’تین مرتبہ موت کے منہ سے بچ کر اسپتال پہنچا‘

December 16, 2018

پشاور میں آرمی پبلک سکول میں شدت پسندوں کے حملے میں تین مرتبہ بچ کر اسپتال پہنچنے والے احمد نواز نے پہلے کبھی اسٹیج پر تقریر نہیں کی تھی مگر اب ان کا شمار ان بہترین مقررین میں ہوتا ہے جو نوجوان طالب علموں کو انتہا پسندی سے بچنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق احمد نواز کو اعزاز حاصل ہے کہ وہ برطانیہ کے انسداد دہشت گردی یونٹ کے 11 سے 16 سال کے نوجوانوں کو انتہا پسندی سے بچانے کی مہم ’ایکشن کاؤنٹر ٹیرر ازم‘ میں سرکاری طور پر ان کی مدد کر رہے ہیں۔ ان کو لندن کی ایڈوائزری بورڈ آف نیشنل ٹیررازم کونسل کا رکن نامزد کیا گیا ہے۔

احمد نواز نے ایک بار تقریر کرتے ہوئے 16 دسمبر کی اس بد قسمت صبح کا احوال بتایا کہ اسکول میں تقریباً تین پریڈ کے بعد ہمیں کہا گیا کہ ہم سب مین آیٹوریم میں پہنچ جائیں جہاں پرابتدائی طبی امداد کے حوالے سے لیکچر ہوگا۔

’ہم سب طالب علم آیٹوریم میں پہنچ گے جہاں پر میں نے اپنے ایک ساتھی طالب علم سے وقت پوچھا تو میرا خیال ہے کہ اس نے بتایا کہ دس بج کر 30 منٹ ہوئے ہیں۔ ابھی اس نے یہ بات کی ہی تھی کہ پچھلے دروازے سے گولیاں چلنے کی آواز آئی تو میرا پہلا تاثر یہ تھا کہ یہ چند دن پہلے ہونے والی ڈرل کا حصہ ہے جس میں ہمیں سکھایا گیا تھا کہ اگر کوئی دہشت گردی کا واقعہ پیش آئے تو کس طرح اپنی حفاظت کرنی ہے۔

’اسی ڈرل کو بروئے کار لاتے ہوئے میں یک دم ہی اپنی کرسی کے نیچے لیٹ گیا۔ فائرنگ ختم نہیں ہوئی بلکہ میرے قریب ترین پہنچ گئی تھی۔ اسی اثنا میں دیکھا کہ ایک دہشت گرد میرے پاس بیٹھے ہوئے طالب علم کے سر پر گولی مار کر میری طرف مڑرہا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ اب میری باری ہے۔ دہشت گرد نے بالکل قریب سے فائر کیا تو جو میرے دائیں بازو پر لگا اور بازو صرف ایک گوشت کے لوتھڑے سے جڑا رہا گیا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حملہ آور اسی طرح فائرنگ کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا تو میں اپنے زخمی بازو کو سنبھالتے ہوئے سٹیج کی جانب لپکا جہاں پر پر سکول استاد افشاں احمد موجود تھیں۔ افشاں احمد اپنے ہمراہ کچھ بچوں کو لے کر اسٹیج کے قریب بنے ہوئے چھوٹے کمرے میں داخل ہوئیں تو میں بھی پیچھے لپکا مگر چند ہی لمحوں میں دیکھا کہ افشاں احمد کو آگ لگی ہوئی تھی جس پر میں سٹیج کے ایک کونے میں لیٹ گیا۔

انھوں نے مزید بتایا کہ چند منٹ میں کچھ ایسی آوازیں سنی جس سے پتا چلا کہ سیکورٹی فورسز پہنچ گئی ہیں۔ ’میں مکمل طور پرنڈھال تھا، خون بہہ رہا تھا پوری طاقت جمع کرکے مدد کی آواز لگائی۔چند لمحوں ہی کے اندر ہی کسی اہلکار کے کندھوں پر تھا۔ آڈیٹوریم سے باہر پہنچے تھے کہ واضح طورپر مجھے پتا چلا کہ ہم پر فائرنگ ہوئی ہے مگر محفوظ رہی اور تھوڑی دیر کے اندر میں ایمبولینس میں تھا۔ 16 دسمبر کے روز میں سکول میں تین مرتبہ موت کے منہ سے بال بال بچ کر ہسپتال پہنچا تھا۔‘

احمد نواز کا بتایا تھا کہ ہسپتال میں بے انتہا رش تھا عوام کا سمندر ہمیں تسلیاں دے رہا تھا۔ وہاں پر موجود ایک شخص سے فون لے کر اپنے والد کو کال کی اور پھر جب ہوش آیا تو ان کے والدین اور دیگر عزیز و اقارب ان کے قریب موجود تھے۔ ’15 روز تک مجھے چھوٹے بھائی حارث کی شہادت کا نہیں بتایا گیا تھا مگر جب فیس بک دیکھی تو پتا چلا کہ حارث تو اس دنیا میں موجود ہی نہیں ہے جس پر میں پھوٹ پھوٹ کر رو دیا تھا۔‘