نیا سال.... احمد ندیم قاسمی

January 09, 2019

رات کی اڑتی ہوئی راکھ سے بوجھل ہے نسیم

یوں عصا ٹیک کے چلتی ہے کہ رحم آتا ہے

سانس لیتی ہے درختوں کا سہارا لے کر

اور جب اس کے لبادے سے لپٹ کر کوئی

پتہ گرتا ہے تو پتھر سا لڑھک جاتا ہے

شاخیں ہاتھوں میں لیے کتنی ادھوری کلیاں

مانگتی ہیں فقط اک نرم سی جنبش کی دعا

ایسا چپ چاپ ہے سنولائی ہوئی صبح میں شہر

جیسے معبد کسی مرجھائے ہوئے مذہب کا

سر پہ اپنی ہی شکستوں کو اٹھائے ہوئے لوگ

اک دوراہے پہ گروہوں میں کھڑے ہیں تنہا

یک بیک فاصلے تانبے کی طرح بجنے لگے

قدم اٹھتے ہیں تو ذرے بھی صدا دینے لگے

درد کے پیرہن چاک سے جھانکو تو ذرا

مردہ سورج پہ لٹکتے ہوئے میلے بادل

کسی طوفان کی آمد کا پتا دیتے ہیں!