موت کو شکست؟

January 15, 2019

کبھی کبھار روا روی میں لکھ جاتا ہوں کہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے مگر اس حقیقت پر پردہ پڑا ہوا ہے، البتہ اگر کبھی شہر خموشاں سے گزر ہو اور مکینوں کے کتبے پڑھنے کا موقع ملے تو موت کی حقیقت کے نئے نئے پہلو سمجھ میں آتے ہیں۔ جب یہ احساس ہوتا ہے کہ زندگی عارضی ہے اور دنیا کی ہر شے عارضی ہے تو اس احساس سے بہت سے نشے ہرن ہوجاتے ہیں، بہت سے خواب لڑکھرانے لگتے ہیں اور غور و فکر کے انداز بدلنے لگتے ہیں۔ خالق کائنات نے زندگی کو کچھ اس انداز سے تشکیل دیا ہے کہ یہ احساس یا ادراک بھی لمحاتی ہوتا ہے اور پھر انسان حسب معمول دنیا کے کاموں میں اس طرح مشغول ہوجاتا ہے جیسے اسے قیامت تک زندہ رہنا ہے، جیسے موت دوسروں کے لئے ہے اس کے لئے نہیں۔ اسی لئے حضرت ابوبکر صدیق ؓفرمایا کرتے تھے کو موت مانگو نہیں لیکن موت کو یاد کرتے رہو۔ انسان اسے یاد کرتا رہے تو شاید نہ تکبر، غرور اور ہوس کا شکار ہو اور نہ ہی قتل و غارت کا مرتکب، نہ ز بان کی تلوار سے دوسروں کو مجروح کرے اور نہ ہی کسی کی حق تلفی کرے۔

کتاب میرے سامنے کھلی تھی اور میں تصویریں دیکھتے دیکھتے اپنے آپ میں گم تھا۔ ایک عجیب سی کیفیت تھی جسے شاید میں بیان کرنے پہ قدرت نہیں رکھتا۔ ان تصویروں میں بہت سے چہرے شناسا تھے کیونکہ کسی سے گہری دوستی رہی تھی، کوئی سروس میں’’کولیگ‘‘ تھا، کسی سے اچھی شناسائی تھی، کسی سے سرراہ یا کسی محفل میں ملاقات ہوئی تھی، کوئی زندگی میں شہرت و مقبولیت کے اعلیٰ ترین مقام پر جگمگاتا رہا تھا، کسی کی شاعری، کسی کی نثر، کسی کے علم، کسی کی دانشوری، کسی کی سریلی آواز، کسی کے حسن اور کسی کی عالمانہ کتابوں اور تقاریر کے چرچے چار سو تھے۔ کوئی بڑا صنعتکار، کوئی بڑا کھلاڑی، کوئی سیاستدان اور کوئی اپنے زمانے کا بڑا مقرر تھا لیکن آج سب کے سب منوں مٹی کے نیچے سو رہے تھے۔ انہیں عزیز و اقارب کندھوں پر اٹھا کر قبر میں اتار آئے تھے جہاں دولت، شہرت، علم، طاقت، اقتدار، حسن حتیٰ کہ کچھ بھی کام نہیں آتا بجز نیکی کے۔ ان کے نام بھی اس لئے مانوس ہیں کہ یہ ہمارے ہم عصر تھے۔ کچھ ہی عرصے بعد زمانہ ان کے ناموں سے بھی ناآشنا ہوجائے گا۔ عجیب بات ہے کہ چند ایک حضرات جو سروس میں مجھ سے سینئر تھے مگر ان سے آشنائی تھی ان کی موت کی خبر بھی اس کتاب سے ملی۔ یہ ہے زندگی، ایک وقت ہم اکٹھے ہوتے ہیں، ہر روز ملتے ہیں لیکن پھر زندگی یوں بکھیر دیتی ہے کہ کون کب پیوند خاک ہوا پتہ ہی نہیں چلتا۔ خزاں کے موسم میں ہرے بھرے پتے زرد اور خشک ہو کر ٹہنیوں سے گرتے رہتے ہیں اور کوڑے’’شوڑے‘‘ کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ اسی طرح انسان بھی زندگی کی ٹہنیوں سے پژمردہ ہو کر گرتا اور سانس سے ناتا توڑتا رہتا ہے مگر زندگی کی حرص و ہوس اور بھاگ دوڑ میں شریک لوگوں کو خبر تک نہیں ہوتی کہ کون کہا ں گرا۔ زندگی کی بے ثباتی کی کیفیت طاری ہو تو ان فرعونوں پہ رحم آتا ہے جو اقتدار کے تخت پر بیٹھ کر یا قارون کےخزانے کو اپنے بینک اکائونٹ میں سجا کر یا اپنی شہرت اور دانشوری کے زور پر دوسروں کو لتاڑتے یا مجروح کرتے ہیں یا اس طرح بات کرتے ہیں جیسے وہ حرف آخر ہوں اور دنیا بھر کی دانش ان کی مرہون منت ہو۔ مجھے تو ان بیچاروں پر بھی ترس آتا ہے جو سرشام ٹی وی پر بیٹھ کر اپنے آقائوں کے قصیدے پڑھنے اور ان کی غلط کاریوں کا دفاع کرنے کے لئے اپنی صلاحیتیں صرف کرتے ہیں۔ اس خدمت کے عوض زیادہ سے زیادہ کوئی سیاسی عہدہ، مالی منفعت یا شاباش مل جائے گی لیکن اس کذب بیانی سے اعمال نامہ جس طرح سیاہ ہوتا ہے اس کا انہیں احساس ہی نہیں۔ کل ہی مجھے یہ کتاب ملی۔ اس کا نام ہے’’وفیات مشاہیر لاہور‘‘ اور مصنف ہیں ڈاکٹر محمد منیر احمد سیلچ۔ اس کتاب میں 14اگست 1947سے لے کر 14اگست 2018 تک وفات پانے والے اور لاہور میں مدفون مشاہیر کے احوال اور تصویریں شامل ہیں۔ سچ یہ ہے کہ مصنف نے تحقیق کا حق ادا کردیا ہے اور عرق ریزی کی مثال قائم کردی ہے۔

