نیو ڈیل یا نو ڈیل!

January 21, 2019

رابطہ … مریم فیصل
وزیر اعظم تھریسامے کی پانچ سو پچاسی صفحات پرمشتمل ڈیل کو تو وزراء کی اکثریت نے مسترد کردیا لیکن عدم اعتماد کی تحریک میں ان کی وزرات کی کرسی ضرور بچ گئی ۔ اس کرسی کو بچانے میں ان کی کابینہ کے وزراء کے ساتھ کچھ باغی ارکان کا بھی کمال ہے جو کہ شاید فی الوقت ملک میں کسی نئے وزیر اعطم کی ضرورت محسوس نہیں کر رہے اور ویسے بھی تھریسامے بطور وزیر اعظم اپنا کام بالکل ایمانداری سے کر رہی ہیں اس لئے انھیں ہٹاکر دوسرے وزیر اعظم کو لانے کی وجہ بھی نہیں بنتی ہے۔ مسزتھریسامے کو ششیں کررہی ہیں کہ کسی طرح اس بریگزٹ کی نیاپار لگ جائے تو کچھ سکون ہو۔اب جبکہ وہ انیس ووٹوں کی مدد سے وزیر اعظم برقرار ہیں تو انھوں نے فورا ہی بنا کسی تعطل کے دوسری سیاسی پارٹیوں کے لیڈرروں سے ملاقاتیں کرنا بھی شروع کردی ہے تاکہ ڈیل کی ناکامی کے بعد کوئی دوسرا متبادل نکالا جا سکے لیکن ملک کی دوسری بڑی پارٹی جو کہ اس وقت اپوزیشن جماعت ہے،کے لیڈر جیرمی کوربن کسی بھی قسم کی بات چیت کے لئے تیار نظر نہیں آتے ہیں ان کی نگاہیں صرف اس بات پر ٹکی ہیں کہ حکومت کو نااہل ثابت کرکے لیبرپارٹی کو حکومت بنا دیا جائے اس کے لئے نو ڈیل بریگزٹ ان کا نعرہ بنا ہوا ہے ۔ مسزتھریسامے ان کوبار بارپیغام دے رہی ہیں کہ بریگزٹ پلان پر بات کر لیں لیکن وہ فی الحال ہٹ دھڑمی کا مظاہرہ کرتے نظر آرہے ہیں ۔لیکن وزیر اعظم کے پاس اپنی حکومت کو سنبھال لینے کے بعد کچھ آپشنز موجود ہیں جن پر عمل کر کے وہ اس عارضی انتشار سے نکل سکتی ہیں ۔ جس کے پہلے قدم کے طور پر وہ اسی ہفتے کچھ تبدیلیوں کے ساتھ پرانی ڈیل پیش کرنے کا اعلان کر چکی ہیں اب اس میں وہ کیا تبدیلیاں لائیں گی اور کیا نئی پرانی ڈیل کا یہ مکسچر تمام ارکان پارلیمینٹ کو منظور ہو گا اس کا فیصلہ بھی جلد ہی ہو جا ئےگا۔ دوسرے آپشنز میں وہ بنا کسی ڈیل کے ہی بریگزٹ کا عمل مکمل کر سکتی ہیں جو کہ ملکی معیشت کے مفاد میں نظر نہیں آتا۔ کیونکہ کسی ڈیل کے ساتھ علیحدگی میں فریقین کے حقوق و فرائض کی ادائیگی آسان ہو گی ۔ وہ دوبارہ سے یورپی یونین کے ساتھ بات چیت بھی کرسکتی ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ انتیس مارچ کے وقت کو تاخیر کا شکار کر دیا جائے جس کے لئے قانونی پیچیدگیاں اپنی جگہ ہیں ۔وہ ایک اور ریفرنڈم بھی کرواسکتی ہیں جو اب ڈھائی سال کے بعد پہلے ہونے والے ریفرنڈم کے نتائج کے الٹ بھی ہوسکتا ہے جس کے بعد بریگزٹ کاپھیلایا ہو یہ تمام تام جھام ختم بھی ہوسکتا ہے ۔ آخری آپشن ان کے پاس عام انتخابات کا ہے لیکن دوبارہ ریفرنڈم یا انتخابات، ان کے لئے وقت درکار ہے اور وقت اب بہت کم ہے فیصلہ انتیس مارچ تک ہی ہو جانا چاہیے ۔ ابہام بہت ہیں ہر نیا شروع ہونے والا ہفتہ یہ امید دلاتا ہے کہ اب کچھ فیصلہ ہو جائے گا لیکن وزراء کا اختلاف رائے کسی نتیجے پر پہنچنے نہیں دے رہا ہے ۔لیکن اس تمام مذاکرات اوراختلافات میں جو بات قابل تعریف اور قابل ذکر ہے وہ جمہوری عمل کی شفافیت ہے کہ ْ یہ جو بھی بریگزٹ کی بات چیت ہے وہ پارلیمان کے ذریعے ہی کی جارہی ہے اگر وزراء میں اختلاف ہے تو وہ صرف پارلیمان کے سیشنز میں ہی نظر آرہا ہے کہیں کوئی سیاسی لیڈر یا اپوزیشن ارکان حکومت کے خلاف بیان نہیں دے رہا۔ کہیں کوئی جلسہ، جلوس یا پہیہ جام کی کیفیت نہیں ہے ۔ اسی لئے برطانیہ کو جمہوریت کی ماں کہا گیا ہے جہاں عوام کے کئے گئے فیصلے کو مکمل کرنے کے لئے تمام بات چیت اور اختلاف رائے پارلیمان کی چھت تلے ہی کئے جاتے ہیں ۔اسے ہی مضبوط پارلیمانی نظام کہا جاتا ہے جو ہر ملک کے لئے ایک مثال ہے ۔