عقل بڑی کہ بھینس؟

January 05, 2019

آج کا عنوان کچھ عجیب لگا تو خیال آیا کہ اگر ہمارے وزیراعظم کٹے کٹیوں، بھینسوں، انڈوں اور مرٖغیوں کی باتیں کر سکتے ہیں تو ہم کیوں گائے، بھینسوں کا تذکرہ نہیں کر سکتے؟ تیسری جماعت کا ایک چھوٹا سا بچہ‘ جس سے اس کے دادا نے پوچھا:بیٹا بتاؤ عقل بڑی کہ بھینس؟ بچے نے لمحے بھر کے لیے سوچا اور پھر بولا:دادا جی بظاہر تو بھینس بڑی لگتی ہے لیکن اگر عقلمندی کے فیصلے دیکھیں تو عقل کہیں بڑی اور طاقتور چیز ہوتی ہے۔ دادا نے تو گلے لگایا، سو لگایا لیکن درویش نے عقل و شعور یا لاجک کو ایسا پلے باندھا کہ زندگی بھر ہر چیز کے مقام یا وزن کو اسی کسوٹی پر تولا یا پرکھا اور آج بھی اپنے اہلِ وطن کی خدمت میں درد مندانہ اپیل کرتا ہے کہ وہ بھینس یا بھینسے کے جثے پر نہ جائیں، شعوری باریکیوں کی فتوحات پر نظر ڈالیں۔ انڈین سوسائٹی کی تمام تر تنگ نظری پر مبنی کہانیوں کے باوجود یہ اس کی تکثیر پسندانہ بڑائی ہے کہ وہاں ایک ریٹائر جج قومی میڈیا کے سامنے کھڑے ہو کر گاؤ ماتا جپنے والوں کو نہ صرف گدھے کہہ رہا ہے بلکہ اس سے چار قدم آگے بڑھ کر اس ’’ماتا‘‘ کے متعلق کھلے بندوں یہ بولتا ہے کہ میرے لیے اس کی حیثیت دیگر جانوروں سے زیادہ نہیں ہے۔ وہ آئین کی اہمیت بیان کرنے کے ساتھ اپنی حکومت کے دماغی خلل یا عقل و شعور کے استعمال نہ کرنے کا رونا بھی روتا ہے۔

ہمارے ہاں بھارت و مغربی جمہوری ممالک و اقوام کے خلاف منافرت پھیلانے کی جو کھلی چھوٹ ہے اس نوع کی دریا دلی کا مظاہرہ کیا ہم کسی غیر جمہوری مملکت کے متعلق بھی کر سکتے ہیں چاہے وہ مذہب کے لبادے میں ہو یا سوشلزم کے پیرہن میں؟ ہم بحیثیتِ قوم یہ سوچیں کہ آخر ہم نے اس نوع کے معیارات کس مجبوری کے تحت قائم کر رکھے ہیں؟ ہم عرض کرتے ہیں کہ آج کی دنیا حق و باطل کی جنگوں سے کہیں آگے نکل چکی ہے۔ اس کرہ ارض پر آباد افراد و اقوام کی ساری تگ و دو معیشت کی مسابقت میں ہے۔ رہ گئے اخلاقی و مذہبی ضوابط، ان کی تقسیم محض ظالم و مظلوم یا جبر و آمریت بمقابلہ ڈیمو کریسی و ہیومن رائٹس تک ہے۔ مسئلہ محض اقوامِ عالم کا نہیں ہے، ہم اندرونِ ملک اپنی قوم میں فی الواقع موجود ان ہر دو گروہوں یا اپروچوں کا تنقیدی جائزہ لے سکتے ہیں۔متحدہ ہندوستان میں مسلم اکثریتی خطوں کی بدولت علیحدہ مسلم مملکت کی سوچ اس لیے ابھری تھی کہ ہم کاروباری یا معاشی سرگرمیوں میں ہندو کاروباری طبقات کی مسابقت کے قابل نہ تھے۔ اگرچہ اس جدوجہد کی قیادت جمہوریت پر یقین رکھنے والے ایک سیاستدان نے کی تھی مگر اسی عرصہ میں جب اس نوزائیدہ مملکت کی بنیادیں استوار کی جارہی تھیں یہاں جبر یا جمہوریت کی دو سوچیں ابھر کر سامنے آ گئیں، یہی وجہ ہے کہ یہاں پورے 9برسوں تک کوئی آئین نہ بن سکا اور اگر رو دھو کر بنا تو دو سال بھی نہ گزار سکا جبکہ ہمارے مقابل بھارت کی جمہوری تاریخ اتنی درخشاں ہے کہ پنڈت نہرو جیسے قائد کی رہنمائی میں آزادی کے فوری بعد نہ صر ف تمام مختلف الخیال طبقات کے لیے قابلِ قبول سیکولر جمہوری پارلیمانی آئین بن گیا بلکہ پچھلی سات دہائیوں سے وہ اس طرح نافذ العمل ہے کہ کسی میں کبھی یہ جرأت پیدا نہیں ہو سکی کہ وہ اس آئین یا پارلیمنٹ کو سبوتاژ کرنے کا سوچ بھی سکے۔ انسانی سماج میں عملی کوتاہیاں بلاشبہ اُن سے بھی ہوئیں، مذہب کے نام پر استحصال کرنے والے جنونی افراد وہاں بھی موجود ہیں لیکن سیکولر آئین کی کار فرمائی نے ہمیشہ جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادیوں پر یقین رکھنے والے کمزور سے کمزور طبقات کی دستگیری کی ہے۔ بات شروع ہوئی تھی اس بحث سے کہ عقل بڑی کہ بھینس؟ جو لوگ گائے بھینس کو بڑا ماننے پر تلے بیٹھے ہیں انہیں کیسے یہ سمجھایا جائے کہ بڑی بڑی گائے، بھینسوں کے ساتھ آپ اکیسویں صدی کی مہذب دنیا میں شعوری کار فرمائی کا سامنا نہیں کر سکتے۔ مانا کہ عقل کے بالمقابل بھینس کا جثہ بہت بھاری ہے، اگر بھینسا کراکری کی دکان میں داخل ہو جائے تو ہر حساس چیز کو تہس نہس کرکے اس دکان کا فاتح بھی قرار پا سکتا ہے مگر امور مملکت و جہاں بانی کے لیے کسی طاقتور بھینسے کی نہیں عقل و شعور سے بہرہ ور مہذب انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ فردِ واحد یا کوئی گروہ خود کو دانائی کا کتنا بڑا منبع ہی کیوں نہ خیال کرتا ہو، اسے کروڑوں انسانوں کی اجتماعی دانش کے سامنے سرنگوں ہونا پڑے گا۔ صدیوں کے انسانی تجربات کا یہی نچوڑ پوری دنیا تسلیم کر چکی ہے، ہم کس کلیے کے تحت اس سے فرار حاصل کر سکتے ہیں؟

