دیارِ نبی ﷺ میں!! (دوسرا حصّہ)

December 02, 2018

نمازِ عصر کے لیے اہلیہ کے ساتھ ہوٹل سے حرم شریف کی جانب روانہ ہوئے۔ بڑی ہم شیرہ کی بیٹی، یعنی ہماری بھانجی کا گھر، مسجدِ نبویﷺ کے قریب ہی ہے، لہٰذا وہ بھی ہوٹل آ گئی تھیں۔ اہلیہ تو اُن کے ساتھ’’ بابِ علیؓ‘‘ سے خواتین کے حصّے میں چلی گئیں اور ہم اگلی صفوں کے شوق میں تیز قدم اٹھاتے آگے بڑھتے چلے گئے۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے کا پورا مدینہ منورہ اب مسجدِ نبویﷺ کی حدود میں ضم ہوچُکا ہے۔ قدرے طویل فاصلہ طے کرکے ’’باب السّلام‘‘ پہنچے، تو وہاں سے مسجد میں داخلہ بند ہوچُکا تھا۔ مسجد کا یہ راستہ، سیدھا روضہ شریف تک جاتا ہے۔ دروازے پر چند چاق چوبند سپاہی موجود تھے۔ بہرکیف، دروازے سے لگ کر کھڑا ہوگئے۔ تشنگی سے سلگتی نگاہیں، روضہ شریف کی جانب جانے والے راستے پر مرکوز تھیں۔ روضہ شریف کی عظمت، اپنی کم مائیگی اور اندر نہ جانے کی اجازت کے احساس سے بے اختیار آنکھوں میں آنسو آگئے، جو روکنے اور پلکوں میں قید کرنے کی کوشش کے باوجود، قطار در قطار ڈھلک کر گالوں کو گیلا کرتے، سفید داڑھی میں جذب ہوتے رہے اور یہی وہ لمحہ تھا کہ جب سامنے کھڑے سپاہیوں میں سے ایک تیزی سے ہماری جانب بڑھا، مُسکراتے ہوئے بازو پکڑا اور مسجد کے اندر داخل کردیا۔ خیال گزرا کہ شاید ہمارے بہتے اشکوں نے اُسے متاثر کردیا ہو، لیکن پِھر دِل کے کسی گوشے سے صدا آئی’’ بے وقوف…! تُو آقاﷺ کے روضے کے سامنے کھڑا ہے۔ آقاﷺ تجھے دیکھ رہے ہیں۔ تیرے لبوں پر سجے درود و سلام کے تحفے اُن تک پہنچ رہے ہیں۔ تیری تمام تر حماقتوں اور نادانیوں کے باوجود، روضے شریف کے راستے کی چوکھٹ پر تیرے آنسوئوں کے نذرانے کو آقاﷺ نے قبول کرلیا ہے اور تجھے اذنِ باریابی عطا فرمادیا ہے۔ آگے بڑھ اور سبز جالیوں کے سامنے پہنچ کر اپنی عہد شکنی پر معافی مانگ، آئندہ نہ کرنے کا عہد کر۔‘‘ دِل کی بے قابو دھڑکنوں اور اَن جانے خوف سے کانپتے وجود کے ساتھ ابھی چند قدم ہی آگے بڑھا تھا کہ نمازِ عصر کا خیال آگیا، جماعت کسی بھی لمحے کھڑی ہونے والی تھی۔ چناں چہ، قدم خود بہ خود ریاض الجنّہ کی جانب اٹھ گئے، جس کا دروازہ بائیں جانب تھا۔ وہاں تِل رکھنے کی جگہ نہ تھی، اب کیا کروں…؟ کیا پیچھے کی جانب لَوٹ جائوں؟ ریاض الجنّہ کے دروازے پر کھڑا واپسی کا سوچ ہی رہا تھا کہ سامنے ،پہلی صف میں بیٹھے ایک مقامی عرب بزرگ نے ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس بلایا اور اپنا ایک گُھٹنہ کھڑا کرتے ہوئے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ہم نے عربی لباس میں ملبوس اُن بزرگ کا شُکریہ ادا کیا۔ دیارِ نبیﷺ میں آمد کے بعد پہلی نماز ،ریاض الجنّہ کی پہلی صف میں ادا کرنے کی سعادت نصیب ہونے پر بے اختیار منہ سے نکلا ’’یہ سب تمھارا کرم ہے آقاؐ کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے… مَیں اس کرم کے کہاں تھا قابل،حضور(ﷺ) کی بندہ پَروری ہے۔‘‘

حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ میرے گھر اور منبر کا درمیانی ٹکڑا، جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر، میرے حوض (حوضِ کوثر) پر ہوگا‘‘ (بخاری و مسلم)۔ جب قیامت آئے گی، تو ساری زمین فنا ہو جائے گی، لیکن ریاض الجنّہ کا یہ حصّہ فنا نہیں ہوگا، بلکہ اِسے جنّت کا حصّہ بنا دیا جائے گا۔ یوں تو پورا ریاض الجنّہ ہی نہایت فضیلت کا حامل ہے، لیکن اس کی تین چیزیں بہت زیادہ قدرو منزلت رکھتی ہیں۔ محرابِ نبویﷺ، منبر شریف اور اسطوانات۔رسول اللہﷺ کے زمانے میں مسجدِ نبویؐ میں کوئی محراب نہیں تھی۔ سب سے پہلی محراب، 91ہجری، بمطابق 709 عیسوی میں حضرت عُمر بن عبدالعزیزؒ نے تعمیر کروائی، جسے ’’محرابِ نبویﷺ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ حضورﷺ کے سجدۂ مبارک کی جگہ پر رحل رکھ دی گئی ہے اور جہاں آپ ﷺکے قدم شریف ہوتے تھے، وہاں اب امام صاحب کی پیشانی ہوتی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ خطبہ دیتے ہوئے کھجور کے ایک تَنے سے ٹیک لگالیا کرتے تھے۔ جب نمازیوں کی تعداد بڑھی، تو ایک منبر کی ضرورت محسوس ہوئی، چناں چہ صحابہؓ نے پہلے مٹّی کا منبر بنایا، لیکن پھر حضرت سہل بن سعدؓ نے ایک انصاری عورت کے بڑھئی غلام کے ساتھ مل کر ایک میٹر اونچا اور آدھا میٹر چوڑا لکڑی کا منبر بنا دیا۔ جب جمعے کا دن آیا، تو آپﷺ کھجور کے تَنے سے ٹیک لگانے کی بجائے منبر پر تشریف لے گئے، جس پر وہ تنا بچّوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ حضورﷺ منبر سے نیچے تشریف لائے، تَنے کو اپنی آغوش میں لے کر سینے سے لگایا، جس سے اُسے سکون ملا اور وہ سسکیاں لیتے ہوئے خاموش ہوگیا۔ اس تَنے کی جگہ ایک ستون بنادیا گیا ہے، جسے’’ اسطوانہ حنانہ‘‘ یا’’ اسطوانہ مخلقہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ مسجدِ نبویﷺ کا موجودہ محراب، 888 ہجری، بہ مطابق 1483 عیسوی میں سلطان اشرف قایتبائی نے بنوایا تھا، جس کی مرمّت اور آرائش وزیبائش 1404ہجری میں خادم الحرمین الشریفین، شاہ فہد کے دَور میں کی گئی۔ ہماری نظروں کے سامنے نہایت حَسین و جمیل اور دیدہ زیب منبر شریف ہے، جسے 998ہجری، بہ مطابق 1589عیسوی میں تُرک سلطان، مُراد عثمانی نے تیار کروا کر بھیجا تھا۔ سنگِ مر مر سے بنا، انتہائی نفیس، میناکاری سے مرصع و مزیّن یہ منبر، اسلامی طرزِ تعمیر کا ایک نادر شاہ کار ہے۔ اس کے اوپر سنگ مرمر کا گنبد ہے، جب کہ یہ 12 زینوں پر مشتمل ہے۔ اس پر دوپٹ کا نہایت نفیس دروازہ بھی ہے، جو صرف جمعے کے روز امامِ مسجد کے لیے کُھلتا ہے۔نبی کریمﷺ کے زمانے میں مسجد نبویؐ میں 27اسطوانات(ستون) تھے، جو درحقیقت کھجور کے تَنے تھے۔ عہدِ عثمانی تک یہ ستون جوں کے توں رہے۔ مختلف ادوار میں مسجد کی توسیع کے دَوران، ان ستونوں میں سے جو تاریخی حیثیت رکھتے تھے، اُن کی نشان دہی کا خاص اہتمام کیا گیا اور انھیں دیگر ستونوں سے منفرد بنا کر ان کی تاریخی حیثیت کے مطابق نام تحریر کردیے گئے، جن کے نام یہ ہیں اسطوانہ مخلقہ، اسطوانہ عائشہؓ، اسطوانہ توبہ، اسطوانہ سریر، اسطوانہ حوس، اسطوانہ وفود۔ ریاض الجنّہ کی نشان دہی کے لیے اس پورے حصّے میں ہلکے سبز رنگ کے دیدہ زیب قالین بچھائے گئے ہیں، جب کہ پوری مسجد نبویﷺ میں سُرخ قالین بچھے ہوئے ہیں۔

