھ سکتا ہوں۔ رسول حمزہ توف نے ’’میرا داغستان‘‘ نامی کتاب لکھ کر اپنے وطن کے لئے جن جذبات کا اظہار کیا تھا، کاش میرے قلم میں وہ طاقت پیدا ہو جائے کہ میں ’’میرا کراچی‘‘ کو ضبطِ تحریر میں لا سکوں۔ میں ترقی پسند نظریات کا حامل ہوں۔ میرا ایمان اور عقیدہ ہے کہ اپنے شہر اور اپنے وطن سے محبت کا اصل محرک وہاں رہنے والے لوگ ہوتے ہیں، جن سے تعلق ہماری شخصیت اور ہماری سوچ کا تعین کرتا ہے۔ جو کراچی میں رہتا ہے، چاہے وہ پاکستان کے کسی بھی علاقے سے ہجرت کرکے آیا ہو، اپنے جسم اور روح کا تعلق کراچی کے وسیلے سے جوڑتا ہے، وہ میرے نزدیک ’’کراچی والا‘‘ ہے اور وہ میں ہوں۔ مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ تجاوزات ہٹانے سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کراچی والوں کا روزگار متاثر ہوا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کراچی کی عظمت اور وقار کی بحالی کے بعد اور زیادہ لوگوں کو روزگار مہیا ہو سکتا ہے۔ کراچی غریب پرور شہر ہے۔ کراچی کا ظرف بہت بڑا ہے۔ کراچی کا دامن بہت وسیع ہے۔ کراچی رنگ، نسل، مذہب، فرقے اور گروہ کی تقسیم کو نہیں مانتا، اس کراچی کو اپنی اصل حالت میں آنے دیا جائے۔

ایک دوست نےمجھ سے کہا کہ کراچی کی ایمپریس مارکیٹ کی عظیم الشان اور پرشکوہ عمارت کے اردگرد غریب لوگوں کی دکانوں، چھپروں اور بے ہنگم تعمیرات کے ہٹانے پر آپ کیوں خوش ہیں؟ یہ ایمپریس مارکیٹ کی عمارت نو آبادیاتی برطانوی راج کی علامت ہے، جہاں آزادی سے قبل مقامی لوگوں کو جانے بھی نہیں دیا جاتا تھا۔ اس سوال پر میں بہت پریشان ہوا۔ پھر ایمپریس مارکیٹ کی تاریخ کا مطالعہ کیا تو پتا چلا کہ یہ عمارت اس جگہ پر تعمیر کی گئی ہے، جہاں برطانوی راج میں انڈین آرمی کے باغی سپاہی رام دین پانڈے اور اس کے ساتھیوں کو توپوں کے منہ پر باندھ کر اڑایا گیا اور پھر ان کی لاشوں کے چیتھڑے اسی جگہ گڑھا کھود کر دفن کر دیئے گئے تھے۔ رام دین پانڈے انگریزوں کو مارنا چاہتا تھا اور کراچی کو نو آبادیاتی حکمرانوں سے پاک کرنا چاہتا تھا۔ تاریخ کی اس حقیقت کو جاننے کے بعد مجھے انگریزوں کی تعمیر کردہ عظیم الشان ایمپریس مارکیٹ بلڈنگ‘ کراچی کے عظیم حریت پسند بیٹوں کی یادگار محسوس ہوتی ہے۔

صرف انگریزوں نے کراچی میں عمارتیں یا انفرااسٹرکچر تعمیر نہیں کیا۔ کراچی انگریزوں کی راج دھانی میں آنے سے قبل بھی ایک عظیم اور خوبصورت شہر تھا۔ یہاں کے باسی نوآبادیاتی حکمرانوں سے زیادہ مہذب اور اعلیٰ اقدار کے حامل تھے۔ انگریزوں کے آنے سے قبل ’’مائی کلاچی‘‘ کے کراچی میں وہ مذہبی، فرقہ ورانہ، نسلی اور لسانی ہم آہنگی تھی، جو تاریخ میں کسی شہر نہیں رہی۔

