پاکستان میں ہر تیسرا فرد کسی نہ کسی ذہنی و نفسیاتی عارضے کا شکار ہے، ڈاکٹر محمد اقبال آفریدی

December 23, 2018

انٹرویو: نرجس ملک…

رپورٹ: عالیہ کاشف عظیمی

عکاسی: اسرائیل انصاری

پروفیسرڈاکٹر محمّد اقبال آفریدی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ پاکستان میں ذہنی و نفسیاتی عوارض سے متعلق بیداریٔ شعور و آگاہی میں ان کا حصّہ بہت زیادہ ہے۔ دُنیا بَھر میں اپنے نام اور کام سے جانے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر آفریدی نے پشاورسے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی، پھر کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز آف پاکستان سے ایم سی پی ایس اور کراچی سے نفسیات(Psychiatry) کے شعبےمیں ایف سی پی ایس کیا۔ان کے پاس 31 سالہ کلینیکل، تدریس اور تحقیق کا تجربہ ہے۔پاکستان کے مختلف اسپتالوں میں بہترین خدمات انجام دینے کے بعد ان دِنوں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر، کراچی کے شعبۂ طبِ نفسیات اور علوم رویّہ جات سے بطور سربراہ اورڈین وابستہ ہیں۔ علاوہ ازیں، جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی، سائیکائٹری اینڈ بی ہیوئیرل سائنس فیکلٹی کے چیئرمین اور فیکلٹی آف میڈیسن کے ڈین بھی ہیں۔ نیز، ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز،کراچی سے اعزازی پروفیسر کے طور پر بھی منسلک ہیں۔

ڈاکٹرمحمّد اقبال آفریدی، رائل کالج آف فزیشنز (آئر لینڈ)، امریکی سائیکاٹری ایسوسی ایشن، امریکی کالج آف فزیشنز اور رائل سوسائٹی آف میڈیسن (لندن) کے فیلو ہونے کے ساتھ یورپئین سائیکائٹرک ایسوسی ایشن، رائل سوسائٹی آف ہیلتھ (لندن)، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور پاکستان سائیکائٹرک سوسائٹی کےرکن ہیں،تو پاکستان سائیکائٹرک سوسائٹی اور سائیکائٹرک پیشنٹس ویلفئیر سوسائٹی آف پاکستان کے صدر کی حیثیت سے بھی کام کر رہے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کے تربیت یافتہ سیکڑوں سائکاٹرسٹس نہ صرف پاکستان بلکہ امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور آئر لینڈ تک میںخدمات انجام دے رہے ہیں ۔اب تک ان کے لگ بھگ90تحقیقی مقالاجات شایع ہوچُکے ہیں۔ کئی کتب کے مصنّف ہیں۔نیز،تدریسی اور تربیتی خدمات کے ساتھ ساتھ متعدد بین الاقوامی کانفرنسز کا بھی انعقاد کرواچُکے ہیں ،جن میں جناح اسپتال کی گولڈن جوبلی اور 53 ویں سالانہ سیمپوزیم کا انعقاد بھی شامل ہے،جب کہ اسپتال کے ماحول کو سرسبز و شاداب رکھنے کے لیے چھے سو سے زائد پودے اور اندونِ سندھ تقریباً بارہ سو درخت بھی لگاچُکے ہیں۔برطانوی براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) اور وائس آف امریکا (VOA) کے پروگرامز میں شرکت کا شرف حاصل ہے، جب کہ ان کی قابلِ قدر خدمات پر مختلف تنظیموں اور اداروں کی جانب سے کئی ایوارڈز سے بھی نوازا جا چُکا ہے۔ حال ہی میں انھیں رائل سوسائٹی آف میڈیسن، برطانیہ کی جانب سے’’برین ٹرسٹ گولڈ میڈل 2018ء‘‘ دیا گیا ہے۔

گزشتہ دِنوں ڈاکٹر صاحب سے ایک نشست میں پاکستان میں ذہنی و نفسیاتی امراض کی وجوہ، تشخیص و علاج اور شعور و آگہی عام کرنے کے ضمن میں خاصی تفصیلی بات چیت ہوئی، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

س:سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ ایک سائیکاٹریسٹ اور سائیکولوجسٹ میں کیا فرق ہے کہ ہمارے یہاں تو کافی لوگوں کو اب تک ان دونوں شعبوں کا فرق ہی نہیں معلوم؟