ابھی ہم ریاض الجنّہ ہی میں تھے۔ نمازِ مغرب کے بعد حضورﷺ کے روضے پر حاضری کا ارادہ تھا۔ بائیں ہاتھ پر روضے شریف کی سبز جالیاں ہیں۔ نہایت عقیدت و محبّت سے ان جالیوں کو دیکھنے میں محو تھے کہ اچانک ذہن کی سلیٹ پر تاریخ کا ایک واقعہ نمودار ہوا ، جسے اہلِ سیر نے بہت تفصیل سے تحریر کیا ہے۔ مختصراً کچھ یوں ہے کہ 88ہجری، بہ مطابق 706عیسوی میں روضہ شریف کی مشرقی دیوار تیز آندھی اور بارش کے سبب زمین بوس ہوگئی ۔ اُس وقت حضرت عُمر بن عبدالعزیزؒ مدینے کے گورنر تھے۔ روایت میں ہے کہ روضۂ اطہر سے پُھوٹنے والی مسحور کُن خُوش بُوئوں نے پورے مدینے کو معطّر کردیا تھا اور وہ خُوش بُو کئی دنوں تک مدینے کی فضائوں میں رَچی بَسی رہی۔ حضرت عُمر بن عبدالعزیزؒ نے فوری طور پر روضۂ اطہر کے چاروں جانب پنج گوشہ دیوار بنوا کر چھت تک بلند کردی۔ اس دیوار میں کوئی دروازہ ہے اور نہ کھڑکی۔ لہٰذا فیس بُک اور دیگر سائٹس پر موجود حضورﷺ کی قبرِ اطہر کی تمام تصاویر جعلی ہیں اور ایسے لوگ گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ پنج گوشہ دیوار کے اطراف تین میٹر کے فاصلے پر لوہے اور پیتل کی خُوب صُورت جالیوں سے حدبندی کی گئی ہے، جسے’’ مقصورہ شریف‘‘ کہتے ہیں۔ اسے 886 ہجری (1481 عیسوی) میں سلطان اشرف قایتبائی نے بنوایا تھا۔ ان ہی جالیوں میں مرقد مقدّس کے سامنے تین دائرے ہیں۔ پہلا بڑا دائرہ، سرکارِ دوعالم ﷺ کی قبرِ اطہر کے سامنے، دوسرا حضرت صدیقِ اکبرؓ کی اور تیسرا حضرت عُمر فاروقؓ کی قبرِ مبارک کے سامنے ہے، یہ دو دائرے نسبتاً چھوٹے ہیں۔ ان ہی سبز جالیوں اور دائروں کے سامنے کھڑے ہو کر عاشقانِ رسولﷺ درود و سلام کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ اگر ان دائروں سے اندر جھانکیں، تو روضۂ شریف کی پنج گوشہ دیوار پر لٹکا سبز پردہ نظر آتا ہے۔روضہ شریف کی دیوار میں کوئی دروازہ نہیں، لیکن’’ مقصورہ شریف‘‘ میں چار دروازے ہیں، جو عموماً بند رہتے ہیں۔ مشرقی دیوار پر ایک دروازہ’’باب الفاطمہ‘‘ ہے، جسے مسلم سربراہان کے لیے کھولا جاتا ہے۔ یہ دروازہ’’ بابِ جبرائیل‘‘ سے داخل ہوتے ہی بائیں ہاتھ پر گلی میں ہے۔ نمازِ مغرب کا وقت ہوگیا۔ ریاض الجنّہ دنیا بھر سے آئے مختلف رنگ و نسل، قوم و وطن کے زائرین سے بَھر چُکا ہے۔ مسجدِ حرام اور مسجد نبویﷺ میں ہر جمعرات اور پیر کو اذانِ مغرب سے ذرا پہلے دسترخوان بچھا دیے جاتے ہیں تاکہ روزے دار افطار کر لیں اور جو روزے سے نہ ہوں، چاہیں تو وہ بھی کچھ کھا پی لیں۔ ہمارے سامنے بھی دسترخوان بچھا ہوا ہے، جس پر کھجوریں، آبِ زم زم اور فریش جوسزکے ڈبّے موجود ہیں۔ ان دسترخوانوں کا اہتمام مقامی عرب بڑے ذوق و شوق سے کرتے ہیں۔ اذانِ مغرب کے کچھ ہی منٹ بعد پلاسٹک کے ان دسترخوانوں کو نہایت نفاست سے طے کردیا جاتا ہے اور نماز کے لیے صف بندی کرلی جاتی ہے۔ ہمارے عقب میں مچان پر مقامِ اذان سے ’’اللہ اکبر‘‘ کی رُوح پرور صدائوں نے مغرب کی نماز کا اعلان کردیا۔ ہم نے بھی اپنے سامنے دسترخوان سے چند عجوہ کھجوریں اٹھا کر کھائیں، آبِ زم زم پیا اور ٹھیک دس منٹ بعد نماز کے لیے صف بندی کرلی۔

نماز کے اختتام پر عاشقانِ رسولﷺ دیوانہ وار’’ مقصورہ شریف‘‘ کی جانب لپکے۔ہم میں آقاﷺ کے سامنے جانے کی ہمّت نہیں ہو رہی تھی۔ وعدہ خلافیاں، نادانیاں، حماقتیں پائوں کی زنجیر بن چُکی تھیں۔ جسم احساسِ ندامت اور شرمندگی کے باعث پسینے سے شرابور تھا۔ ابھی اسی کیفیت سے گزر رہا تھا کہ’’ نمازِ اوّابین ‘‘ کا خیال آ گیا۔ دوبارہ کھڑے ہو کر نوافل کی نیّت باندھی، پھر اللہ سے خصوصی دُعا کی اور نم ناک آنکھوں کے ساتھ ڈگمگاتے قدموں پر کانپتے وجود کا بوجھ ڈالے ،عقیدت مندوں کے ہجوم میں شامل ہو گیا۔ یہاں بھی زائرین کا وہی ازدحام اور وارفتگی کا وہی عالم تھا، جو حجرِ اسود یا ملتزم پر ہوتا ہے، لیکن یہاں عاشقان مصطفیٰ ﷺ ادب واحترام، صبرو تحمّل اور نظم وضبط کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔ لبوں پر درود و سلام تھا۔ نگاہیں ندامت و شرمندگی سے جُھکی ہوئی ہیں۔ ماحول میں ایک پُرسکون خاموشی تھی۔ ہاں کبھی کبھی کسی کی ہچکیوں یا سسکیوں کی صدا فضا میں ارتعاش پیدا کر دیتی۔ یہاں کسی کی مجال نہیں کہ اونچا بولے۔ یہ تو وہ معتبر و محترم جگہ ہے کہ جہاں صحابہ کرامؓ کو بھی اونچا بولنے کی اجازت نہیں تھی۔ اللہ نے قرآن میں فرما دیا کہ’’ اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی(ﷺ) کی آواز سے بلند نہ کیا کرو اور نہ بلند آواز سے رسول(ﷺ) سے بات کیا کرو، جیسا کہ تم ایک دوسرے سے کیا کرتے ہو۔ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو‘‘( الحجرات)۔البتہ یہاں ایک بات ایسی ضرور دیکھی، جس سے بہت تکلیف ہوئی، وہ یہ کہ اب موبائل فونز سے روضۂ شریف پر بھی تصاویر بنانے کا رجحان بڑھتا چلا جا رہا ہے، حالاںکہ یہ تو وہ قیمتی، اَن مول لمحات ہیں کہ جن میں آقاﷺ کو راضی کر کے اپنی شفاعت کی التجا کی جانی چاہیے، نہ کہ ان بیش بہا لمحات کو تصاویر کے فضول شوق میں ضائع کر دیا جائے۔ زائرین کی تین چار قطاریں آگے بڑھ رہی تھیں۔ہم بھی درود وسلام کی کہکشاں میں آگے بڑھے۔ کچھ ہی دیر بعد سنہری جالیوں کے قریب پہنچ گئے۔ ایک زمانہ تھا کہ عاشقانِ رسول ﷺ ان حَسین جالیوں کو چُھو کر سکون حاصل کیا کرتے تھے، لیکن اب ان جالیوں کے سامنے ایک میٹر چوڑی دیوار بنا دی گئی ہے، جہاں محافظ موجود رہتے ہیں۔ چناں چہ اب ان جالیوں کو ہاتھ لگانا ممکن نہیں ہے۔ مجھ سا تہی دامن، خالی ہاتھ، شرمندہ و نم دیدہ، نظریں جُھکائے، سرکارﷺ کے دربار کے سامنے کھڑا ہے۔ باطن میں اِک عجیب سی ہل چل مچی ہے۔ تیزی سے دھڑکتے دِل، لرزتے وجود کے ساتھ اعصاب کی تمام تر قوّتیں کو جمع کر کے آنسوئوں کے سمندر میں تیرتی نگاہ اوپر اٹھائی۔ ایک نظر روضۂ اطہر کی جانب ڈالی، جہاں سے پیہم نور کی جہاں تاب کرنیں تا ابد تاریکیوں کا جگر چیر کر دنیا کو ایمان کی روشنی سے منور کرتی رہیں گی، اُسی لمحے دِل کے کسی کونے سے بےاختیار صدا آئی’’ السّلام علیک یا نبی اللہ، السّلام علیک یا رسول اللہ ‘‘روایت میں ہے کہ جو شخص بارگاہِ رسالتﷺ میں آ کر سلام کرے، تو حضورﷺ نہ صرف یہ کہ سلام کا جواب دیتے ہیں، بلکہ اُس کی شفاعت بھی فرماتے ہیں، مگر کیا تیرا نامۂ اعمال اس قابل ہے کہ حضورﷺ تیری شفاعت فرمائیں؟ اور پھر اس کے ساتھ ہی نگاہوں کے سامنے اپنی کتابِ زندگی کے اوراق کُھلتے چلے گئے، جو نافرمانیوں اور بدعہدیوں سے بَھرے پڑے ہیں۔ ان پر نظر پڑی، تو لرزتا جسم پسینے سے شرابور ہو گیا، لیکن پھر دلِ بے قرار سے صدا آئی’’ ان سب کے باوجود حکمِ ربّی ہے، جو تُو یہاں آیا، ورنہ کسی کی کیا مجال کہ بغیر بلائے اس درِ دولت پر آ جائے۔ مجھے یقین ہے کہ آقاﷺ نے میرے سلام کا جواب بھی دیا ہو گا اور شاید یہی وہ پروانۂ راہ داری ہو کہ جو شفاعت کی ضمانت بن کر محشر میں اس عاصی اور ادنیٰ اُمّتی کی بخشش کا ذریعہ بن جائے۔‘‘ ذہن کے دریچوں سے اُمید کی کرن بن کر پھوٹنے والی اس آرزو نے آب دیدہ کر دیا اور بے اختیار پھر سلام کا نذرانہ پیش کیا، تو یوں لگا کہ جیسے مقدّس جالیوں کے اندر سبز ریشمی پردوں سے آئی مُشک بُو اور دِل رُبا ہوا کے ایک حَسین جھونکے نے پورے وجود کو اپنی آغوش میں لے لیا ہو۔ سرور و کیف کی لذّتوں سے سرشار، عالمِ بے خودی میں کھڑا تھا کہ جالیوں کے قریب کھڑے ایک باوردی سپاہی( شرطہ) نے ہمیں بازو سے پکڑ کر آگے کر دیا۔ اب مرقدِ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ پر ہوں۔ تو حید اور رسالت کی پہلی گواہی، مکّہ کا کٹھن ترین دَور، واقعۂ معراج کی تصدیق، سفرِ ہجرت اور پھر لحد سے ابد تک ہر لمحے کے ساتھی۔ اُن کے ساتھ ہی ہیں، فاروقِ اعظمؓ۔ مُرادِ رسول ﷺ کہ جن کی دہشت سے کفّار لرز جائیں، شیطان بھاگ اٹھے اور خشک دریائے نیل جاری ہو جائے۔ دو تہائی کرۂ ارض کا تنہا فقیر منش حکم ران۔ دونوں کو ہم سب کا سلام۔’’ بابِ بقیع‘‘ سے نکلے ہی تھے کہ گنبدِ خضرا سے پھوٹنے والی قوسِ قزح کی پُرنور شعاؤں کے سحر نے یوں جکڑا کہ گردو پیش کا ہوش ہی نہ رہا۔ حضور اقدسﷺ کے روضۂ اطہر کی نسبت سے گنبدِ خضرا کا تصوّر آتے ہی اُمّتِ محمّدیہﷺ کی نظریں عقیدت و احترام سے جُھک جاتی ہیں اور روضۂ انور کے دیدار کی تڑپ دو چند ہو جاتی ہے۔ حجرۂ شریفہ پر گنبد کی تعمیر سب سے پہلے678ہجری، 1279عیسوی میں سلطان المنصور قلاوون الصالحی نے کروائی۔ جب کہ موجودہ گنبد، 1232ہجری، 1818عیسوی میں تُرکی کے سلطان محمود نے اَزسر نو تعمیر کروایا اور1255ہجری، 1839عیسوی میں اس پر پہلی بار سبز رنگ کروایا گیا، جس کی وجہ سے یہ ’’گنبدِخضرا ‘‘ کہلانے لگا۔ ( جاری ہے)