جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے میں کیا کیا رکاوٹیں ہیں؟

December 06, 2018

جنوبی پنجاب کے لوگوں کا حکومت پر سے اعتبار اٹھتا جا رہا ہے کیونکہ علیحدہ صوبہ بنانے کے حوالے سے تحریک انصاف کی وفاقی و صوبائی حکومتیں اپنے پینترے بدل رہی ہیں کہ اب علیحدہ صوبہ ایک ایسا خواب نظر اتا ہے جس کی تعبیر بھی موجود نہیں ہے۔ اس وعدے کے تابوت میں آخری کیل صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پشاورمیں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس وقت ٹھونکی جب ان سے علیحدہ صوبوں کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا جنوبی پنجاب کا صوبہ کا قیام آسان نہیں ہے حالانکہ غالباً کہنا وہ چاہتے تھے کہ جنوبی پنجاب صوبہ کا قیام ممکن نہیں ہے۔ اب ملک کے سب سے بڑے آئینی منصب پر فائز کوئی شخصیت جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کو ناممکن سمجھتی ہے تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کام ہونے کے مصداق ہے جسے سیاسی طور پر تحریک انصاف نے انتخابات میں اپنی کامیابی کیلئے استعمال کیا اور جب عمل کا وقت آیا تو اسے یہ احساس ہوا کہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے اور نہ ہی یہ بیل اتنی آسانی منڈھے چڑھ سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو باتیں تحریک انصاف کے قائدین کو اب سمجھ آر ہی ہیں کیا انہیں اس وقت اس کاعلم نہیں تھا جب وہ دھواں دار طریقے سے جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کی باتیں کر رہے تھے اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان الیکشن مہم کے دوران یقین دلا رہے تھے کہ علیحدہ صوبہ صرف تحریک انصاف بناسکتی ہے اس لئے اسے کامیاب کرایا جائے لیکن آج 100 دن تو کیا اگلے سو ہفتوں میں بھی ایسی کوئی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آ رہی جسے کہا جاسکے کہ حکومت علیحدہ صوبہ کیلئے سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی جو ملتان آکر ہمیشہ علیحدہ صوبہ کے حوالے سے کوئی طفل و تسلی دے جاتے ہیں اس بار انہوں نے یہ تسلی دی ہے کہ جلد ہی شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری سے علیحدہ صوبہ کے معاملہ پر بات کی جائے گی اور کوئی مشترکہ لائحہ عمل بنایا جائے گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ شہباز شریف نیب کی حراست میں ہیں۔ انہیں جب اسمبلی اجلاس میں پیرول پر لایا جاتاہے تو وہ اس پوزیشن میں نہیں ہوتے کہ ایسے معاملات پر گفت و شنید کرسکیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری جب خود پیشکش کر رہے تھے کہ حکومت علیحدہ صوبہ کے حوالے سے پیپلزپارٹی کو ساتھ لے کر چلے ہم تعاون کرنے کیلئے تیار ہیں تو اس وقت تحریک انصاف کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں دیا گیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحریک انصاف اس معاملے کو صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے استعمال کر رہی ہے اور اس کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ علیحدہ صوبہ کیلئے عملی کوششیں کی جائیں۔ علیحدہ صوبہ تو رہا ایک طرف لگتا ہے کہ علیحدہ سیکرٹریٹ کی بات بھی اب کھٹائی میں پڑ چکی ہے۔ لاہور میں عمران خان نے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ جنوبی پنجاب میں علیحدہ سیکرٹریٹ آئندہ جون تک قائم کردیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس حوالے سے بھی حکومت کسی جلد بازی میں نہیں ہے اور معاملہ کو لٹکانا چاہتی ہے کیونکہ علیحدہ سیکرٹریٹ قائم کرنے کی راہ میں بھی بہت سی الجھنیں اور رکاوٹیں ہیں۔ خود بیوروکریسی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ ملتان کے انتظامی سیکرٹریٹ پر وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی گرفت کس حد تک برقرار رہے گی اور تحریک انصاف کے مقامی اراکین اسمبلی ، تنظیمیں ، عہدیدار اس سیکرٹریٹ کے قیام کے بعد جو مداخلت کریں گے اس کا تحریک انصاف کی سیاست پر کیا اثر پڑے گا۔ لگتا یہی ہے کہ رفتہ رفتہ تحریک انصاف اس وعدے سے بھی راہ فرار اختیار کرے گی اور کچھ بڑے ترقیاتی منصوبے دے کر جنوبی پنجاب کے عوام کو یہ احساس دلایا جائے گا کہ اب تخت لاہور بھی جنوبی پنجاب کے عوام کی محرومیوں کو دور کرنے کیلئے سرگرم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس ساری صورتحال سے جنوبی پنجاب میں اضطراب پیدا ہو رہا ہے۔ نہ صرف پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن بلکہ سرائیکی قوم پرست جماعتیں بھی اس حوالے سے حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے کا پروگرام بنا رہی ہیں۔ ان لوگوں نے تو ابھی سے یہ کہنا شروع کردیاہے کہ عمران خان کا سب سے بڑا یو ٹرن جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کے وعدے سے مکرنا ہوگا جس کے لئے گرائونڈ تیار کی جا رہی ہے حالانکہ کوئی سیاسی جماعت بھی ایسی نہیں ہے جو جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کی مخالفت کرتی ہو۔ سوال تو یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کو اگر دوسری جماعتوں سے اور معاملہ پر تعاون نہ ملنے کا خدشہ ہے تو اس نے اسے اسمبلی کے فلور پر کیو ںنہیں اٹھایا اور کیوں یہ قرارداد پیش نہیں کی کہ جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو آئین میں ترمیم کیلئے کردار ادا کرنا چاہئے۔

