سانحہ ٔساہیوال:غیرجانبدارانہ انکوائری ناگزیر

January 24, 2019

وزیراعلیٰ پنجاب کی یقین دہانی کے مطابق سانحہ ساہیوال کے حقائق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی حتمی رپورٹ کی شکل میں تین دن میں قوم کے سامنے لائے جانے تھے لیکن گزشتہ روز جے آئی ٹی کے سربراہ محض ایک ابتدائی رپورٹ پیش کرسکے جس سے اس ناقابل فہم کارروائی کے تضادات اور الجھاووں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں جے آئی ٹی کے سربراہ نے یہ ابتدائی رپورٹ اس وضاحت کے ساتھ پیش کی کہ اصل حقائق تک پہنچنے کے لیے کم از کم تیس دن کی مدت درکار ہے لیکن صوبائی وزیر قانون نے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے اسی نامکمل رپورٹ کی بنیاد پر سی ٹی ڈی کے آپریشن کو سو فی صد درست قرار دینے کے ساتھ ساتھ یہ موقف اختیار کیا کہ مظلوم خاندان کے سربراہ خلیل اور اس کی بیوی اور بچی کا قتل جرم تھا، خلیل بے گناہ تھا اور سی ٹی ڈی کے متعلقہ اہلکار قتل کے مرتکب ہوئے ہیں جس کی بنا پر پانچ سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف قتل عمد کی دفعہ 302 کے تحت کارروائی ہوگی جبکہ دو متعلقہ ایڈیشنل آئی جی، ایک ڈی آئی جی اور ایک ایس ایس پی کو فارغ اور ڈی ایس پی سی ٹی ڈی کو معطل کردیا گیا ہے۔وزیر قانون کی جانب سے آپریشن کے سوفی صد درست ہونے کے دعوے کی بنیاد ڈرائیور ذیشان کا دہشت گرد باور کیا جانا ہے لیکن ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ وزیر موصوف ایک طرف ذیشان کو مجرم بتاتے اور دوسری طرف یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس کے بارے میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم مزید تحقیقات کرے گی۔حالانکہ جتنے پُرزور انداز میں وہ آپریشن کو مکمل طور پر درست ٹھہرارہے ہیں اس کا تقاضا تھا کہ ذیشان کے دہشت گرد ہونے کے یقینی ثبوت بھی اس دعوے کے ساتھ ہی قوم کے سامنے پیش کردیتے لیکن کم از کم تادم تحریر ایسا کوئی ٹھوس ثبوت پولیس اور حکام سامنے نہیں لاسکے ہیں۔ اگر ذیشان کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ایسے قابلِ اعتبار شواہد منظر عام پر لائے جاسکیں جن سے اس کا ماورائے عدالت قتل جائز ثابت ہوتا ہو تو حکومت سانحۂ ساہیوال کے معاملے میں اپنی موجودہ کمزور پوزیشن سے بڑی حد تک نجات پاسکتی ہے لیکن خود جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ میں ذیشان کے بارے میں مزید تحقیقات کیلئے وقت مانگا گیا ہے۔ جے آئی ٹی کے سربراہ کے بقول ’’جب تک ساری چیزیں واضح نہ ہوجائیں اس وقت تک کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ابتدائی شہادتوں اور لیبارٹری سے تجزیہ آنے کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچیں گے اور لیبارٹری تجزیہ آنے کے بعد ہی رپورٹ وزیراعلیٰ کو پیش کریں گے‘‘۔تاہم جے آئی ٹی کی تحقیقات پر بھی سخت شکوک و شبہات ظاہر کیے جارہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق تفتیش کیلئے فرانزک لیبارٹری کو ادھوری چیزیں بھیجی گئی ہیں۔ لیبارٹری کو سب مشین گنوںسے چلی ہوئی 45 گولیوں کے خول بھیجے گئے جب کہ سب مشین گنیں اور پوسٹ مارٹم سے ملی گولیاں نہیں دی گئیں جس کی وجہ سے تجزیہ کرنا مشکل ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی سربراہ نے جائے وقوعہ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی نیز حقائق کو مسخ کرنے کی خاطر واقعے کے بعد گاڑی میں خودکش جیکٹ اور اسلحہ رکھا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی نہ تو متاثرہ گاڑی کی فرانزک جانچ پڑتال کروا سکی اور نہ ہی متاثرہ خاندان کے افراد سمیت واقعہ کے عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کر سکی۔ یہ وہ عوامل ہیں جن کی بنا پر جے آئی ٹی کی تحقیقات ابتداء ہی میں مشتبہ ہوگئی ہیں اور صورتِ حال کی پُراسراریت ختم ہونے کے بجائے بڑھتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف قومی اسمبلی میں سانحۂ ساہیوال کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا ہے اور دوسری طرف چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے واقعے کی عدالتی تحقیقات کی درخواست پر کارروائی شروع کردی ہے۔ لہٰذا بہتر ہوگا کہ پورے ملک کو ہلاڈالنے والے اس سانحے کے حقائق بلاکم و کاست سامنے لانے، ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے بے لاگ اور کھلی عدالتی تحقیقات کا اہتمام کیا جائے تاکہ انصاف کے تقاضے اطمینان بخش طور پر پورے ہوسکیں۔ مکمل طور پر شفاف عدالتی تحقیقات متاثرہ افراد اور پوری قوم کیلئے بھی باعث اطمینان ہوگی اور کسی کی جانب سے حکومت کی نیک نیتی پر حرف گیری بھی ممکن نہیں ہوگی۔