کسان 70 فیصد ہیں، انہیں گنے کا معاوضہ ضرور دلایا جائے

December 13, 2018

تجمل گرمانی، لاہور

پنجاب میںگنے کی خرید میںبے جا تاخیر سے کاشتکا ر تباہی کا شکار ہو گئے ہیں، گنے کی ایک سال تک دیکھ بھال کے بعد اس کے فروخت کا وقت شروع ہو ا تو شوگر مل مالکان نے شور ڈال دیا کہ گنے کی امدادی قیمت زیادہ ہے ، حکومت نےچینی کی قیمتوں میںاضافہ ، بقایا جات کی ادائیگی ، سبسڈی اور چینی کی برآمد کی اجازت نہ دی تو ملیں نہیںچلیں گے ، لاہو ر میںکسا ن تنظیموںنے شد ید احتجاج کیا ، مختلف شہروں میںگنے کی فصل کو جلا یا گیا ،صوبائی اسمبلی اجلاس میں سرکاری اور اپوزیشن ارکان نے شور شرابا کیا جس کے بعد وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار نے شوگر مل مالکان سے مزاکرات کئے اور ان کے مطالبات کو تسلیم کر لیا گیا۔ کسانوںکا کہنا ہے کہ مالکان کے مطالبات تسلیم لیکن انکے مطالبات کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا ، شوگر ملیں نہ تو گنےکی امدادی قیمتیں ادا کرنے پر تیار ہیں اور نہ ہی گنے کی خریداری کا عمل شروع ہوا تاہم نوید ہے کہ 15دسمبر تک ملیں کھلنے کے بعد گنے کی خریداری شروع ہو جائے گی ۔

