پاکستان۔ روس تعلقات

March 05, 2016

پاکستان روس تعلقات کے حوالے سے ماضی قریب میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ اول یہ کہ ماسکو نے ایک مدت سے اسلام آباد پر دفاعی سازوسامان کی فراہمی کے حوالے سے عائد پابندی ختم کردی ہے جس پر عملدرآمد کی عملی شکل اس وقت سامنے آئی جب 18 اگست 2015ء کو چار عدد M1-35ہیلی کاپٹروں کی پاکستان کو فراہمی کے معاہدہ پر دستخط ہوئے۔ نومبر 2015ء میں دونوں ممالک کے مابین ایک اور اہم معاہدہ طے پایا جس کے تحت روس، کراچی اور لاہور کے درمیان گیس پائپ لائن کی تعمیر پر دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریگا اور اس اہم پروجیکٹ کے افتتاح کیلئے صدر ولادی میر پیوٹن مناسب وقت پر پاکستان کا دورہ کریں گے موصوف اس حوالے سے وزیراعظم نوازشریف کی دعوت قبول کر چکے ہیں۔
سیانے سچ کہتے ہیں کہ بین الریاستی معاملات میں دوستیاں مستقل ہوتی ہیں، نہ دشمنیاں۔ اگر کسی چیز کو دوام ہے تو وہ ہیں ریاستوں کے قومی مفادات۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان۔ روس تعلقات میں روایتی گرم جوشی روز اول سے ہی مفقود رہی ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ بہت سے دانشور اس کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دیتے ہیں کہ وزیراعظم لیاقت علی خان روس کی دعوت ٹھکرا کر ماسکو کی بجائے واشنگٹن چلے گئے تھے جو کہ حقائق کے یکسر منافی ہے اور جس کا تفصیلی تذکرہ راقم اپنے ایک کالم ’’لیاقت علی خان ماسکو کیوں نہ جاسکے؟‘‘ میں کر چکا ہے۔ یاد رہے کہ لیاقت علی خان نے دورہ امریکہ 1950ء میں کیا تھا جبکہ سال پہلے (1949) یہ ’’جرم‘‘ وزیراعظم ہند جواہر لعل نہرو سے بھی سرزد ہو چکا تھا اور اس کے باوجود ماسکو اور نئی دہلی کی قربتوں میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔ اصل میں ساری بات ترجیحات کی تھی۔ تقسیم کے ساتھ ہی روس نے بھارت کو فیورٹ کے طور پر ٹک کر لیا تھا اور پاکستان کا قرب شاید اسے سوٹ نہیں کرتا تھا۔ پھر جوں جوں بھارت اور روس میں انسیت بڑھتی گئی پاکستان کو اپنی سلامتی کی غرض سے امریکہ کا سہارا لینا پڑا۔ سیٹو اور سینٹو میں شمولیت اسی سوچ کا شاخسانہ تھی۔ ان معاہدوں میں پاکستان کی شرکت نے سوویت یونین کو مزید برانگیختہ کیا اور پاکستان کو اس نے دشمنوں کی فہرست میں شامل کرلیا۔ پشاور کے قریب بڈھ بیر بیس سے ہونے والی امریکی جاسوس طیاروں کی سرگرمی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ بھارت اس دوران ماسکو کی تمام تر سفارتی، سیاسی اور دفاعی نوازشات کا مستحق ٹھہرا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں ماسکو کا تمام تر جھکائو نئی دہلی کی جانب رہا جبکہ آزمائش کے اس سمے پاکستان کے نام نہاد اتحادی امریکہ کا طرز عمل معاندانہ تھا۔ پاکستان کی مدد تو درکنار، الٹا ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی عائد کردی۔
یہ وہ وقت تھا جب پاکستان نے سوویت یونین کے قریب ہونے کی شعوری کوشش کی، امریکی چھتری سے نکل کر غیر جانبدار تحریک میں دلچسپی کا اظہار کیا اور جنگ کے بعد بھارت کے ساتھ مذاکرات کیلئے معاونت کی روسی پیشکش قبول کرلی جس کے نتیجے میں تاشقند کا معاہدہ طے پایا۔ اسی زمانہ میں روس کی مدد سےکراچی میں اسٹیل مل قائم ہوئی۔ مگر انسیت کا یہ سلسلہ زیادہ آگے تک نہ جاسکا۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت بدستور روس کے لیے قابل ترجیح رہا حتیٰ کہ 1971ء کی پاک۔ بھارت جنگ سے چند ماہ قبل اگست 1971ء میں روس اور بھارت کے درمیان دوستی اور تعاون کا معاہدہ طے پایا۔ جس کے تحت قرار پایا تھا کہ فریقین میں سے کسی ایک پر حملہ دوسرے پر حملہ سمجھا جائیگا۔ نتیجتاً روس نے بھارت کی کھل کر مدد کی اور بالآخر پاکستان ٹوٹ گیا۔
