الیکشن کمیشن اور آئین

December 18, 2018

قومی تعمیر و ترقی کیلئے آئین و قانون کی حکمرانی کے ناگزیرہونے پر اگرچہ ہمارے سارے قومی رہنمااور تمام ریاستی ادارے بظاہر مکمل اتفاق رکھتے ہیں لیکن عملی کیفیت بیشتر حوالوں سے خاصی مختلف ہے۔ اس ضمن میں ایک تازہ نشان دہی الیکشن کمیشن جیسے محترم آئینی ادارے کے ارکان کے تقرر کے تعلق سے ایک اخباری رپورٹ میں کی گئی ہے جس کے مطابق تمام ملک میں انتخابات کرانے کے ذمہ دار اس اہم اور محترم آئینی ادارے کے چار میں سے تین ارکان کا تقرر آئین کی دفعہ دو سوسات کی شق دو کے برخلاف عمل میں آیا ہے۔ اس دفعہ کی رو سے سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کا کوئی جج منصب سے فارغ ہونے کے دو سال مکمل ہونے سے پہلے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی رکنیت سمیت کسی منفعت بخش سرکاری عہدے پر فائز نہیں کیا جاسکتا اس میں تمام عدالتی اور نیم عدالتی مناصب بھی شامل ہیں۔ لیکن موجودہ الیکشن کمیشن کے ان تین ارکان میں سے ایک بلوچستان ہائی کورٹ سے مستعفی ہونے کے محض پانچ دن بعد،دوسرے پشاور ہائی کورٹ سے ریٹائر ہونے کے پینتالیس دن اور تیسرے لاہورہائی کورٹ سے فارغ ہونے کے سات ماہ بعد الیکشن کمیشن کے رکن مقرر کئےگئے۔ کمیشن کے چوتھے رکن سابق بیوروکریٹ ہیں، رپورٹ کے مطابق تقرر کے وقت ان کا نام دو ارب روپے کی کرپشن میں ملوث ہونے کے الزام میں ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں تھا۔ الیکشن کمیشن کے سیکریٹری سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ جو ہوگیا سو ہوگیا،پھر انہوں نے اس کا ذمہ دار سابق حکومت اور اپوزیشن کو قرار دیا لیکن آخر میں یہ موقف اختیار کیا کہ عدالتی اور نیم عدالتی عہدوں پر تقرر کی آئین میں گنجائش ہے جبکہ رپورٹ میں حوالے دے کر بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے اس موقف کی تردید کرتے ہیں۔ ملک کے ایک اہم ترین آئینی ادارے میں آئین کی یہ پامالی ، ہمارے آئین کی بالادستی کے عووں پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ‘ اگر اس معاملے کی کوئی قابل فہم وضاحت ممکن ہے تو ضرور کی جانی چاہئے۔