زندگی کی ایک بڑی حقیقت عشق ہے اور سچا عشق، عشق الٰہی اور عشق رسولؐ ہوتا ہے جو انسان کو زندگی اور موت دونوں میں امر بنا جاتا ہے۔ ایک عاشق رسول ؐ محمد سعید بدر کا نعتیہ کلام’’عرض تمنا‘‘ کی شکل میں ملا تو میں پیش لفظ میں ہی ڈوب کر رہ گیا۔ نعت عشق ہے اور میں اس پہ تبصرہ کرنے کا ہرگز اہل نہیں۔ سچ یہ ہے کہ پیش لفظ میں لکھے اس واقعے نے مجھے اپنے اندر جذب کرلیا اور میں آگے بڑھ نہ سکا۔ مصنف کی زبانی سنیے! مدینہ منورہ میں ’’حاضری کے لئے مزار پرُانوار پر پہنچا تو بےپناہ رش تھا، روضہ اقدس کی تنگ گلی پر سنگدل شرطے براجمان تھے جو روضہ اقدس کی طرف بالکل جانے ہی نہیں دیتے۔ راقم معذوری کی وجہ سے وہیل چیئر پر بیٹھا تھا۔ مزار اقدس قریب آیا تو راقم بے اختیار عالم تصور میں کھو گیا’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیک و آلک وسلم۔ مجبور اور بےبس ہوں کیا کروں۔ اپنی بےبسی یہ بہت رونا آیا۔ اس تصور میں محو تھا کہ اچانک ایک باریش ادھیڑ عمر شخص نمودار ہوا اور اس نے مجھے وہیل چیئر سے اترنے کا کہا، چیئر سے نیچے اترا، اس نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا پلیز یہاں کھڑے ہوجائیں آپ کو جگہ چاہئے تھی وہ میں نے لے دی۔ اب کھڑے ہو کر جو چاہو کرو درود شریف پڑھو یا سلام پیش کرو، یوں محسوس ہوا جیسے دنیا و جہاں کے خزانے مل گئے ہیں۔ گھنٹہ بھر دیوار کے ساتھ باادب کھڑا درودشریف پڑھتا رہا، اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے باہر آیا تو دو چار حضرات بھاگ کر میرے پاس آئے، وہ پوچھ رہے تھے یہ آدمی کون تھا؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں اسے نہیں جانتا جانے وہ کون تھا؟ بعد میں اسے بہت ڈھونڈا لیکن کہیں نظر نہیں آیا۔‘‘

موت برحق ہے اور ہر ذی روح کا مقدر ہے۔ اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا، ماسوا سچے عشق کے۔ سچا عاشق آنکھوں سے اوجھل بھی ہوجائے تو دلوں میں عقیدت کی روشنی کے ساتھ زندہ رہتا ہے اور تا قیامت زندہ رہے گا۔ گویا وہ موت قبول کرکے موت کو شکست دے دیتا ہے۔