ج:سائیکاٹریسٹ کا مطلب ہے، ماہرِامراضِ ذہن یاماہرِ طبِ نفسیات۔اور اس کے لیے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ذہنی امراض کے علاج کے لیے دو سے چار سال یا پھر کم از کم ایک سال کی ٹریننگ مکمل کرنا ضروری ہے۔ جب کہ سائیکولوجسٹ کا مطلب ہے، ماہرِ نفسیات ۔اور یہ ماہرینِ نفسیات طب سے وابستہ افراد نہیں ہوتے۔ یعنی یہ لوگ طب کی ڈگری حاصل نہیں کرتے، بلکہ شعبۂ نفسیات میں ماسٹرز کرتے ہیں۔ سائیکولوجسٹس ادویہ تجویز کرنے کے مجاز نہیں۔ تاہم، مرض کی تشخیص اور علاج معالجے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ مثلاً مختلف ٹیسٹس کے ذریعے مریض کی شخصیت یا ذہانت کا پیمانہ جانچنا، سائیکوتھراپی اور کائونسلنگ کرنا وغیرہ۔ ماضی کی نسبت اب شعبۂ نفسیات خاصی وسعت اختیار کرگیا ہے اور سائنس ہی کا ایک حصّہ کہلاتا ہے۔جب کہ اس کے مزید بھی کئی حصّے ہیں۔ مثلاً چائلڈ سائیکالوجی، جریاٹرک(Geriatric)،فرانزک سائیکالوجی(Forensic Psychology) اور ایڈکشن (Addiction) سائیکالوجی وغیرہ۔ ہمارے مُلک میں چائلڈسائیکالوجی کی سہولت دستیاب ہے، جب کہ فرانزک اورایڈکشنالوجی( (Addictionology پر کام جاری ہے۔

س:ایک مکمل صحت مند شخص کی کیا تعریف ہو گی، جسمانی امراض کے لیے تو جس عضو میں تکلیف ہے، اس کے ماہر کے پاس علاج کے لیے چلے گئے، نفسیاتی و ذہنی امراض کی شناخت کیسے ہو ،ایک شخص کو کیسے یقین ہوگا کہ وہ کسی ذہنی یا نفسیاتی مرض کا شکار ہے؟

ج:اس ضمن میں عالمی ادارۂ صحت کی ایک مجوّزہ تعریف ہے کہ’’صحت محض کسی بیماری کی عدم موجودگی کا نام نہیں، بلکہ یہ جسمانی، نفسیاتی اور سماجی آسودگی وخوش حالی کا نام ہے۔‘‘ مگر طبّی اعتبار سے یہ تعریف نامکمل تصوّر کی گئی۔ پھر ورلڈ فیڈریشن فارمینٹل ہیلتھ نے اس کی جامع تشریح کی، جس کے مطابق ’’ذہنی صحت ایک ایسی کیفیت کا نام ہے، جس میں انسان اپنی صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ کرسکے۔‘‘اس تعریف کی رُو سے ذہنی صحت کو چار حصّوں میں تقسیم کیا گیا۔یعنی مذکورہ فرد کو اپنی خُوبیوں، خامیوں کا علم ہو اور وہ یہ فہم بھی رکھتا ہو کہ مَیں کس طرح اپنی خامیاں ختم کرکے، خوبیاں اُجاگر کرسکتا ہوں۔ دوم،اُس میں روزمرّہ کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت ہو۔ سوم،وہ ایسے مثبت اور مفید کام کرے، جن کے ثمرات لوگوں کو ملیں اور چوتھا، اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے کے لیے فعال کردار ادا کرے۔ اگر کوئی فرد ان تمام خواص پر پورا اُترتا ہے، تو وہ ایک آسودہ زندگی بسر کررہا ہے، لیکن اگر ان مقاصد میں سے کسی ایک میں بھی ناکام ہے، تو وہ ذہنی صحت کے اعتبار سے صحت مند نہیں۔ اس ضمن میں برطانیہ میں ایک سروے کیا گیا، جس میں 13فی صد افراد نے کہا کہ وہ اپنی زندگی بَھرپور طریقے سے گزار رہے ہیں، جب کہ باقیوں کا کہنا تھا کہ ان کی زندگی بس گزر رہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک عام آدمی کیسے جان سکتا ہے کہ اِسے یا اِس کے کسی قریبی فرد کو ذہنی مسائل کا سامنا ہے، تو اس کے لیے سب سے ضروری ہے کہ علامات پر نظر رکھی جائے۔ مثلاً اگرخوف، گھبراہٹ، تھکاوٹ، کم سونے، بھوک میں کمی یا زیادتی، دماغ کے افعال میں خرابی، غمگین یا بلاوجہ پریشان رہنے، یادداشت متاثر ہونے، فیصلہ کرنے کی صلاحیت میں کمی، خودکُشی جیسے خیالات کی یلغار، غصّہ، اپنے آپ کو نقصان پہنچانے، ایسی آوازیں سُننے، جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہ ہو اور بہت زیادہ بولنے یا بالکل نہ بولنے جیسی علامات محسوس ہوں، تو ایسی صورت میں فوری طور پر ایک ماہر معالج سے رجوع کیا جائے، تاکہ وہ یہ فیصلہ کرسکے کہ یہ ذہنی مرض ہے یا پھر کوئی اور طبّی مسئلہ۔