انگریزوں کے چلے جانے اور قیام پاکستان کے بعد بھی یہاں رہنے والے لوگوں نے کراچی کی ترقی کو جاری رکھا۔ یہاں کے باسی مسلمانوں، مسیحیوں، پارسیوں اور پھر ہندوئوں کے ساتھ ساتھ مختلف نسلی، لسانی اور قومیتی گروہوں نے کراچی میں اسپتال، تعلیمی، فلاحی اور دیگر ادارے قائم کئے۔ یہاں سینٹ جوزف اور سینٹ پال کے نام سے تعلیمی ادارے چلتے رہے اور ترقی کرتے رہے۔ یہاں جہانگیر کوٹھاری کی تعمیر کردہ کوٹھاری پریڈ کو مزید نکھارا گیا۔ یہاں نادرجی ایڈلجی ڈنشا (این ای ڈی) کے بنائے گئے انجینئرنگ کے ادارے کو مزید ترقی دی گئی۔ یہاں خالق دینا ہال کو مزید خوبصورت بنایا گیا اور اسے عظیم الشان لائبریری اور کلچرل سینٹر میں تبدیل کیا گیا۔ یہاں مہاتما گاندھی سے منسوب گارڈن کو بہترین تفریح گاہ بنایا گیا۔ اس شہر میں رہنے والے ہر مذہب، فرقے، رنگ، نسل اور قوم کے لوگوں نے اس شہر کو بنانے میں اپنا حصہ ڈالا۔ کراچی میں خوابوں کی سواری ’’ٹرام‘‘ چلتی تھی۔ کراچی سرکلر ریلوے نے کراچی کے شہریوں کو تقریباً نصف سفری سہولتیں فراہم کی تھیں۔ کراچی میں دنیا کی بہترین شاہراہیں تھیں، جنہیں روزانہ دھویا جاتا تھا۔ 1970ء کے عشرے کی ابتداء میں احمد رشدی کا ایک گانا ’’بندر روڈ سے کیماڑی۔ میری چلی رے گاڑی‘‘ بہت مشہور ہوا، جو کسی فلم میں وحید مراد اور شبنم پر فلمایا گیا تھا۔ اس گانے میں بندر روڈ کو مزارِ قائد سے کیماڑی تک (یعنی سمندر کے کنارے تک) فلمایا گیا تھا۔ گانے میں اس روڈ کے اردگرد کے علاقوں کا ذکر کیا گیا تھا اور گانے کے مناظر میں بندر روڈ (موجودہ ایم اے جناح روڈ) دکھایا گیا تھا، جس کے دونوں اطراف سبزہ اور درخت تھے۔ وحید مراد اور شبنم ایک تانگے پر بھاگے جا رہے تھے۔ اب یہاں تجاوزات کی وجہ سے موٹر سائیکل بھی نہیں چلائی جا سکتی۔ موٹر سائیکل چلانا تو دور کی بات ہے۔ لوگ پیدل بھی نہیں چل سکتے۔

یورپ کے قدیم شہروں پیرس، ایتھنز، لندن، میونخ سمیت تمام شہروں نے اپنے ماضی کو محفوظ رکھا ہے اور وہاں کی بندر روڈ پر آج بھی تانگا یا بگھی چلائی جا سکتی ہے لیکن کراچی تجاوزات میں اپنی عظمت کو کھو چکا تھا۔ مذکورہ بالا یورپی شہروں کی توسیع ہوئی لیکن قدیم شہر کا نقشہ نہیں بدلا گیا اور جدید شہر ماضی کی اعلیٰ روایات یا یوں کہئے کہ ماسٹر پلان پر تعمیر کئے گئے ان شہروں میں سب سے زیادہ خوبصورت شہر کراچی اپنے ماضی اور مستقبل کے درمیان تجاوزات کے باعث روابط باقی نہ رکھ سکا۔

سپریم کورٹ کے جج جناب جسٹس گلزار احمد نے اگلے روز سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ایک اجلاس کے دوران یہ حکم دیا تھا کہ کراچی سرکلر ریلوے اور پرانے کراچی میں ٹرام سروس بحال کی جائے۔ یہ حکم خوش آئند ہے۔ کاش کوئی یہ حکم بھی دے کہ کراچی کی وہ سوچ بحال کی جائے، جس کے تحت 1954ء میں کراچی کے داخلے راستے میری ویدر ٹاور پر بلدیہ عظمیٰ کراچی کی طرف سے یہ نوٹس بورڈ لگایا گیا تھا کہ ’’جنوبی افریقا کے نسل پرست سفید فام لوگوں کا کراچی میں داخلہ ممنوع ہے۔‘‘ اس وقت بیرونی دنیا کے لوگ کراچی میں بندرگاہ سے داخل ہوتے تھے۔ جسٹس سپریم کورٹ گلزار احمد کا شکریہ جنہوں نے ہمیں ’’ہمارا کراچی‘‘ واپس کیا۔