ایک اور منی بجٹ ؟

December 21, 2018

رواں مالی سال کیلئے ایک بجٹ تو مسلم لیگ ن حکومت نے جاتے جاتے قوم کو دیا تھا۔ اس میں انتخابی تقاضوں کے تحت ہاتھ ہلکا رکھنے کے باوجود عوام پر اچھا خاصا مالی بوجھ ڈال دیا گیا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے آتے ہی سابقہ حکومت کی کرپشن اور معاشی ’’بداعمالیوں‘‘ کو کوستے ہوئے منی بجٹ کے ذریعے اس بوجھ میں مزید اضافہ کر دیا اور اسے اصلاح احوال کیلئے ضروری اور اپنی مجبوری قرار دیا۔ اگر کچھ کمی رہ گئی تھی تو اسے دور کرنے کیلئے آئندہ ماہ کے پہلے پندھرواڑے میں اب دوسرا منی بجٹ لایا جا رہا ہے۔ یہ2018 میں گرایا جانے والا تیسرا ’’بجٹ بم‘‘ ہو گا جو ملک کے مالیاتی مسائل حل کرنے کیلئے زیر غور ہے۔ اس سے عوام کی مالی مشکلات میں جو اضافہ ہو گا اس کا کچھ اندازہ وزیر خزانہ اسد عمر کی اس بریفنگ سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں دی۔ انہوں نے نئے منی بل میں ٹیکسوں اور ڈیوٹیز میں اضافے کی بات کی اور ان اقدامات کو اکنامک ایڈوائزری کونسل کی تجویز قرار دیا جس کا مقصد بعض اشیاء پر ٹیکسوں اور ڈیوٹیز میں اضافے کے علاوہ بعض میں کمی بھی ہے تاکہ معیشت کا پہیہ رواں دواں رہے۔ انہوں نے بتایا کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ ایک ارب ڈالر ماہانہ تک پہنچ چکا ہے اس بحران پر قابو پانے کیلئے انہوں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے ملنے والے قرضوں اور سرمایہ کاری کا ذکر کیا اور کہا کہ آئی ایم ایف سے معاشی اصلاحات پر ہمارے اختلافات ہیں اچھا پروگرام ملنے تک پاکستان اس سے قرض نہیں لے گا اور دوستوں کے تعاون کو ترجیح دے گا۔ کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف قرض کیلئے اپنی تجویز کردہ اصلاحات پر ایک سال میں عملدرآمد چاہتا ہے جبکہ پاکستان تین سال کی مدت مانگ رہا ہے۔ نیا منی بجٹ لانے کی بڑی وجہ بھی یہی بتائی جا رہی ہے کہ آئی ایم ایف سے حکومت کے معاملات طے نہیں ہو سکے۔ مالیاتی خسارہ پورا کرنے کیلئے منی بجٹ کے ذریعے مزید مالی وسائل پیدا کئے جائیں گے جو نئے ٹیکسوں یا موجودہ ٹیکسوں میں اضافے کی شکل میں عوام سے وصول کئے جائیں گے۔ ٹیکسوں کے اضافی بوجھ کو اگر مہنگائی کے پہلے سے بڑھتے ہوئے طوفان کے تناظر میں دیکھا جائے اور ساتھ ہی نیپرا کی جانب سے بجلی کے نرخوں میں تازہ اضافے کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس طوفان کے ساتھ گرانی کا ایک سیلاب بھی آجائے گاجو عوام کی قوت خرید کو تہس نہس کرکے رکھ دے گا۔خاص طور پر دہاڑی دار مزدوروں اور دوسرے غریب طبقوں کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہو جائے گا۔ نیپرا نے یکساں پاور ٹیرف نظام کا اطلاق کرکے بجلی کے نرخ میں ایک روپیہ 27 پیسے فی یونٹ کا اضافہ کردیا ہے اس سے نیپرا کے مطابق صارفین پر130 ارب روپے جبکہ آئی این پی کے مطابق 226ارب روپے سالانہ بوجھ پڑے گا۔ زیادہ خصوصاً پیک آور میں بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین اس اضافے سے زیادہ متاثر ہوں گے تاہم 3سو یونٹ استعمال کرنے والوں کو اضافے سے مستثنیٰ کیا گیا ہے نیپرا نے تو فی یونٹ 3.82 روپے اضافے کی تجویز دی تھی مگر اکنامک کوآرڈی نیشن کونسل نے 1.27 روپے کی منظوری دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ ملکی معیشت کئی خرابیوں کے ساتھ تحریک انصاف کی حکومت کو ورثے میں ملی ہے۔ تجارتی خسارہ اور قرضے بھی سابقہ حکومتوں کے معاشی اقدامات کا نتیجہ ہیں۔ اس حد تک موجودہ حکومت کو معاشی خرابیوں کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا مگر یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ عوام بہتری کی بڑی خواہشات اور امیدوں کے ساتھ تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار میں لائے ہیں۔ اسے ایسے اقدامات نہیں کرنے چاہئیں جن سے مہنگائی بڑھےٹیکسوں کی بھرمار سے گرانی میں اضافہ ہوتا ہے اور سرمایہ کاری کو بھی نقصان پہنچتا ہے رواں مالی سال میں دو مرتبہ ٹیکسوں کے نتیجے میں قیمتیں بڑھ چکی ہیں عوام مزید گرانی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس تناظر میں نئے منی بجٹ کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ حکومت کو اس حوالے سے سوبار سوچ سمجھ کر کوئی قدم اٹھانا ہو گا۔