شیخ الاسلام کا نسخہ کیمیا (2)

December 28, 2012

کئی برس قبل بھارت کے یوم آزادی پر دور درشن کے ایک پروگرام میں سارے سابق وزرائے اعظم کو جمع کرکے پوچھا گیا کہ ساٹھ دہائیوں کے دوران بھارت کی سب سے بڑی کامیابی کیا ہے۔ سب کی رائے ایک ہی تھی ”جمہوریت کا تسلسل“۔ بھارت کی جمہوریت میں سیکڑوں چھید سہی۔ غربت، ناخواندگی، کرپشن اور بدحکومتی جیسے مسائل وہاں بھی ہیں۔ بے روزگاری وہاں بھی پھنکار رہی ہے۔مسلم اقلیت پہ جبر ناروا کی کہانیاں تواتر سے آتی رہتی ہیں لیکن تمام تر ناہمواریوں کے باوجود جمہوریت، مستقیم راہوں پہ چل رہی ہے۔ بھارت قوموں کی برادری میں آگے بڑھ رہا ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا چھٹا مستقل ممبر ہوگا۔
جمہوریت کے استحکام کے کئی اسباب و محرکات میں سے ایک یہ ہے کہ ریاست، قومی تشخص کے حوالے سے بے حد حساس ہے کسی بھی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کر لینے والا شخص، بھارت کا شہری نہیں رہتا،اس کا پاسپورٹ منسوخ ہوجاتا ہے اور اپنے موروثی وطن آنے کیلئے اسے غیر ملکیوں کی طرح ویزا حاصل کرنا ہوتاہے۔ مجھے اس کا تذکرہ کرنے کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ شیخ الاسلام علامہ طاہر القادری نے ایک انگریزی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا۔ میں پیدائشی طور پر پاکستانی ہوں،کینیڈا کی شہریت میرا اختیاری فعل ہے۔ میں اس جملے کی تفسیر برادرم عطاء الحق قاسمی پہ چھوڑتے ہوئے یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر حضرت نے بھارت میں جنم لیا ہوتا اور یوں شعوری و اختیاری طور پر کینیڈا کی شہریت لے لی ہوتی تو انہیں بھارت آنے کیلئے ویزا لینا پڑتا، ٹھوس وجوہات بتانا پڑتیں۔ اس محدود دنوں کیلئے ویزا مل جاتا تو وہ بھارت کے کسی مخصوص علاقے کی معینہ حدوں سے باہر نہ نکل پاتے۔ ویزا کی مدت سے ایک دن بھی اوپر ہو جاتا تو پولیس گھر کے دروازے پہ دستک دیتی اور حضرت کو گاڑی میں بٹھا کے لے جاتی۔
لیکن یہ پاکستان ہے سو شیخ الاسلام شعوری و اختیاری طور پر کینیڈا کی شہریت قبول کرلینے اور ملکہ برطانیہ سے عہد وفا باندھنے کے باوجود پاکستانی بھی ہیں۔ وہ یہاں رہیں نہ رہیں، یہاں کے دکھ اور آزار سہیں نہ سہیں، یہاں کے بے کل دن اور بے قرار راتیں گزاریں نہ گزاریں ، یہاں کی بپھری ہوئی دہشت گردی اور لاقانونیت کی مار کھائیں نہ کھائیں، انہیں اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ایک نااہل اور بدعنوان حکومت کے پانچ سالہ عہد کے دوران تو کینیڈا کے کسی برفانی غار میں، مراقبے کی حالت میں بیٹھے رہیں لیکن جونہی انتخابات کا ناقوس بجے اور تبدیلی کے امکانات طلوع ہوں، وہ یکایک مراقبے سے سر اٹھائیں اور پاکستان آکر سارے نظام کو تلپٹ کرنے کے درپے ہوجائیں۔
شیخ الاسلام کے135منٹ پر محیط ارشادات کو کتنا ہی نچوڑا جائے، کتنا ہی عرق کشید کرنے کی کوشش کی جائے، مدعا صرف اتنا ہی ہے کہ وہ لمبے عرصے کے لئے انتخابات کا التوا چاہتے ہیں۔ اپنے خطبہٴ عالیہ کی پوری عمارت انہوں نے آئین کی اساس پر اٹھائی۔ بار بار مختلف آرٹیکلز کا حوالہ دیتے رہے لیکن نگران حکومت کے حوالے سے آئین کے ایک واضح اور دو ٹوک آرٹیکل کو ”مک مکا“ کا نام دے کر مسترد کردیا۔ اگر آئین مقدس ہے تو اس کا ایک ایک حرف مقدس ہے۔ جناب شیخ کو یہ استحقاق کیسے حاصل ہوگیا کہ وہ کچھ شقوں کی تقدیس کو جواز بناکر انتخابات کا دفتر ہی لپیٹ دیں اور اسی آئین میں درج ایک دوسری شق کو پائے حقارت سے ٹھکراتے ہوئے ”مک مکا“ کہہ دیں۔ اس دہرے معیار کی کوئی دلیل ہے حضرت کی زنبیل میں؟