پنجاب میںگنے کے کاشتکاروں کے مسائل میں سرفہرست امدادی قیمت ہے ، پیپلزپارٹی حکومت نے چھ برس قبل گنے کی امدادی قیمت 150روپے سے بڑھا کر 180کر دی جس کے بعد مسلم لیگ ن پانچ سال برسر اقتدار رہنے کے باوجودگنے کی امدادی قیمت میںاضافہ نہ کر سکی ، تحریک انصاف کی موجود ہ حکومت نے بھی گنے کی امدادی قیمت کو برقرار رکھا ہے اور رواں سال گنا 180روپے من خرید ہو گا ۔ گنے کی فصل اکتوبر میں تیار ہو تی اور شوگر ملیں 15نومبر کو گنے کی خرید شروع کر تی ہیں لیکن رواں سال دسمبر کے وسط تک ملیں چلیں گی جس سے کاشتکار کو دوہر ا نقصان ہوا ، ایک تو گنے کی بروقت خریداری نہ ہونے سے گنا کھیتوں میںخشک ہو گیا جبکہ دوسرا بڑا نقصان یہ ہوا کہ جن کاشتکاروں نے گنے کے کھیتو ںمیںگزشتہ ماہ نومبر میںگندم کی فصل کاشت کر نی تھی وہ فصل کی کاشت سے محروم ہو گئے ۔ پنجاب میں کاشتکار گنے کی فصل کے لئے سال بھر بیج، کھاد، ڈیزل سمیت دیگر اخراجات قرض لے کر پورے کر تے ہیںلیکن جب فصل کی فروخت کا وقت ہو اتو ملیںبند ہیں ۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 47شوگر ملیںہیںجن میں43چالو ہیں، مل مالکان نے کرشنگ سیزن 2017-18کے دوران 27ارب روپے کی ادائیگی کرنی تھی ، مل مالکان سیا سی لحاظ سے بہت طاقتور مافیا ہے اور اس وقت پنجاب میں سب سے زیادہ ملیں مسلم لیگ ن ، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی سے وابستہ سیاستدانوں کی ملکیت ہیںلہذا ان کے اثر و رسوخ کے سامنے حکومت بھی بے بس ہو تی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کاشتکاروںکی ادائیگیاں کلئیر نہیںہوئیں بلکہ گنے کی خرید میںتاخیر اور امدادی قیمتوں کا مسئلہ تاحال برقرار ہے ۔ گنے کی خرید میں تاخیر سے شوگر ملوں میںکام کرنے والے ہزاروںعارضی ملازمین بھی آٹھ مہینوںسے گھروں میں بے روزگار ہیں جبکہ گنے کی کٹائی کرنے والے مزدور اور کھیت سے ملوںتک گنے لے جانے والے ٹرانسپورٹرز بھی بے کارہیں ، مالکان نے 15دسمبر تک ملوں کو چالو کرنے کا عندیہ دیا ہے تاہم گنے کی پوری قیمت نہ دینے کے متعلق ابھی تک بضد ہیں۔ گزشتہ سال بھی مالکان نے گنا خرید کر گنے کی خریدار ی رسید (سی پی آر) پر قیمت 180روپے من لکھی تھی لیکن ووچر 140روپے من دئیے گئے اور اسی کے مطابق ادائیگیاں ہو ئی تھیں، کاشتکاروں سے مزید ظلم کیا کہ ناقص گنے کا اعتراض لگا کر 20فیصد کٹوتیاں کی گئیں، پنجاب میں گزشتہ سال 2اعشاریہ 12ملین ایکڑ رقبے پر گنا کاشت ہوا لیکن مل مالکان کے ظلم و ستم کے باعث رواں سال گنے کی فصل کم رقبے پر کاشت ہوئی جبکہ خشک سالی، ڈیزل اور کھاد کی قیمتوں میں اضافے اور نہری پانی کی بندش سے گنے کی اوسط پیدا وار ایک ہزار من فی ایکڑ سے کم ہو کر 700من فی ایکڑ ہوگئی ، مل مالکان قیمتوںکے معاملے میںاپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے تو گنا کی کاشتکاروںکے لئے اخراجات پورے کرنے مشکل ہو جائیں گے لہذا حکومت کا فرض ہے کہ ملو ں کو فوری طور پر چالو کرے اور گنے کی طے شدہ قیمتوں کو یقینی بنایا جائے۔ فارمرز ایسو سی ایشن پاکستان کی ڈائریکٹر رابعہ سلطان کہتی ہیں کہ گنے کا موجودہ بحران گزشتہ حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس کا خمیازہ کسان بھگت رہے ہیں، شہباز شریف نے 180روپے من گنے کی خرید کا اعلان کیا لیکن ان کی اپنی ملیں120روپے من گنا کی ادائیگی کر تی رہیں، محکمہ زراعت پنجاب کے مطابق رواں سال گنے کی کاشت کے پیدا وا ری اخرا جات 194روپے من ہیں ، 180روپے من کا مطلب ہے کہ کسان پہلے ہی 14روپے نقصان پر گنا بیچ رہا ہے ، اوپر سے ملیںنہیں چل رہیں اور مقررہ قیمتوںکی ادائیگی بھی نہ ہوئی تو کسان گنا کاشت کرنا چھوڑ دیںگے ، قیام پاکستان کے وقت ایک شوگر مل تھی اور آج ملک میں 84شوگر ملیںہیں، ملیں خسارے میں ہیں تو ان کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے ، کسان گنے کی کاشت چھوڑ گئے تو ملوں کا کاروبار کیسے چلے گا، مل مالکان گنے سے چھ مصنوعات تیار کر تے ہیںلیکن قیمت ادا کر تے ہوئے صرف چینی کی قیمت ظاہر کر تے ہیں، وزیر اعلیٰعثمان بزدار کاشتکار خاندان سے تعلق رکھتے ہیںانھیں کسانوںکی امداد کرنی چاہئے اور گنے کی پوری قیمت ادا نہ کرنے والی ملوں کے خلاف شوگر فیکٹری کنٹرول ایکٹ کے تحت کارروائی کرنی چاہئے ، جہانگیر ترین کی مل 180روپے من قیمت دے سکتی ہے تو باقی ملوں کو کیا مسئلہ ہے ۔ میاںوحید چودھری دو شوگر ملوںکے مالک اور پاکستان شوگر مل ایسو سی ایشن کے ترجما ن ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ گنے کی قیمت بڑا مسئلہ ہے ، حکومت گنے کی قیمت مقرر کر تی ہے تو چینی کی قیمت بھی مقرر کرنی چاہئے ورنہ شوگر ملوںکو نقصان اٹھا ن ہو گا، چینی کی قیمت 52روپے کلو ہے اور اس حساب سے گنے کی قیمت خرید 140روپے بنتی ہے ، گنے کی قیمت کم نہ ہوئی تو ملیں نہیں چل سکیں گی ، سندھ میںملیںچند دن چلنے کے بعد بند ہو گئیںپنجاب میں بھی بند ہو جائیںگی ، شوگر ملوں کے بوائلر چل چکے ہیں اور 15دسمبر تک تمام شوگر ملیں چالو ہو جائیںگی ۔ حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ چینی پر 6.60روپے کلو ایکسپورٹ سبسڈی دے گی حکو مت کے ذمہ ملوںکے 16ارب روپے کے بقایا جات ہیں، سندھ اور پنجاب حکومت نے سبسڈی مد میں 13.6 ارب روپے 31دسمبر اور ٹریڈڈویلپمنٹ اتھارٹی نے 3.6ارب روپے بقایا جات فروری میں ادا کرنے کے وعدے کئے ہیں جس کے بعد ملیں چالو کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیر خوراک پنجاب سمیع اللہ چودھری نے کہا ہے کہ شوگر مل مالکان کے جائز مطالبات مان لئے ہیں اور رواں ہفتے شوگر ملیں گنے کی کرشنگ شروع کر دیں گی ، گنے کی قیمت 180روپے من یقینی بنائیں گے، معاملات طے کرنے میں وزیر اعظم عمران خان، جہانگیر ترین اور وزیر اعلی عثمان بزدار نے کلیدی کردار ادا کیا۔ سمیع اللہ چودھری نے کہا کہ مل مالکان کو گنے کی کٹوتی اور ادائیگیوں میں تاخیر کی اجازت نہیں دیں گے اور اس مقصد کے لئے محکمہ خوراک متحرک کردار ادا کرے گا،مل مالکان کو گنے کے کسانوںکا استحصال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ،گزشتہ سال گنے کے کسانوں کوبقایا جات کی مد میں بیشتر رقم ادا کر دی گئی صرف ڈیڑھ ارب روپے کی ادائیگیاں باقی ہیں، جن کسانوں کو ابھی تک ادائیگیاں نہیں ہوئیں، ملوں میں موجود چینی کا سٹاک بیچ کر کسانوں کو ادائیگیاں کی جائیں گی۔