پولیو کا خطرہ

January 16, 2019

اس سے زیادہ تشویشناک بات اور کیا ہو گی کہ جس مرض پر دنیا کے پسماندہ ترین ممالک بھی قابو پاچکے ہیں پاکستان میں نہ صرف موجود ہے بلکہ اس کے بڑھنے کا بھی اندیشہ ہے۔ وزیر اعظم کے معاون برائے انسداد پولیو نے کہا ہے کہ ملک بھر کے 8شہروں کے گندے پانی میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جن میں لاہور، کراچی، پشاور، بنوں، راولپنڈی، قلعہ عبداللہ، پشین اور کوئٹہ شامل ہیں۔ حکومت کے مطابق اس موذی مرض سے پاکستان کو پاک کرنے کے لئے اکیس جنوری سے ملک گیر مہم شروع کی جائے گی۔ پولیو ایک متعدی بیماری ہے جو شخص در شخص منتقل ہو سکتی ہے ۔ اعصابی نظام کو کمزور اور مفلوج کرنے والی اس بیماری کا تاحال کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا سوائے اس کے کہ اس سے بچائو کے لئے ویکسین استعمال کی جائے کہ اس بیماری کا وائرس حملہ آور بھی ہو تو بدن کا مضبوط مدافعتی نظام اس کے وار کو ناکام بنا دے۔ 1998ء تک پولیو تقریباً پوری دنیا میں موجود تھا اور براعظم افریقہ کے تمام ممالک اس سے شدید متاثر تھے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ صحت اور دنیا نے اس مرض کے خلاف ہنگامی بنیادوں پر کام کیا اور اب یہ مرض صرف افغانستان اور پاکستان میں موجود ہے۔ اس کی وجہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پولیو کی ویکسین پلانے کے بارے میں افواہیں اڑانے کے بعد بیشتر لوگوں نے اپنے بچوں کو پولیو کی ویکسین کے قطرے پلانے سے احتراز کیا۔ یہی نہیں خیبر پختونخوا کے چند علاقوں میں تو انسدادِ پولیو مہم کی ٹیموں پر حملوں کے افسوسناک واقعات بھی ہوئے جس پر حکومت نے ان ٹیموں کو سیکورٹی فراہم کی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام میں آگاہی پیدا کی جائے کہ ان کی غفلت ان کے بچے کو عمربھر کیلئے مفلوج بنا سکتی ہے۔ اساتذہ اور علماء کرام اس حوالے سے لوگوں کو باور کرائیں کہ پولیو ویکسین کے بارے میں پھیلائی گئی افواہوں میں کوئی صداقت نہیں کہ یہ بانجھ پن کا باعث بنتا ہے۔ بحیثیت پاکستانی یہ ہر شہری کا فریضہ ہے کہ حکومتی مہم کو کامیاب بنا کر پاکستان کو پولیو فری بنانےمیں اپنا موثر کردار ادا کرے۔