ذہنوں پر لگے قفل کھولنے ہوں گے.

December 15, 2012

ہم کہاں تک پستیوں میں گرتے جائیں گے۔ صحافیوں کے لئے خطرناک ترین جگہ پاکستان ہے احمدیوں کے لئے غیر محفوظ ترین جگہ ہے۔ مسیحیوں کی زندگی اور عبادت گاہیں ہر وقت خطرے میں ہیں۔ ہندو کمیونٹی ملک چھوڑ کر بھاگنا چاہتی ہے۔ اہل تشیعہ کو گاڑیوں سے اتار اتار کے مارا جارہاہے۔ پولیس والے آئے دن خود کش حملوں کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ کوئی فوجی ٹھکانہ نشانے سے باہر نہیں ہے عام عوام ٹارگٹ کلنگ کی زد میں ہیں۔ گھروں میں بیٹھے خاندان ڈاکوؤں اور اغوا کاروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ محافظ جرائم پیشہ لوگوں سے مل گئے ہیں سب کچھ ہورہا ہے اور ہم زندہ ہیں یہ تصویر کشی ایسا منظر بیان کررہی ہے جیسے کسی انسانوں سے بھری بلڈنگ کو آگ لگ گئی ہو اور بلڈنگ میں موجود تمام لوگ بھیانک افراتفری میں دوسرے کی پرواہ کئے بغیر سب کو چھوڑتے اور روندتے ہوئے بس اپنی جان بچانے کی طرف کوشاں ہوں۔ اس میں کچھ مبالغہ بھی نہیں ہے ۔ تو پھر یہ سب کچھ کون کررہا ہے دشمن کون ہے کیسے پکڑا جائے کون پکڑے گا ان سوالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے جس دن ہم نے دشمن کو پہچان لیا اور اس کے سامنے آگئے تو سمجھیں آدھی جنگ جیتی گئی۔ باقی آدھی میں تو دشمن کا پیچھا کرنا ہی باقی رہ جائے گا۔ لیکن ہم خود ہی ایسا ہونے کو تیار نہیں ہیں کہ ہم اپنے دشمن کو پہچاننے کے لئے تیار نہیں ہم یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ہم اپنے دشمن خود ہی ہیں۔ اس لئے سب غیر محفوظ ہیں سبھی کو ایک دوسرے سے خطرہ ہے سب خوف زدہ ہیں۔ ہر انسان دوسرے انسانوں سے ڈرا ہوا ہے۔ ہر ادارہ دوسرے اداروں کو دھمکا رہا ہے۔ ہر صوبہ دوسرے صوبوں سے تنگ ہے۔ اقلیت اکثریت سے تنگ ہے۔ مسلم غیر مسلم سے تنگ ہے، کیا کیا جائے کیا نہ کیا جائے۔ گذشتہ دس سال میں نوے صحافی قتل ہوگئے، قاتل وہ ہیں جو اپنے عقائد کو امن کے عقائد کہتے ہیں ، دعویدار ہیں کہ ہمارا دین تو روا داری کا دین ہے پھر یہ قتل عام کیوں۔ آزادی اظہار پر پہرے کیوں، تم تو حامد میر جیسے معتدل بندے کو بھی ولی خان بابر کے رستے کا مسافر بنانے چلے تھے۔ کیا تم اتنے زور آور ہوگئے ہو کہ کسی کو بھی کا ٹ کے پھینک سکتے ہو۔ کوئی بھی تمہارے بم کی زد میں آسکتا ہے۔ کوئی تمہاری مدح سرائی کرتا رہے تو جان کی امان پائے۔ ذرا تنقید زبان پر آئی تو نہ جان بچے نہ مال۔ نہ آن بچے نہ آل۔ تم نے مسلمان تاثیر کے بیٹے کو اس لئے اغوا کرکے رکھا ہوا ہے کہ تمہیں قادری کی رہائی بھی چاہئے اور ساتھ میں درجنوں دہشت گردوں کی آزادی بھی اور اربوں روپے کی شکل میں تاوان بھی چاہئے اور آئندہ کسی قسم کی قانونی چارہ جوئی سے استثنیٰ کی ضمانت بھی، کیا ریاست اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ سب کچھ ایسے ہی ہو جائے گا جسے تم چاہتے ہو۔ تم تو یہاں تک گر چکے ہو کہ لاہور کے بارونق علاقے میں احمدیوں کے قبرستان میں مردوں کی قبریں تک توڑ پھوڑ ڈالیں۔ بے چارے مردوں نے تمہارا کیا بگاڑا تھا جو زندہ کو اپنے انتقام کا نشانہ بنانے سے تمہاری آگ ٹھنڈی نہیں پڑی۔ یہ تمہاری اللہ کے نام و کلام سے کیسی محبت ہے کہ تم اپنے اللہ کا کلام کسی دوسرے کو لکھنے کی اجازت نہیں دیتے ۔ دراصل تمہارے دل نفرت سے اتنے کالے ہوچکے ہیں کہ تمہیں ہر انسان برا لگتا ہے خواہ وہ زمین پر چلتا پھرتا انسان ہو یا قبر میں پڑا مردہ تم تو مجسمہ نفرت ہو۔ اسی لئے میں کہتا ہوں تم ناقابل اصلاح ہی نہیں ناقابل مذاکرات بھی ہو۔ تمہارے ساتھ کوئی بات نہیں ہوسکتی کیونکہ زندگی کی راہ و رسم تو انسانوں کے ساتھ ہوا کرتی ہے درندوں کے ساتھ کیا مصالحت اور کیا Reconciliation اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ درندے انسانی روپ میں کہاں کہاں ہیں۔ یہ دراصل ہر جگہ ہیں ایک نہیں ہزاروں اور لاکھوں ہیں، گھروں سے دفاتر تک، دیہات سے کھیتوں تک، مزدور سے فیکٹری تک، ڈاکٹر ، صحافی، انجینئر، استاد ، طالب علم، یہ زندگی کے ہر شعبے میں گھسے ہوئے ہیں۔ کہتے کو مٹھی بھر ہیں حالانکہ یہ مٹھی سے باہر نکل چکے ہیں۔ کیونکہ یہ دہشت گرد ہمارے اندر گھس چکے ہیں۔ اس لئے ہمیں اپنے اندر کا دہشت گرد مارنا ہے یہ انتہا پسندی ہمارے اندر ہے احمدی مرے یا شیعہ، بلوچ مرے یا سندھی ، کوئی بے پہچان کا مرے یا غریب۔ ہم نے احتجاج نہ کرنے کی ٹھان لی ہے۔ ہم بے حس بھی ہیں اور انتہا پسندوں کے لئے نرم گوشہ بھی رکھتے ہیں۔ یا اس کے عمل کو جائز سمجھتے ہیں تو اصل میں ہم خود بھی وہی بن چکے ہوتے ہیں کیونکہ ہماری رائے کا وزن ان انتہا پسندوں کے پلڑے میں جاتا ہے۔ ہم خود کو بہت کشادہ ذہن، لبرل اور برداشت کرنے والا سمجھتے ہیں لیکن اپنے ذہن میں بنے عقائد و نظریات کے ڈھانچے کو چھونے تک نہیں دیتے۔
ہمیں رائج اور تسلیم شدہ انسانی اور فطری قوانین اور آفاقی بجھارتوں میں فرق ہی محسوس نہیں ہوتا۔ لیکن ہم کھلے ذہن ہونے کی دعویداری سے دستبردار بھی نہیں ہوتے۔ آزادی اظہار کو ہی لے لیں۔ کہنے کو ہم سب کچھ کہنے سننے کے لئے آزاد ہیں۔ لیکن کیا کہنا ہے اس کی حدود و تیور میں اور آپ طے نہیں کرتے ہر انفارمیشن تک رسائی سب کا بنیادی حق ہے لیکن آپ دیکھ سکتے ہیں کہ گذشتہ کئی ماہ سے پاکستان میں یو ٹیوب بند ہے آپ ٹاک شوز میں جاسکتے ہیں لیکن ملٹری، نیشنل سیکورٹی کے ایشوز، نظریہ پاکستان ایٹمی صلاحیت، توہین رسالت کا قانون ، مخصوص مذہبی اور لبرل انتہا پسند گروپس اور اب عدلیہ بھی یہ سب میڈیا کے لئے مقدس گائیں ہیں۔ ان پر تنقید اور آزادانہ لب کشائی دعوت خطرہ جان اور خطرہ آن ہے ۔ کوئی مندر توڑ دے یا گرجا ، امام بارگاہ میں بم مارے یا کسی عبادت گاہ پر، کسی مزار کو اڑا دے یا زیارت کو میڈیا کو ایک حد سے آگے بے نقاب کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہمارے ریاستی مفادات بھی عجیب نوعیت کے ہیں ادارے اپنی سوچ کے اعتبار سے مذہبی اور لبرل سوچ میں تقسیم ہیں۔ ویسے تو لبرل بھی مذہبی ہی ہیں لیکن ان میں Activism نہیں ہے۔ چونکہ ہمارے ادارے افراد کے بہت زیادہ زیر اثر ہوتے ہیں۔ اس لئے ہر ادارہ چند افراد کی سوچ کے مطابق چلتاہے۔ یہی چند افراد قومی مفادات National Interest سمیت پر معاملے میں اپنی نوعیت کی تشریحات اور توجیحات رکھتے ہیں۔ میڈیا والوں کو اپنی پالیسی کا تعین کرتے ہوئے ان چند افراد کے Mind Set کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ یہ چند افراد جن اداروں کے ذریعے ہر جگہ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ وہ ادارے بھاری مقدار میں خفیہ فنڈ رکھتے ہیں جو متعلقہ اداروں اور افراد کو کرپٹ کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور آزادی اظہار کو عقائد و مسالک کے مفادات کے لئے کس طرح Manage کرنا ہے۔ یہ بھی ان چند کنٹرولر ذہنوں کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے کونسے فرقے اور مسلک کی پٹائی کرنی ہے اور کس کی پذیرائی یہ سب کچھ انہی چند دماغوں کی سوچ کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ نظریہ پاکستان کیا ہے اور قومی مفادات کیا ہیں یہ بھی انہی چند دماغوں کی اختراع سے متعین ہوتا ہے۔ مذہب اور عقیدے کے حوالے سے ہمارے لوگ وہ بیرون ملک رہتے ہوں یا پاکستان میں، ان کی جذباتیت ملتی جلتی ہے ان کنٹرول کرنے والے چند دماغوں نے اس جذباتیت کو خوب کیش Cash کروایا ہے۔ ان کے پیچھے فی الفور کفر یا ملک دشمنی کا فتویٰ دینے والوں کی طاقت ایک طرف عوام کا ایک بڑا حصہ بھی ان معاملات پر آنکھیں کھولنے کو تیار نہیں ہے میشا مسیح کا معاملہ ہو یا احمدیوں کا قتل عام، ہندو لڑکیوں کو جبری مسلمان بناکر شادی کرنے کا معاملہ ہو یا قومیتوں میں باہمی نفرتیں بڑھانے کا قصہ ، عوام کا ایک بڑا حصہ اسی سوچ کے ساتھ ہو جاتا ہے جو یہ چند دماغ کرنا چاہتے ہیں۔ یہی کمزوری اصل میں ہماری دشمن ہے اس کمزوری نے ہمیں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے۔ یہ سوچ کی کمزوری ہی اصل میں انسان دشمن ہے جس کے آگے مذہبی منافرت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ انسان انسان کا قتل کرے توبھی باہمی نفرتیں غصہ اور احتجاج پیدا نہیں ہونے دیتی اس لئے جب تک ہم اپنے اذہان پر لگے قفل نہیں کھولیں گے۔ یہ حالات ایسے ہی چلتے رہیں گے اس لئے دشمن کو پہچان کر اپنے سامنے لانا ضروری ہے۔ دشمن جس لبادے میں ہے اس لبادے کی چیر پھاڑ کئے بغیر بات نہیں بنے گی۔ دیکھیں یہ قفل کب جھوٹا پڑتا ہے۔ ہماری زندگی میں یا بعد۔