س:ہمارے یہاں کون کون سے ذہنی و نفسیاتی امراض عام ہیں، نیز کیا مَرد و خواتین میں ان کی شرح برابر ہے؟

ج: ہمارے یہاں ذہنی و نفسیاتی امراض میں اینزائٹی، ڈیپریشن،منشیات کے استعمال کے نتیجے میں ظاہر ہونے والی نفسیاتی الجھنیں اورطبّی مسائل اور سومیٹو فارم ڈس آرڈر (Somato form Disorder)وغیرہ زیادہ عام ہیں۔ اینزائٹی میں بھی مختلف امراض کی شرح بُلند ہے۔جیسے خوف، گھبراہٹ، وہم وغیرہ۔ اگر سومیٹو فارم ڈس آرڈر کی بات کی جائے، تو یہ وہ عوارض ہیں، جن کی علامات تو جسمانی طور پر ظاہر ہوتی ہیں، لیکن وہ درحقیقت ہوتے ذہنی امراض ہی ہیں۔مثلاًاس ڈس آرڈرمیں مبتلافرد جب معالج کے پاس جاتا ہے، تو براہِ راست یہ نہیں کہتاکہ میرا دِل اُداس ہے،گھبراہٹ یا بےچینی محسوس ہورہی ہے،بلکہ وہ معدے یا کسی اور عضو میں تکلیف کا اظہار کرتا ہے۔ اس حوالے سے مَیں نے 1994ء سے لے کر 1997ء تک باقاعدہ تحقیق کی کہ ذہن کی پریشانی کا اظہار معدے سےکیسے ہوتا ہے،تویہ مَیں آپ کو بتاتا ہوں۔اب دیکھیں، اگر کسی فرد کی کنپٹی پر کوئی پستول رکھ دے، تو اس کی نہ صرف دِل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے، بلکہ معدے میں بھی تیزاب کی مقدار نارمل سے زائد ہوجاتی ہے۔اور یہی کیفیت طبّی اصطلاح میں سومیٹو فارم ڈس آرڈر کہلاتی ہے۔ مختصر الفاظ میں یہ اُن امراض کا مجموعہ ہے،جن میں مریض اپنی ذہنی پریشانی کا اظہار بول کر نہ کرسکے۔ ہمارے یہاں ہی نہیں، بلکہ دُنیا بَھر کے ترقّی پزیر مُمالک میں سومیٹو فارم ڈس آرڈر کی شرح بُلند ہے۔ علاوہ ازیں، ایک محتاط اندازے کے مطابق دُنیا بَھر میں25فی صدافراد (یعنی ہرچار میں سے ایک فرد)جب کہ پاکستان میں 34فی صد(ہر تین میں سے ایک فرد) اینزائٹی اور ڈیپریشن کا شکار ہیں۔اسی طرح شیزوفرینیا کی شرح ایک فی صد اور مینٹل ریٹارڈیشن(ذہنی پس ماندگی) ڈھائی سے تین فی صد ہے۔علاوہ ازیں، مَرد و خواتین میں ڈیپریشن کی شرح یک ساں پائی جاتی ہے۔ خواتین میں ڈیپریشن کی کئی وجوہ ہیں، مثلاً غیر منصفانہ رویّہ(والدین کا بیٹے کو بیٹی پر فوقیت دینا، اُس کی رائےکو اہم نہ جاننا، شوہر کا بیوی کو برابری کا درجہ نہ دینا وغیرہ)،پھر مینوپاز ،جس کی عام علامات میں گھبراہٹ، چڑچڑاپن، ذہنی تنائو، موڈ میں تبدیلی، بے خوابی اور یادداشت میں کمی وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح اکثر خواتین زچگی کے بعد بھی بظاہر کسی سبب کے بغیر ہی ڈیپریشن کا شکار ہوجاتی ہیں۔

س:کون سی ایسی ذہنی بیماریاں ہیں، جن کے لاحق ہونے میں معاشرے کا بھی عمل دخل ہوتاہے؟

ج:سیدھی سی بات ہے، جب کوئی حادثہ رونما ہو، تو اس کے تین محرکات ہو سکتے ہیں۔ یعنی ڈرائیور، روڈ یا گاڑی ان تینوں میں سے کوئی ایک وجۂ حادثہ بنتا ہے۔ 1977ء میں جارج اینجل(George Angel )نے یہ نظریہ پیش کیا کہ کسی بھی بیماری میں مبتلا ہونے کی تین وجوہ ہو سکتی ہیں۔ حیاتیاتی (Biological) سماجی (Sociological) اور نفسیاتی (psychological)۔یاد رکھیے، چاہے کوئی بھی مرض ہو، اس کے لاحق ہونے میں موروثیت، بائیو کیمسٹری کے ساتھ ساتھ ہمارے رہن سہن اور معاشرتی ماحول کا لازماً عمل دخل ہوتا ہے۔

