پاکستان کرپشن کی وجہ سے ٹوٹا،صدر عارف علوی،کرپشن پر سزائے موت ہو تو آبادی کم ہوجائیگی،چیئرمین نیب

December 10, 2018

اسلام آباد (نمائندہ جنگ، مانیٹرنگ سیل، صباح نیوز) صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی کاکہنا ہے کہ مشرقی پاکستان کرپشن کی وجہ سے ٹوٹا تھا، اربوں ڈالر چوری کر کےملک سے باہر بھیجے گئے اور دو چار ارب کیلئے بھیک مانگتے پھرتے ہیں،خوف خدا ہو تو قانون اور عدالت کی ضرورت ہی نہ ر ہے، کرپشن کم کرسکتے ہیں مگر اس پر مکمل قابوپانا مشکل ہے، پاکستان سے کرپشن کا لیکج بند کرنا ہوگا اور بدعنوان عناصر کے اثاثوں کے حوالے سے پوچھا جانا چاہیے۔ چیئرمین قومی احتساب بیورو جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ کرپشن پر سزائے موت ہو تو آبادی کم ہو جائے گی، 95 ؍ارب کہاں خرچ ہوئے یہ پوچھنا کون سی گستاخی ہوگئی، ڈکٹیشن لینگے نہ انتقام، جنکے پاس پہلے موٹر سائیکل تھی اب دبئی میں ٹاور ہیں، نیب نے پوچھ لیا تو کون سا جرم کیا، جو کریگا وہ بھگتے گا، یہ غیر اہم ہے کہ وہ وزیراعظم تھے یا وزیر اعلیٰ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نےاتوار کو انسداد بدعنوانی کے عالمی دن کے موقع پر ایوان صدر میں منعقدہ نیب کے زیر اہتمام تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بدعنوانی ہے، میرے نزدیک بدعنوانی پوری انسانیت پر حملہ ہے، کوئی معاشرہ بدعنوانی سے پاک ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔صدر مملکت نے کہا کہ قانون پر عمل نہ ہونے سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوئے تاہم نئے پاکستان کے خواب کی تعبیر کیلئے پر امید ہیں۔ عارف علوی نے کہا کہ مجھے اسپتال میں کرپشن روکنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، آنے والی نسلوں کیلئے بدعنوانی سے پاک معاشرے کا ایجنڈا اہم ہے، طویل عرصہ تک لوگوں میں کرپشن کے حوالے سے حساسیت پیدانہیں ہورہی تھی، مجھے خوشی ہے کہ کرپشن کے خاتمے کی طویل جدوجہد میں میرا بھی ایک کرداررہا ہے۔ عارف علوی نے کہاکہ حکومت اورحکمران کوسچا اورامانت دارہونا چاہیے، اگر قانون ہوں اوراس پرعملدرآمد نہ ہو تو اس قانون کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑے کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین قومی احتساب بیورو جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ کرپشن کی سزا موت ہو گئی تو آبادی کم ہو جائیگی، ارباب اختیار کو احساس دلانے میں کامیاب ہوگیا کہ جو کرپشن کریگا وہ بھرے گا، بیورو کریسی شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار نہ بنے،نیب ڈکٹیشن لے گا نہ انتقامی کارروائی کریگا، حکمرانوں کو بتا دیا ہے کرپشن کرنے والے ہر شخص کو حساب دینا ہو گا، حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، کسی بھی حکومت کو یہ احساس نہیں ہونا چاہیے کہ نیب ہماری طرف کیوں دیکھ رہا ہے۔95ارب ڈالرکہاں خرچ ہوئےیہ پوچھنا کونسی گستاخی ہو گئی ، گزشتہ 30 یا35 سال جو لوگ صاحب اقتدار رہے وہ شایداس بات کو فراموش کر گئے ہیں کہ یہ عہد مغلیہ نہیں ہے ،عام آدمی کو بھی پوچھنے کا حق ہے، ادارے کی وفاداری صرف ریاست کے ساتھ ہے ۔ چیئرمین قومی احتساب بیورو نے کہا کہ موجودہ حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے مکمل تعاون کیا اور انہوں نے یہ نہیں کہا کہ نیب کے دانت نکال دیئے جائیں، نیب کے ناخن تراش دیئے جائیں اور نیب کی حجامت کر دی جائے اور پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ انہوں نے نیب کو خود مختار ادارہ تصور کیا اور اسکی حاکمیت اور خود مختاری کو اور اسکے آزادانہ طریقہ کار کے راستہ میں کسی قسم کی اس وقت تک مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی،میں نے روز اول سے یہ بات طے کر دی تھی اور ارباب اختیار کو سمجھانے کی کوشش بھی کی تھی کہ نیب ڈکٹیشن نہیں لے گا ،اگر آپ کے سیاسی اختلافات ہیں تو باہر بہت سے فورم موجود ہیں آپ اپنے اختلافات وہاں جا کر حل کریں،کسی قسم کی سیاسی سرگرمی میں نہ نیب کا کبھی حصہ تھا اور نہ نیب کا کبھی حصہ ہو گا،میں نے کئی مواقع پر یہ وضاحت کی ہے کہ نیب کا کسی گروپ سے، کسی گروہ سے ، کسی سیاسی جماعت سے ، کسی سیاست سے اور کسی فرد سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے،حکومت اور ریاست میں بنیادی فرق ہے جو سب کو ذہن نشین کرنا چاہیے ،حکومتوں نے آئین کے تحت آنا ہے اور آئین کو تحت انہیں جانا ہے اسلئے کسی حکومت وقت کو یہ احساس ناگواری نہیں ہونا چاہیے کہ نیب میں تابعداری کا جزوذرا کم ہے یا یہ حکومت وقت کی طرف بھی کیوں دیکھ رہا ہے،اگر آپ گذ شتہ ادوار کی کرپشن کو دیکھ سکتے ہیں تو آپ پر کوئی آئینی یا قانونی قدغن نہیں ہے کہ آپ حکومت وقت کی کسی کرپشن کو نہیں دیکھ سکتے یا اسکو نظر انداز کرنے کو ئی جواز آپکے پاس ہے، جب بھی کسی سے پوچھا ہے یہ گذارش سامنے رکھ کر پوچھا ہے کہ کسی کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچے لیکن اس میں اتنا حساس بھی نہیں ہونا چاہیے کہ اگر آپ سے ایک بات پوچھی گئی ہے تو جواب دینا آپکے فرائض میں شامل ہے اور پوچھا بھی صرف اس وقت ہے جب دیکھا ہے کہ پانچ لاکھ کی جگہ50 لاکھ روپے خرچ ہوئے اور 50 لاکھ کی جگہ 50 کروڑ روپے خرچ ہوئے اور 50 کروڑ کی جگہ اربوں میں خرچ ہوا جس کا نہ تو کوئی جواز تھا اور نہ وجوہات تھیں کہ وہ مطمئن کر سکیں کہ ہم نے ایسا کیوں کیا۔ سوائے اسکے کہ ہم اس عہدے پر متمکن تھے اور ہم یہ کر سکتے تھے ،یہ غریب عوام کا پیسہ ہے، آپ کسی وقت بلبلاتے اور غریب لوگوں کو دیکھیں انکی زندگی، رہن سہن کے طریقوں کو دیکھیں اور ان لوگوں کو دیکھیں جنکے پاس پہلے موٹرسائیکل تھی اب دبئی میں ٹاور ہیں،نیب نے پوچھ لیا تو کونسا جرم کیا، اگر انکے خیال میں یہ جرم ہے تو پھر یہ جرم تو ہوتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ نیب کیخلاف جارہانہ اور مذموم پراپیگنڈا شروع کر دیا گیا تا کہ لوگوں میں مایوسی پھیلے لیکن جو عناصر اس میں مصروف ہوں میں صرف انہیں اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی عوام اتنی معصوم اور سادہ لوح نہیں ہے کہ وہ اب اچھے اور برے میں تمیز نہ کر سکیں۔ انہیں پتہ ہے اجالا کیا ہے ، اندھیرا کیا ہے، تیرگی کیا ہے، کون اجالا دور کر رہا ہے اور کون اندھیرے پھیلا رہا ہے،کون مایوسیوں کی گھٹائیں برسا رہا ہے اب ایسا نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ کہا گیا جاوید اقبال کے آنے کے بعد بیوروکریسی بڑی پریشان ہے، میں نے بیوروکریسی کو کئی دفعہ یقین دلایا ہے اور آج دوبارہ یقین دلاتا ہوں میں خود بیوروکریٹ رہا ہوں، نظام حکومت میں بیوروکریسی کا کردار اہم ترین کردار ہے، بیوروکریسی ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن اگر ریڑھ کی ہڈی میں تکلیف ہو جائے تو تھراپی تو کرنی پڑتی ہے ، میری صرف ایک استدعا ہے کہ ہم شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نہ بنیں۔