یادوں کا بھانبڑ(II)

December 18, 2018

میں نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ دسمبر کا ٹھنڈا ٹھار مہینہ 16؍ دسمبر 1971مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حوالے سے یادوں کا بھانبڑ جلانے لگتا ہے۔ نئی نسل کو نہ اس المیے کا ادراک ہے اور نہ دلچسپی۔ یہ تقریباً وہی صورتحال ہے جو ہماری نسل کے ساتھ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے حوالے سے بیتی۔ میں نے قیام پاکستان کے بعد اسکول جانا شروع کیا اور برسوں تک اپنے بزرگوں کی زبانی تقسیم سے وابستہ یادیں سنیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں مگر زیادہ ہندوستانی مصنفین نے لکھی ہیں۔ اس کے باوجود سچ کی تلاش کا سفر جاری ہے اور جاری رہے گا۔ سچ کی تلاش جان جوکھوں کا کام ہے اس میں دیوانہ وار محنت کے علاوہ جگر کا خون کرنا پڑتا ہے اور شواہد کے ایک ایک ورق کا پوسٹ مارٹم کرنا پڑتا ہے۔ اسی کو ریسرچ یعنی تحقیق کہتے ہیں۔ سچی تحقیق روشنی کا چراغ جلا جاتی ہے جبکہ نقلی تحقیق وقت کے ملبے تلے دب کر رہ جاتی ہے۔ DEAD RECKONINGکی مصنفہ سرمیلا بوس کلکتہ سے تعلق رکھتی ہے، بنگلہ دیش کا قیام اس کے بچپن کی دھندلی سی یاد تھی۔ اس نے اعلیٰ تعلیم امریکہ کی ممتاز ترین یونیورسٹی ہارورڈ سے حاصل کی وہیں سے تحقیق کا فن سیکھا۔ پھر آکسفورڈ جیسی نامور یونیورسٹی میں سائوتھ ایشیا کی ریسرچ فیلو مقرر ہو گئی جہاں اس نے کھلے ذہن کے ساتھ اس موضوع پہ تحقیق کی اور جھوٹ کو سچ سے الگ کرنے کے لئے مبالغے کا دامن چاک چاک کیا۔ سچ کی تلاش میں اس نے ہندوستان پاکستان امریکہ کے دورے کئے، جنگ کے کرداروں کو انٹرویو کرنے کے علاوہ لائبریریوں، سرکاری کاغذات اور فوجی شواہد کا گہرا مطالعہ کیا اور غیر جانبدارانہ علمی انداز میں کتاب لکھی تعارف میں جہاں اس نے جھوٹ کو سچ سے الگ کرنے کی راہ میں مشکلات کا ذکر کیا ہے وہاں پاکستانی فوج کی کارکردگی کی تعریف بھی کی ہے جس کی عام حالات میں بنگالی مصنف سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ ’’سیاسی حل کی غیر موجودگی میں پاکستانی فوج کو طویل عرصے تک ہندوستانی حمایت یافتہ مکتی باہنی سے گوریلا جنگ لڑنا پڑی جو نہایت تھکا دینے والی ایکسرسائز تھی۔ پھر ہندوستان نے پوری جنگ مسلط کر دی ہندوستان کو مقامی آبادی کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ ان ’’ناممکن‘‘ روکاٹوں کے باوجود پاکستانی فوج کی کارکردگی (PERFORMANCE)حیرت انگیز تھی‘‘ ’’بہرحال جنرل نیازی شکست کی شرمندگی کا بوجھ اٹھائے زندہ تھا‘‘۔