س:بچّوں کے نفسیاتی امراض کی وجوہ کیا ہیں؟

ج:کئی عوامل ہیں، جو بچّوں میں نفسیاتی امراض کی وجہ بن جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں لڑکیوں کی شادی کے موقعے پرحد درجہ غیر ضروری اخراجات کیے جاتے ہیں، جب کہ اگر یہی رقم بیٹی کے اکائونٹ میں جمع کروادی جائے، تو نہ صرف دورانِ حمل یہ رقم حاملہ کی متوازن غذا،بلکہ زچگی اور نومولود کی امیونائیزیشن وغیرہ کے لیےبھی استعمال کی جاسکتی ہے۔ہم تین سے چار گھنٹے کی شادی بیاہ کی تقریب پر لاکھوں روپےخرچ کردیتے ہیں، جب کہ عمومی صحت، جو حقیقتاً آسودہ زندگی ہی سے مشروط ہے،اس پر توجّہ نہیں دی جاتی۔پھر زیادہ تر لڑکیوں کو دورانِ حمل اپنا خیال رکھنے سے متعلق کوئی خاص معلومات نہیں ہوتیں، تو اس کے اثرات شکمِ مادر میں پلنے والے بچّے پر بھی پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اب جو بچّے پیدا ہو رہے ہیں، وہ پیدایشی ذہنی پس ماندہ ہیں۔ گاؤں دیہات ہی نہیں، شہروں میں بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثر حاملہ اگر بیمار ہونے کی صورت میں معالج سے رجوع کریں، تو حمل سے آگاہ نہیں کرتیں، حالاں کہ ماں بننا تو عظمت کی علامت ہے۔یوں وہ ایسی ادویہ استعمال کر لیتی ہیں، جو دورانِ حمل بچّے کی ذہنی و جسمانی نشوونما پر مضر اثرات مرتب کرتی ہیں۔ پھر جوں جوں بچہ ہوش سنبھالتا ہے ،تو والدین اس کے ذہن میں کئی چیزوں کا خوف بٹھا دیتے ہیں۔ اسی طرح جب بچّہ اسکول جاتا ہے، تو بعض اساتذہ پڑھائی کے معاملے میں اس قدر سختی برتتے ہیں کہ بچّے کو تعلیم نعمت کم اور عذاب زیادہ لگتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں جو آئیڈیل بچّے کا تصوّر ہے، وہ کسی روبوٹ سے کم نہیں، جو بالکل غلط ہے۔ علاوہ ازیں، بچّوں میں نفسیاتی امراض کے حوالے سے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ شعور سنبھالنے پر جب بچّہ، خصوصاً والدین سے سوال کرتا ہے، تو اسے تسلّی بخش صحیح جواب دینے کی بجائے غیر حقیقی دلائل سے مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،جو قطعاً درست نہیں کہ بچّہ اگر عام ڈگر سے ہٹ کر سوال نہیں کرے گا، تو تلاش و جستجو کیسے کرے گا، اُس کی ذہنی نشوونما کیسے ہوگی۔ نیز، موجودہ دَور میں بچّوں کے لیے جسمانی سرگرمیاں بھی کم ہیں، جب کہ ذہنی نشوونما کے لیے کھیل کود ازحد ضروری ہے۔علاوہ ازیں، بچّوں کے ساتھ ساتھی طلبہ، بڑے بہن بھائیوں، کزنز وغیری کا نامناسب رویّہ بھی انھیں ذہنی تناؤ اور ڈیپریشن میں مبتلا کرسکتا ہے۔اسکول میں بڑے طلبہ انھیں تنگ کرتے، ڈراتے دھمکاتے ہیں، تو اس کابھی منفی اثر ہوتا ہے۔ عموماً گھر، اسکول میں بچّوں کو جو مختلف تضحیک آمیز ناموں مثلاً ’’لمبو، چھوٹو، کالی کلوٹی‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے، تو یہ باتیں بھی بچّے کی ذہنی استعداد متاثر کرنے کا سبب بنتی ہے۔ اسی طرح ایسے ہی بےشمار عوامل ہیں، جو بچّے کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں متاثر کرتے ہیں اور پھر ان کے اثرات ذہنی یا نفسیاتی بیماریوں کی صورت ظاہر ہوتے ہیں۔

س: ڈیپرشن، اینزائٹی،فوبیا، شیزوفرینیا،بائی پولر ڈس آرڈر، وہم اور جنون کے حوالے سے کچھ بتائیں؟