ملتان کے دورے میں امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے پہلی بار انتخابات میں جماعت اسلامی کی شکست کی وجہ اداروں کی مداخلت کو قرار دیا۔ یہ حیران کن بات انہوں نے اس وقت کی جب وہ روزنامہ جنگ ملتان کے دفتر آئے اور ان سے یہ سوال کیا گیا کہ اس بار جماعت اسلامی کو پورے پاکستان میں بمشکل صرف دو سیٹیں حاصل ہوسکیں حالانکہ جماعت اسلامی متحدہ مجلس عمل کے اتحاد میں شامل تھی۔ گویا اس کے امیدواروں کو دیگر دینی جماعتوں کی سپورٹ بھی حاصل تھی مگر اس کے باوجود نتائج یہ نکلے۔ اس پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق تھوڑا جزیز ہوئے اس کے بعد انہوں نے واضح طور پر کہا کہ بعض قوتیں نہیں چاہتی تھیں کہ جماعت اسلامی اس بار انتخابات میں زیادہ کامیابی حاصل کرے۔ ایوب خان دور کے بعد پہلی بار انتخابات میں اتنی زیادہ مداخلت دیکھنے میں آئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا تاریخی تناظر میں امیر جماعت اسلامی کے اس بیان کی تائید کی جاسکتی ہے۔ کیا کبھی ایسا ہوا کہ جماعت اسلامی اور اداروں کے درمیان اتنے فاصلے پیدا ہوگئے ہوں بلکہ الٹا یہ الزام لگتا ہے کہ جماعت اسلامی نے ہر آمر کا سا تھ دیا۔ اس کی کابینہ میں شامل ہوئی۔ یوں لگتا ہے کہ امیر جماعت ا سلامی حالیہ انتخابات میں شکست کا دفاع کرنے کیلئے چونکہ کوئی مضبوط دلیل و جواز نہیں رکھتے اس لئے انہوں نے اس شکست کے سوال پر سارا ملبہ اداروں پر ڈالنے کی کوشش کی۔ وہ یہ بیانیہ ہے جو مولانا فضل الرحمن سے بھی دو قدم آگے کی چیز ہے۔ مولانا فضل الرحمن بھی انتخابات میں عمران خان کو جتوانے کیلئے اداروں کے کردار کی بات کرتے ہیں۔ بادی النظر میں یہ دلیل بہت کمزور نظر آتی ہے۔