غزل: اچانک دل ربا موسم کا دل آزار ہو جانا

January 16, 2019

ادا جعفری

اچانک دل ربا موسم کا دل آزار ہو جانا

دعا آساں نہیں رہنا سخن دشوار ہو جانا

تمہیں دیکھیں نگاہیں اور تم کو ہی نہیں دیکھیں

محبت کے سبھی رشتوں کا یوں نادار ہو جانا

ابھی تو بے نیازی میں تخاطب کی سی خوشبو تھی

ہمیں اچھا لگا تھا درد کا دل دار ہو جانا

اگر سچ اتنا ظالم ہے تو ہم سے جھوٹ ہی بولو

ہمیں آتا ہے پت جھڑکے دنوں گل بار ہو جانا

ابھی کچھ ان کہے الفاظ بھی ہیں کنج مژگاں میں

اگر تم اس طرف آؤ صبا رفتار ہو جانا

ہوا تو ہم سفر ٹھہری سمجھ میں کس طرح آئے

ہواؤں کا ہماری راہ میں دیوار ہو جانا

ابھی تو سلسلہ اپنا زمیں سے آسماں تک تھا

ابھی دیکھا تھا راتوں کا سحر آثار ہو جانا

ہمارے شہر کے لوگوں کا اب احوال اتنا ہے

کبھی اخبار پڑھ لینا کبھی اخبار ہو جانا