ج: ڈیپریشن، یاسیت، افسردگی کا عارضہ ہے، جو طبّی اصطلاح میں "Depressive Disorder" کہلاتا ہے۔ اس کی عام علامات میں، اداسی، مایوسی اور دِل چسپی میں کمی کا وہ احساس، جو دو ہفتے یا اس سے زائد عرصے تک رہے اور شدّت اس قدر ہو کہ معمولاتِ زندگی متاثر ہونے لگیں، شامل ہیں۔ اینزائٹی اور فوبیا کی علامات گھبراہٹ، بلاوجہ کے اندیشے، بےچینی اور ڈروخوف ہیں، جب کہ شیزوفرینیامیں مبتلا فرد کی سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت متاثر ہونے کے ساتھ جذبات، خیالات اور طرزِعمل بھی بہت تبدیل ہوجاتے ہیں۔مریض کو ایسی آوازیںسُنائی دیتی ہیں ،جو عام افراد کو سُنائی نہیں دیتیںیا غیر موجود اشیاء نظر آنے لگتی ہیں۔کبھی اُسے لگتا ہے کہ دوسرے اس کے خیالات سُنتے یا چُرا لیتے ہیں، کوئی اپنے خیالات اُس کے ذہن میں منتقل کررہا ہے یا اُس کی حرکات و سکنات کنٹرول کررہا ہے۔شیزوفرینیا میں مبتلا افراد اپنی دُنیا میں مگن رہتے ہیں اوراپنی صفائی ستھرائی سے بھی غفلت برتتے ہیں۔بائی پولر ڈس آرڈر میں مریض کی شخصیت دو رُخی ہوجاتی ہے۔کبھی حد سے زیادہ خوش ہوتا ہے، تو کبھی بےحد اُداس۔ وہم کا مرض "Obsessive Compulsive Disorder" ہے۔ اس میں مبتلا مریض کو بار بار تکلیف دہ خیالات آتے ہیں یا پھر وہ کسی ایک کام کو دہراتا رہتا ہے اورکوشش کے باوجود ان پر قابو نہیں پاسکتا۔ جنون یا مزاج میں تیزی کی بیماری"Mania"کہلاتی ہے، جس میں مزاج میں ٹھہراؤ نہیں رہتا۔ یعنی بغیر کسی وجہ کے حد سے زیادہ خوش اور پُرجوش رہنا، خود کو بہت معروف شخصیت سمجھنا، بڑے بڑے منصوبے بنانا، جن کا مکمل ہونا ممکن نہیں ہوتا، اس کی اہم علامات ہیں۔

س: ویسے عمومی طور پر بچّوں میں کون سی ذہنی و نفسیاتی بیماریاں دیکھنے میں آتی ہیں؟

ج:بچّوں میں مینٹل ریٹارڈیشن ڈس آرڈر (Mental Retardation Disorder)، ہائپر کائنیٹک ڈس آرڈرHyper kinetic Disorder))،آٹزم، ایموشنل پرابلمز اور مختلف اقسام کے فوبیا زیادہ عام ہیں۔

س:ذہنی و نفسیاتی امراض میں موروثیت، فیملی ہسٹری کا کس قدر عمل دخل ہے؟

ج:شیزوفرینیا اور بائی پولر ڈس آرڈر (Bipolar Disorder)میں موروثیت کا خاصا عمل دخل ہے، جب کہ اینزائٹی، ڈیپریشن اور سومیٹوفارم ڈس آرڈر میں موروثیت 40فی صد سے بھی کم پائی جاتی ہے۔

س:عموماً نفسیاتی امراض کی تشخیص کس طرح ممکن ہے؟

ج:فیملی ہسٹری اور علامات کے علاوہ سائیکومیٹرک ٹیسٹ (Psychometric Tests) اور ریٹنگ اسکیل(Rating Scale)وغیرہ کے ذریعے مرض کی تشخیص کی جاتی ہے۔جب کہ بعض کیسز میں معالج سی ٹی اسکین اور ایم آرآئی بھی تجویز کرتا ہے، تو ڈی ایس ایم-فائیو(DSM-5:Diagnostic and Statistical Manual of Mental Disorders, Fifth Edition)بھی مستعمل ہے۔

س:آج کل جن امراض کے نام سُننے میں آتے ہیں، ماضی میں اُن کا تصوّر بھی نہیں تھا، تو ایسا کیوں ہے؟

ج:یہ امراض ماضی میں بھی تھے، مگر ان کی تشخیص نہیں ہو پاتی تھی۔تاہم، ان کے شرح کم تھی، کیوں کہ تب طرزِ زندگی سادہ اور محنت مشقت والا تھا۔

