چین سے قرض نہیں ،سرمایہ کاری

December 04, 2018

کراچی میں تعینات چینی قونصل جنرل لانگ ڈنگ بن نے پاکستانی معیشت کو مشکل سے نکالنے اور ازسرنو ترقی کی راہ پر گام زن کرنے کیلئے اپنے ملک کی جانب سے تعاون کے طریق کار کی صراحت ان الفاظ میں کی ہے کہ’’ چین، پاکستانی معیشت کے استحکام کیلئے قرض فراہم کرنے کے بجائے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا‘‘چینی قونصل خانے پر ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملے کے بعد جیو نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں چینی سفارت کار نے بالکل درست طور پر اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ قرض کے بجائے سرمایہ کاری کے طریقے کو اختیار کرنے سے ’’پاکستان کو مستقل اور پائیدار بنیادوں پر مالیاتی بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی‘‘ چینی قونصل جنرل نے اپنے انٹرویو میں چینی حکومت کی جانب سے بارہا کرائی جانے والی اس یقین دہانی کو ایک بار پھر دہرایا کہ چین مشکل وقت میں پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔یہ ایک کھلی حقیقت ہے اور بین الاقوامی تعلقات کی تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ بیشتر ترقی یافتہ مغربی ملک ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کو اپنی برآمدات اور ساز وسامان کی منڈی بنائے رکھنے کی حکمت عملی اپناتے اور اس مقصد کیلئے ان ملکوں میں ایسی سرمایہ کاری سے گریز کرتے ہیں جس سے ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کے ترقی پذیر ملکوں میں منتقلی کے دروازے کھل سکیں۔معاشی بدحالی میں مبتلا ممالک کو مستقل بنیادوں پر مشکل سے نجات دلانے اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانے کے بجائے ترقی یافتہ مغربی ملک بالعموم مالی امداد کے نام پر ترقی پذیر ملکوں کو بھاری شرح سود پر کڑی شرائط کے ساتھ قرضے فراہم کرتے ہیں جن کا بڑا حصہ ماہرین کے معاوضوں اور مراعات وغیرہ کی شکل میں واپس چلاجانا ہے ۔ پاکستان مغربی دنیا کے اس ’’حسن سلوک‘‘ کا وسیع تجربہ رکھتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے قرضوں کا بوجھ تو بڑھتا چلا گیا لیکن ٹیکنالوجی اور مہارت کی منتقلی کی شکل میں پائیدار معاشی ترقی کی راہیں بہت کم ہی کھل سکیں۔ مغربی دنیا کی جانب سے اپنایا جانے والا نام نہادمعاشی تعاون کا یہ طریق کاردنیا میں ارتکازِ دولت کا بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے غربت اور امارت کاباہمی فرق بڑھتا چلا جاتا ہے ، اس کا نتیجہ انسانی معاشروں میں بے چینی اور اضطراب کی شکل میں سامنے آتا ہے۔چینی قیادت نے اس کے مقابلے میں ترقی کا ایک بالکل دوسرا نظریہ متعارف کرایا ہے جو ترقی کے سفر میں سب کو ساتھ لے کر چلنے کا ہے۔’’ون بیلٹ ون روڈ ‘‘ کے منصوبے اس نظریے کا عملی اظہار ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری اس سمت میں ایک بہت بڑی پیش رفت ہے جس نے چین و پاکستان کے دیرینہ و مخلصانہ تعلقات کو نئی بلندیوں پر پہنچادیا ہے۔چین کے اس تعاون کو شکوک و شبہات سے آلودہ کرنے کیلئے یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے کہ سی پیک پاکستان پر چینی قرضوں کے ناقابل برداشت بوجھ کا سبب بنے گا جس کی دوٹوک تردید چینی حکومت مسلسل کرتی چلی آرہی ہے۔ چینی قونصل جنرل نے بھی اپنے اس انٹرویو میں وضاحت کی ہے کہ پاکستان کے قرضوں کا بوجھ بڑھانے میں سی پیک کا کوئی کردار نہیں ہے۔لانگ ڈنگ بن کا کہنا تھا کہ راہداری کے بائیس منصوبوں میں سے صرف چار کا آغاز سی پیک کے فراہم کردہ قرض کے ذریعے کیا گیا جبکہ دیگر منصوبے سرمایہ کاری کی بنیاد پر ہیں جو پاکستانی معیشت کو مضبوط بنائیں گے۔ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورئہ چین کے حوالے سے بتایا کہ اس موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کے پندرہ معاہدے ہوئے ہیں جن کے نتیجے میں پاکستان میں چینی سرمایہ کاری بھی آئے گی اور ٹیکنالوجی بھی اور یوں بہت بڑی تعداد میں روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ پاکستان کوپائیدار ترقی کی راہ پر ڈالنے کیلئے چین کی یہ حکمت عملی چند برسوں کے اندربے شک نہایت شاندار نتائج کا سبب بن سکتی ہے لیکن اب درپیش مالی بحران پر فوری طور پر قابو پانے کیلئے پاکستانی قوم کے سامنے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کا شکنجہ قبول کرنے کے سوا بظاہر کوئی راستہ کھلا نہیں رہ گیا ہے۔