ذہن میں رہے کہ موجودہ دور کی جنگوں میں پروپیگنڈہ جنگ کا سب سے بڑا ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔ ہندوستان نے اس ہتھیار کو نہایت مہارت سے استعمال کیا اور عالمی رائے عامہ کی نظر میں پاکستان کو قاتل بلکہ قصاب بنا کر رکھ دیا۔ مبالغہ آمیزی کے بہت سے پردے چاک کرتے ہوئے مصنفہ نے لکھا ہے کہ ڈھاکہ کے ایک ہندو علاقے ’’شان خاری پرا‘‘ پر آرمی ایکشن 26؍ مارچ کو ہوا۔ میں اس علاقے میں لوگوں کو انٹرویو کرنے اور عینی شاہدین کی شہادتیں لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ یہاں چودہ پندرہ مرد اور ایک بچہ گولیوں کا نشانہ بنے جبکہ ایک معروف پاکستانی صحافی نے اس علاقے میں آٹھ ہزار بنگالیوں کے قتل کی خبر دی تھی۔ جنرل نیازی کا اندازہ ہے کہ ملٹری ایکشن میں چار ہزار لوگ مرے جب کہ ہندوستانی جنرل جیکب ساڑھے چار ہزار کہتا ہے۔ اس حوالے سے سرمیلابوس نے ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے جسے آپ ’’ریسرچ پیس‘‘ یعنی تحقیق کا نمونہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ وہ لکھتی ہے کہ جنگی ادب پڑھتے ہوئے ایک نہایت متاثر کن مضمون میری نظر سے گزرا جس کے اسلوب اور شاعرانہ انداز نے مجھے متاثر کیا۔ یہ مضمون ایک بنگالی دانشور محمد سفیق العالم چوہدری کی تحریر تھی جو سالڈنگہ پے لولی یونین میں جدوجہد کمیٹی کا سربراہ تھا۔ اس کی تحریر بنگلہ دیش میں بہت مقبول تھی اور اس کا عنوان تھا ’’شیروں کے پنجرے میں‘‘ سفیق لکھتا ہے کہ پاکستانی فوج کی آمد کے بعد اسے تھانے میں لے جا کر اتنا مارا پیٹا گیا کہ وہ بے ہوش ہو گیا۔ جب اسے ہوش آئی تو اس نے اپنے آپ کو ایک پنجرے میں بند پایا جس میں چار شیر بھی موجود تھے۔ شیروں نے اسے سونگھا تک نہیں۔ شیر کا ایک بچہ بھی پنجرے میں تھا جو اس کے پائوں پر سر رکھ کر سوتا تھا۔ اسی طرح اس نے کئی دن پنجرے میں گزار دیے۔ ایک دن فوجی ایک درجن قیدیوں کو پکڑ کر لائے اور انہیں اس پنجرے میں شیروں کے حوالے کر دیا۔ شیروں نے انہیں خوب زخمی کیا ان پر حملے کرتے رہے اور ان کے اعضاء تک کھا لئے۔ بعد ازاں فوجیوں نے انہیں پنجرے سے باہر نکالا اور میرے سامنے گولیوں کا نشانہ بنا دیا۔ اس طرح میری نگاہوں کے سامنے باری باری 150 بنگالیوں کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔ سفیق لکھتا ہے کہ پھر اسے پولیس کے حوالے کر دیا گیا جہاں سے وہ جان بچا کر بھاگا اور ہندوستان کی فوج سے جا ملا۔ سرمیلا بوسلکھتی ہے کہ میں نے جب یہ مقبول عام کہانی پڑھی تو مجھے یقین نہ آیا۔ مجھے احساس ہوا کہ یہ کہانی اسی مبالغہ آمیز یا جھوٹے پروپیگنڈے کا حصہ ہے۔ اول تو سفیق نے اس واقعے کی تاریخ نہیں لکھی تھی۔ دوم میرے لئے یہ ناقابل فہم تھا کہ اسے شیروں کے پنجرے میں ڈالا گیا تو شیروں نے اسے سونگھا تک نہیں بلکہ شیر کا بچہ اس کے پائوں پر استراحت فرماتا رہا لیکن اسی پنجرےمیں جب دوسرے قیدی ڈالے گئے تو شیروں نے انہیں بُری طرح زخمی کیا۔ اس افسانوی کہانی کا بنگلہ دیش کے حکومتی ڈاکومنٹس میں بھی ذکر تھا، سفیق نے انچارج فوجی کا نام میجر رانا لکھا تھا میں نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اس فوجی یونٹ میں میجر رانا نامی کوئی افسر نہیں تھا۔ ہاں میجر حفیظ راجہ تھا جس کا انتقال ہو چکا تھا۔ تحقیق کرتے میں پاکستان میں فوجی ذرائع کے ذریعے اس یونٹ کے کمانڈنگ افسر کرنل امیر محمد خان تک پہنچی۔ اس سے اس واقعے کے بارے میں پوچھا کہ کیا آپ وہاں شیروں کو انسانی گوشت کی خوراک کھلاتے تھے۔ کرنل امیر محمد خان نے اس واقعے کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ وہاں سرکس کے دو شیر پنجرے میں بند تھے جو قیدی بولنے سے انکار کر دیتے تھے انہیں ڈرانے کے لئے پنجرے کے قریب لا کر دھمکی دی جاتی تھی۔ صرف ایک بندہ تھا جو دھمکی کے باوجود نہ بولا۔ ہم نے تنگ آ کر اسے رہا کر دیا اور وہ یہی سفیق تھا۔ نہ کبھی کسی کو گولی ماری نہ پنجرے میں ڈالا۔ کرنل امیر محمد نے بتایا کہ اس نے ایک فوجی افسر کے گھر دیواروں پر خون کے چھینٹے دیکھے۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ اس گھر میں میجر محمد حسین رہتے تھے۔ بغاوت کے دوران بنگالیوں نے میجر صاحب، ان کی بیوی اور بیٹے کو وحشیانہ انداز سے شہید کر دیا اور ان کی چھوٹی سی بیٹی کو چاقوئوں سے شدید زخمی کر کے سڑک پر پھینک دیا۔ دوسری بیٹی ملازمہ کے ساتھ غائب (MISSING) تھی۔ بڑی تلاش کے بعد اس بچی کو نہایت ناگفتہ بہ حالت میں پایا۔ جونہی اُس بچی کی نظر کرنل امیر پر پڑی تو وہ بولی ’’ابو‘‘۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کرنل امیر کی شکل و شباہت میجر محمد حسین شہید سے ملتی تھی۔