س:وہ کون سے امراض ہیں، جو قابلِ علاج ہیں؟

ج: زیادہ تر ذہنی بیماریوں پر اے بی اور سی کے ذریعے قابو پایا جا سکتا ہے۔ یعنی اے فار ایفکٹ(مزاج)، بی فار بی ہویئر(رویّہ)اور سی فار کاگنیشن(فہم)۔اگر مریض کی اے، بی، سی پر خصوصی توجّہ دی جائے، تو صحت یابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے یہاں یہ مفروضہ عام ہے کہ نفسیاتی عوارض قابلِ علاج نہیں، تو ایسا قطعاً نہیں ہے۔ اگر تشخیص و علاج درست ہو اور مستقل مزاجی سے کروایا جائے، تو 70فی صد مریض ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ ویسے ذہنی و نفسیاتی عوارض کے علاج میں ادویہ اور کاؤنسلنگ دونوں ہی طریقے مستعمل ہیں۔کئی امراض سے ادویہ کے ذریعے شفا ملتی ہے،جیسا کہ شیزوفرینیا کے 30فی صد مریض باقاعدگی سے ادویہ استعمال کرنے سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ پھر کئی عوارض ایسے ہیں، جن پر ادویہ اور پرہیز کی بدولت مکمل قابو پایا جاسکتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے ذیابطیس، بُلند فشارِ خون اور جوڑوں کے درد وغیرہ پر کنٹرول رکھنا ممکن ہے۔نیز،رویّوں کی درستی سے بھی بہت سے امراض کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ ساس، بہو سے، بہو ساس سے، بیٹا باپ سے، باپ بیٹے سے ،میاں بیوی سے، بیوی میاں سےرویے درست کرلیں۔ اخلاقیات کا خیال رکھا جائے، نرمی شائستگی اپنائی جائے، تو بہت سے مسائل آپ ہی آپ حل ہوجائیںگے۔

س:کن امراض میں ادویہ استعمال کروائی جاتی ہیں اور کن میں کائونسلنگ مؤثر ہے؟

ج:شیزوفرینیا، بائی پولرڈس آرڈر، آرگینک سائیکالوجیکل ڈس آرڈر(Organic Psychological Disorders)، ڈیمنیشیا (Dementia)، پرسنالٹی ڈس آرڈر (Personality Disorder) اور وہم (OCD)وغیرہ جیسے امراض کے علاج کے لیے ادویہ تجویز کی جاتی ہیں،جب کہ کئی امراض محض گفتگو، مختلف موثر تدابیر اور کائونسلنگ ہی سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔

س: ذہنی و نفسیاتی عوارض کی ادویہ کے متعلق ایک خیال عام ہے کہ مریض ان کا عادی ہوجاتا ہے، تو حقیقت کیا ہے؟

ج: ایسا کچھ نہیں ہے،مریض ادویہ کے عادی نہیں ہوتے۔ نفسیاتی امراض کے علاج کی بھی ایک مدت ہوتی ہے اور علاج مکمل ہونےکے بعدیہ مریض بھی مکمل صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔ میرے پاس کئی مریض نسخے کا پرچہ تھامے آتے ہیں اور کہتے ہیں،’’ڈاکٹر صاحب! کوئی اور دوا لکھ دو۔‘‘ وجہ پوچھو تو کہا جاتا ہے،’’ہمیں میڈیکل اسٹور والے نے کہا ہے کہ یہ ادویہ استعمال نہ کرنا، عادی ہو جاؤ گے۔‘‘ بھئی، سوال یہ ہے کہ ایک معالج نے چار سال طب کی تعلیم حاصل کی، پھر اسپیشلائزیشن کیا، تب کہیں جاکر وہ اس قابل ہوا کہ مریضوں کا علاج کرسکے،جب کہ میڈیکل اسٹور والے کا کام صرف ادویہ دیناہے،لہٰذا معالج کی ہدایت کو فوقیت دی جائے،نہ کہ دوسرے لوگوں کی باتوں پر شک اور وسوسے کا شکار ہوکر اپنا کیس مزید بگاڑ لیا جائے۔

س:ہمارے یہاں علاج کے کون کون سے جدید طریقے رائج ہیں اور سب سے مستند طریقۂ علاج کون سا ہے؟

ج:میڈیسن کے علاوہ اینالیٹکل((Analytical، بی ہیوئیر اورکاگنیٹیو تھراپیز وغیرہ کے جدید طریقے رائج ہیں اور یہ سارے ہی مستند ہیں۔

س:وہ کیا ذہنی کیفیت اور عوامل ہوتے ہیں کہ جن کے سبب کوئی شخص خودکُشی تک کے متعلق سوچتا یا کرگزرتا ہے؟

ج:خودکُشی ذہنی صحت کی بدترین کیفیت کا نام ہے،جس کے کئی عوامل ہو سکتے ہیں۔ مثلاً محبّت میں ناکامی، امتحانات میں نمبرز کم آنا، ذہنی دبائو، پسند کے خلاف شادی اور مالی اور گھریلو پریشانیاں وغیرہ۔ زیادہ تر impulsiveافراد ہی خودکُشی کرتے ہیں اور ان میں سے 70فی صد ایسے ہوتے ہیں، جو کم از کم ایک ہفتے تک معالج کے رابطے میں بھی رہتے ہیں، لیکن ان کے مرض کی تشخیص نہیں ہوپاتی۔

س: کیا ماہرِ نفسیات سے ایسے بھی افراد رجوع کرتے ہیں، جو کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا نہیں ہوتے، مگر خود کو مریض سمجھتے ہیں؟