علامہ صاحب نے آئین کے آرٹیکل 254 کی عجب تشریح فرمائی ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت شیخ الاسلام ایک کار خاص کی خاطر محض نوّے دن کے لئے وجود میں آنے والی حکومت کا دائرہ اقتدار سال ہا سال پر محیط کرکے اسے وسیع تر اصلاحاتی ایجنڈے کی تشکیل اور احتساب کا حق بھی دینا چاہتے ہیں۔ آئین و قانون کے کسی ایک بھی نامور ماہر نے حضرت کی اس تشریح سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین کا مذکورہ آرٹیکل کسی ناگہانی آفت، کسی افتاد، کسی انہونی اور کسی ناگزیر مجبوری کے باعث معینہ وقت میں نہ ہوسکنے والے کام کو تحفظ دیتا ہے لیکن پہلے سے کسی طے شدہ منصوبے کے تحت کوئی خوئے بیمار رکھنے والا گروہ اس آئینی آرٹیکل کی آڑ میں اپنے پاؤں چادر سے دور باہر تک نہیں پھیلا سکتا۔ معروف وکیل سلمان اکرم راجہ نے اس تعبیر کو شرارت پر مبنی لغو اور بے معنی بات قرار دیا ہے۔
شیخ الاسلام یہ بتانے سے بھی قاصر رہے کہ کس آئینی ضابطے کے تحت، نگراں وزیراعظم یا حکومت کے لئے فوج اور عدلیہ سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جائے۔کون لوگ ہوں جنہیں ایسے افراد کے چناؤ کا حق دیا جائے جو نگراں حکومت کا حصہ بنیں اور جن کے پیراہن سے فرشتوں کے پروں کی خوشبو آرہی ہو؟ تاریخ ساز جلسے سے قبل اپنی تحریروں اور تقریروں میں شیخ الاسلام، انتخابات کے لئے تین پیشگی شرائط ضروری قرار دیتے رہے ہیں۔ غربت کا خاتمہ، جہالت و ناخواندگی کا خاتمہ اور سماجی عدم تحفظ کا خاتمہ، کسی ذی ہوش سے پوچھئے کہ ان شرائط کی تکمیل میں کم سے کم کتنا وقت لگے گا؟ اور عراق سے حضرت کا تجویز کردہ تریاق آنے تک اس مارگزیدہ جمہوریت پر کیا گزرے گی؟
کینیڈا کے شیخ الاسلام نے شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پاکستانی جمہوریت و سیاست پر کھل کر سنگ باری کی۔ ”سیاست نہیں ریاست“ کے عنوان سے انہوں نے دراصل اپنی سیاسی قوت کا بھرپور مظاہرہ کیا، سرتاپا ایک سیاسی تقریر کی، ایک بھرپور سیاسی ایجنڈا دیا اور پھر ایک سیاسی لانگ مارچ کی کال دی۔ یہ سب کچھ انہوں نے اپنی رجسٹرڈ سیاسی جماعت ”پاکستان عوامی تحریک“ کے بجائے ”تحریک منہاج القرآن“ کے نام پر کیا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ”منہاج القرآن“کے پرچم تلے منعقد ہونے والے اس عظیم اجتماع میں حضرت نے پاکستان میں قرآن و سنت کی فرمانروائی، اللہ کی حاکمیت، اسلامی نظام عدل و انصاف، اسلامی قوانین، اسلامی طرز معیشت کے حوالے سے کچھ نہیں کہا۔ ٹیکسوں کے نظام کی اصلاح، جاگیرداری کے خاتمے، زمینوں کی تقسیم وغیرہ کا وہی ایجنڈا دیا جو روایتی سیاسی اور سیکولر جماعتوں کی پہچان ہے۔
معلوم نہیں ان خبروں میں کتنی صداقت ہے کہ ایف بی آر نے شیخ الاسلام کے جلسے اور قومی تاریخ کی سب سے بڑی اشتہاری مہم پر اٹھنے والے اخراجات کی تحقیق شروع کردی ہے۔ ہمارے ہاں ایسی روایتیں کم کم ہیں لیکن ضرور سراغ لگنا چاہئے کہ بعض ذرائع کے مطابق ایک ارب روپے سے زائد خرچ ہونے والی رقم کا سرچشمہ کیا ہے؟ شیخ الاسلام کے بقول عورتوں نے اپنے زیور بیچ دیئے، لوگوں نے مال مویشی فروخت کردیئے۔ اگر ایسا ہی ہے تو ان نیک و پاکباز خواتین اور مردوں کے دلوں میں یقینا اسلام کی سربلندی یا کسی بڑے کارخیر کا مقدس جذبہ ہوگا۔ ایسی عقیدت میں گندھی پونجی کو سیاسی نظام تلپٹ کرنے کے کسی بے ذوق سرکس پہ اڑا دینا، کون سے اسلام میں روا اور کس آئین میں جائز ہے۔
ایم کیو ایم کے سوا تمام جماعتوں نے شیخ الاسلام کے مارچ سے لاتعلقی ظاہر کردی ہے۔ فوج نے بالواسطہ اور الیکشن کمیشن نے براہ راست انتخابات کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ میڈیا نے بہ یک آواز ہو کر شیخ صاحب کا ایجنڈا مسترد کردیا ہے۔ یہ اس پاکستان کا عزم ہے جو حضرت کی کینیڈا نشینی کے دوران کافی بدل چکا ہے۔ شیخ الاسلام اپنا نسخہ کیمیا، اپنی پوٹلی میں ڈال کر اپنے اختیاری وطن کو سدھار جائیں تو اس قوم پر بڑا احسان ہوگا جو کسی نئے نجات دہندہ کے نام پر اپنی منزل کھوٹی کرنے کے لئے تیار نہیں۔