ہم نے آج کی مہذب دنیا میں اس نوع کی حرکات کی ہیں تو پوری دنیا میں مذاق بھی بنے ہوئے ہیں۔ برادر جمہوری ملک ترکی کے حکمران آج اگر یہ سمجھا رہے ہیں کہ پاپولر جمہوری قیادت کو جیلوں میں بند نہ کرو تو ہمارا بھلا ہی کر رہے ہیں۔ پکڑ دھکڑ اور ہائو ہو کا عالم ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت پورے ملک کا بزنس تباہ ہو چکا ہے، جو لوگ پراپرٹی کا کاروبار کرتے ہیں ان سے پوچھ لیں کہ کس قدر مندا ہے۔ اسٹاک ایکسچینج بدتر حالت میں ہے۔ ڈالر کے بالمقابل روپے کی قیمت میں 33فیصد کمی ہو چکی ہے۔ بے یقینی اور سیاسی عدم استحکام کی ایسی فضا میں بیرونِ ملک سے کون یہاں سرمایہ لگانے آئے گا جبکہ ملک میں موجود خود اپنے سرمایہ کار ایسا رسک لینے پر تیار نہیں؟ گزشتہ دور میں ہماری اسٹاک مارکیٹ دنیا کی پانچ بہترین مارکیٹوں میں شمار ہونے لگی تھی جبکہ آج پانچ بدترین مارکیٹوں میں پہنچ چکی ہے۔ GDPجس کا جنوری 2019تک 6.2ٹارگٹ تھا، 5.8سے 3فیصد کی کم تر سطح پر پہنچ چکا ہے۔ ٹیکسز کی وصولی میں جو کمی آئی ہے اُسے دیکھیں یا چار ماہ میں جتنے نئے قرضے چڑھے ہیں اُن کا جائزہ لیں یا گیس اور پٹرول کی قیمتوں کا موازنہ کریں؟ الیکشن سے قبل یہ نوید سنائی جاتی تھی کہ اربوں روپے کی لوٹی ہوئی دولت واپس آئے گی مگر آج ہی اسٹیٹ بینک کا بیان آیا ہے کہ زرِمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 7.28ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ ہمارے وزراء جس نوع کے غیر ذمہ دارانہ بیانات جاری کر رہے ہیں وہ خود جمہوریت اور سسٹم کے ساتھ مذاق ہیں۔ جبکہ عقل و شعور کی باریک بینی اس اصول کا تقاضا کرتی ہے کہ جس کا جو کام ہے وہ خود کو اُسی تک محدود رکھے۔ جیسا تیسا آئین موجود ہے، سب اس کے ضوابط کی پابندی کا حلف نبھائیں اور آئین سے چھیڑ چھاڑ کا تصور اپنے اذہان سے خارج کر دیں۔ آئین سے کسی نوع کی غیر جمہوری چھیڑ خانی درحقیقت اس ملک کی فیڈریشن سے چھیڑ خانی بن کر سامنے آئے گی جو پہلے ہی حالتِ بخار میں ہے۔ خدارا! اس پر رحم فرمائیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)