ج: ہمارے پاس زیادہ تر وہی لوگ آتے ہیں، جو واقعتاً کسی مسئلے سے دوچار ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں تو ویسے ہی صحت کی طرف توجہ کا کچھ خاص رجحان نہیں اور پھر ذہنی صحت کو تو کسی گنتی شمار ہی میں نہیں رکھا جاتا۔ تو عموماً جب کوئی تکلیف یا عارضہ حد سے بڑھ جائے، تب ہی لوگ معالج سے رجوع کرتے ہیں۔

س:کیا ہمارے یہاں مریضوں کی تعداد کے تناسب سے علاج کے مراکز اور ماہرینِ نفسیات موجود ہیں، سرکاری اسپتالوں میں سہولتوں کی کیا صورت ِحال ہے؟

ج:پاکستان میں ماہرین کی تشویش ناک حد تک کمی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے کم از کم 9سے10ہزار ماہرین درکار ہیں،مگر اس وقت صرف 5سو ہیں۔مزید ستم یہ کہ زیادہ تر ماہرین صرف بڑے شہروں تک محدود ہیں، جب کہ آبادی کا بیش تر حصّہ دیہی علاقوں میں مقیم ہے اور بڑے شہروں میں بھی یہ تعداد ناکافی ہے۔ اب جناح اسپتال کے شعبۂ نفسیات میں 20ماہرین تعینات ہونے چاہئیں، مگراس وقت صرف تین ماہرین خدمات انجام دے رہے ہیں۔اور حالت یہ ہے کہ او پی ڈی میں روزانہ کی تعداد400تک پہنچ جاتی ہے۔یہی صورتِ حال دیکھتے ہوئے، ہم نے شام کے اوقات میں مختلف نفسیاتی امراض کے الگ الگ کلینکس قائم کردئیے ہیں، تاکہ مریضوں کا تفصیلی معائنہ ہوسکے۔علاج معالجے کی یہ سہولتیں بالکل مفت ہیں، البتہ سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی وغیرہ کے لیے کچھ فیس لی جاتی ہے۔ویسےچوں کہ اب نئے طلبہ کا اس شعبے میںرجحان بڑھ رہا ہے،تو اُمید ہے کہ آئندہ برسوں میں ماہرین کی یہ کمی پوری ہوجائے گی۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں شعبۂ صحت کے لیے انتہائی کم بجٹ مختص کیا جاتا ہے، جب کہ بیرونِ مُمالک میںبجٹ کا 6سے 7فی صد تک صرف ذہنی امراض کے لیے مختص ہے۔

س:ہمارے یہاں خواتین کی ہسٹریائی کیفیات کو عموماً ڈرامے بازی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کیا کچھ خواتین توجّہ کے حصول کے لیے ایسا کرتی بھی ہیں؟

ج:ہسٹریا کو اب"Conversion Disorder"کہا جاتا ہے،یہ قابلِ علاج مرض ہے،جس کا علاج ذہن میں چُھپی کسی بھی الجھن کو کائونسلنگ کے ذریعے ختم کرکے کیا جاتا ہے۔ دراصل اس مرض میں مریض لاشعوری طور پر ایسی حرکات کرتا ہے کہ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور زیادہ تر خواتین ہی اس کا شکار ہوتی ہیں۔لیکن اس کیفیت کو ڈرامے بازی پر محمول کرنا درست نہیں۔ ایسی خواتین کو کاؤنسلنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔

س: کیا ذہنی مریض فعال زندگی بسر کرسکتے ہیں؟

ج:جی بالکل، کئی امراض ایسے ہیں، جن میں مریض ذہنی طور پر پس ماندہ نہیں ہوتے،محض ذہنی مریض ہوتے ہیں اور علاج کے ساتھ اپنی ذہنی صلاحیتوں کے باعث نمایاں کارنامے انجام دے سکتے ہیں۔ جیسا کہ جان نیش (John nash)نےاپنے کام کی بدولت نوبل پرائز حاصل کیا،حالاں کہ وہ شیزوفرینیا کے مریض تھے۔ مرحوم ستار ایدھی صاحب ڈیپریشن کے مریض تھے اور کہتے تھے کہ لوگوں کو بتایا کرو کہ مَیں ڈیپریشن کا مریض ہوں۔تو اگر نفسیاتی عوارض کے شکار مریضوں کو درست علاج کے ساتھ بہتر رہنمائی بھی مل جائے، تو وہ معاشرے میں اپنا فعال کردار ادا کر سکتے ہیں۔میرےاپنے دو تین مریض ایسے ہیں، جوبےحد ذہین ہیں اور مَیں کئی معاملات میںباقاعدہ ان سے مشورےلیتاہوں۔ابھی حال ہی میں ہمارے پاس جاپان سے ایک مریض آیا ہے،جو بائی پولر ڈس آرڈر کا شکار ہے، مگر بہترین باغ بان ہے۔اور جناح اسپتال کے شعبۂ نفسیات میں یہ جو اس قدر خُوب صُورت ہریالی نظرآرہی ہے، یہ اسی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔

س: ’’اسکرینز‘‘ کا کثرت سے استعمال بھی کچھ ذہنی و نفسیاتی امراض کی وجہ بن رہا ہے؟

ج: جی ہاں ایسا ہی ہے۔مختلف ویڈیو گیمز ذہنی صحت متاثر کرنے کا سبب بنتے ہیں اور اس کی واضح مثال بلیو وہیل اور مومو چیلنج ایپلی کیشنز ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر روزانہ کمپیوٹر دو گھنٹے سے زائد استعمال کیا جائے، تو ذہن اور جسم پر اس کے سخت مضر اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔والدین کوشش کریں کہ اپنے بچّوں کو جسمانی سرگرمیوں کی طرف راغب کریں اور انہیں کمپیوٹر کے دیر تک استعمال کے نقصانات سے بھی آگاہ کریں۔

س:مجنونانہ کیفیت کیا ہے؟ اس حوالے سے بھی کچھ بتائیں؟

ج:ذہنی امراض کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، نیوروسس اور سائیکوسس۔ نیوروسس عام ہیں، جب کہ سائیکوسس محض ایک سے دو فی صد تک ہیں اور مجنونانہ علامت سائیکوس میں شمار کی جاتی ہے۔

س: ذہنی صحت برقرار رکھنے کے لیے کیا کیا جائے؟

ج: اگر آپ کسی ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، تو اس کا مقابلہ کریں اور اپنی سوچ مثبت رکھیں۔جسمانی صحت کا بھی خاص خیال رکھا جائے،متوازن غذا استعمال کریں، جس میں پھل اور سبزیاں خاص طور پر کیلا، لوبیا، بادام، اخروٹ اور مچھلی شامل ہو۔ تمباکو نوشی بالکل نہ کریں، پان، نسوار، گٹکے، مین پوری، شیشے اور دیگر نشہ آور اشیاء سے اجتناب برتیں، روزانہ صبح یا شام میں خالی پیٹ ورزش کریں، چاہےوہ30منٹ پیدل ہی کیوں نہ ہو۔اہلِ خانہ، رشتےداروں اور دوستوں کے ساتھ وقت گزاریں، تاکہ زندگی میں توازن قائم رہے۔وقت پر سونے، جاگنے کی عادت ڈالیں۔ عبادت کریں اور جس بھی پیشے سے وابستہ ہیں، وہاںاپنا کام عبادت سمجھ کر انجام دیں۔ کسی جسمانی مرض میں مبتلا افراد اوردودھ پلانے والی خواتین خدانخواستہ کسی ذہنی و نفسیاتی عارضےمیں بھی مبتلا ہوجائیں، تو معالج کو لازماً آگاہ کریں۔ معالج کی ہدایت کے بغیر ادویہ ہرگز ترک نہ کی جائیں،اس سے مرض بگڑ سکتا ہے۔نفسیاتی مسائل کسی کے بھی ساتھ ہوسکتے ہیں، لہٰذا ان کو بیماریاں سمجھیں اور علاج میں پہل کریں۔

س:جس تیزی سے ذہنی و نفسیاتی امراض کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے، عوام النّاس کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟

ج:دیکھیں، صحت، ذہنی صحت کے بغیر نامکمل ہے اور ذہنی صحت ہی کسی بھی معاشرے کا اصل اثاثہ ہوتی ہے۔ اگر حکومت بجٹ کا ایک معقول حصّہ عمومی صحت پر خرچ کرے، تو ظاہر سی بات ہے کہ معاشرے میں سدھار پیدا ہوگا۔مَیں لگ بھگ63مُلکوں کا دورہ کرچُکا ہوں اور مجھے کئی مُمالک کی جانب سے پُرکشش آفرز بھی ہوئیں، مگر میری ترجیح ہمیشہ سے پاکستان ہے۔ مجھے جاپان میں مینٹل ہیلتھ سروس خاص طور پر خود کُشی کو شکست دینے کے لیے بلوایا گیا،تو مَیں نے صورتِ حال کاجائزہ لے کراہم تجاویز دیں۔ اب وہاں کوئی کارخانہ بغیر مینٹل ہیلتھ سروس کے قائم ہی نہیں ہوتا، تو ہمارے یہاں بھی ایسے ہی کام ہونے چاہئیں اور حکومت کو دیگر مسائل سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت کی طرف بھی خصوصی توجّہ دینی چاہیے۔پھر حکومت کے ساتھ مختلف فلاحی، رفاہی اداروں، مخیّر افراد اور عوام النّاس کو بھی مل کر کام کرنا چاہیے، تاکہ ہم بھی ایک صحت مند قوم، صحت مند معاشرہ کہلا سکیں۔