روس کے اس طرز عمل کے علی الرغم پاکستان کے پاس امریکہ کے ساتھ جڑے رہنے کے علاوہ شاید کوئی اور چارہ کار نہیں تھا اور اس قربت کا نقطہ عروج افغانستان پر روسی یلغار کا زمانہ ہے، جب پاکستان امریکہ کا نہ صرف اتحادی تھا بلکہ روس کے خلاف ’’جہاد‘‘ میں پیش پیش بھی تھا۔ وہ جنگ جو کم و بیش دس برس تک جاری رہی اور جس کے نتیجے میں روس نے افغانستان میں ہزیمت ہی نہیں اٹھائی، اس کی داخلی شکست و ریخت کا عمل بھی اس قدر تیز ہوگیا کہ محض تین برس میں سوویت یونین جیسی سپر پاور ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔ بعد کا عشرہ روس کیلئے بے حد ابتلا کا زمانہ تھا۔ ایک طرف تباہی کے عمل کو روکنا تھا تو دوسری طرف تعمیر نو کا چیلنج درپیش تھا۔ روسی قیادت اس آزمائش میں سرخرو ٹھہری۔
ابتلا کے اس دور میں روسی قیادت کو تحلیل نفسی کے ساتھ ساتھ قومی پالیسیوں میں ردوبدل اور نئے اہداف کے تعین کا موقع بھی ملا۔ انہیں احساس ہوا کہ نائن الیون کے بعد ایک نئی دنیا معرض وجود میں آئی ہے۔ ماضی کا بہت کچھ، ٹوئن ٹاورز کے ساتھ ہی جل کر راکھ ہو چکا ہے۔ نئے دور کے نئے تقاضے ہیں جن سے عہدہ برآ ہونے کے لیے نئے تصورات اور نئی جہتوں کی ضرورت ہوگی۔ روس کو اندازہ ہو گیا کہ اس کا بغل بچہ بھارت اس دوران واشنگٹن کے ساتھ پینگیں بڑھا چکا اور دونوں میں دفاعی اور تزویری معاملات ہنی مون کی حدود سے کہیں آگے تک جا چکے۔ روس پر یہ بھی منکشف ہوگیا کہ اب وہ بھارت کا سب سے بڑا ڈیفنس سپلائز نہیں رہا۔ اس کی جگہ امریکہ نے لے لی ہے چنانچہ ماسکو میں احساس پیدا ہوا کہ اگر نئی دہلی نے قبلہ بدل لیا ہے تو اسے بھی اسلام آباد کی طرف دیکھنے میں عار نہیں ہونا چاہئے۔ خاص طور پر جب نائن الیون کے بعد طالبان سے قطع تعلق کر کے پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اہم کرداربن چکا ہے۔ چنانچہ ماسکو نے اس جراتمندانہ فیصلہ پر عملدرآمد میں پہل کی۔ اپریل 2001 میں روس کے نائب وزیر خارجہ پاکستان آئے اور 2003 میں صدر پرویز مشرف نے روس کا دورہ کیا۔ دو طرفہ تعلقات میں قابل ذکر بریک تھرو 2007 میں روسی وزیراعظم کے دورہ پاکستان سے ہوا جس کی اہمیت یوں بھی تھی کہ 38 برس میں کسی روسی وزیراعظم کا پاکستان کا وہ پہلا دورہ تھا۔ سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ اس دوران دونوں ملکوں کی عسکری قیادت بھی رابطے میں رہی روس کے آرمی چیف کے دورہ پاکستان کے جواب میں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی 2012ء میں ماسکو گئے۔ اس دورہ کی خاص بات یہ تھی کہ روس کے وزیر دفاع نے جنرل کیانی سے ملاقات کی خاطر پہلے سے طے شدہ دورہ بھارت منسوخ کردیا تھا۔
گزشتہ چند برسوں میں خطے کے زمینی حقائق تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں۔ ابتلا اور شکست و ریخت کے دور سے نکل کر روس کی نشاط ثانیہ کی ابتدا ہو چکی اور وہ پھر سے عالمی طاقت بننے جارہا ہے۔ ماضی کی غلطیوں، کوتاہیوں سے قطع نظر پاکستان کو روس کے ساتھ تعاون کا یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ روس کو بھی جوہری طاقت پاکستان کی اہمیت کا اندازہ ہو چکا کہ خطےکے تیزی سے بدلتے ہوئے منظر نامہ میں اسلام آباد کا کردار ایک ایسے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جسے کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ شام کے بگڑتے ہوئے حالات روس، چین اور ایران کو باہم قریب لے آئے ہیں۔ جنہوں نے سفارتی ذرائع اور اپنے طرز عمل سے مغرب پر واضح کردیا ہے کہ اسے علاقہ میں کھل کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ افغانستان کے حوالے سے بھی ’’اتحاد ثلاثہ‘‘ کا کم و بیش یہی ایجنڈا ہے کہ امریکہ کے انخلا کے بعد خطے میں امن و سلامتی کے حوالے سے انہیں مل کر کام کرنا ہوگا اور اس حوالے سے پاکستان ان کے ایک موثر معاون کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ آنے والے برسوں میں یہ اتحاد ثلاثہ، اتحاد اربعہ میں بدل جائیگا اور پاکستان بھی روس، چین، ایران کے اہم تزویری ساتھی کی حیثیت سے کام کررہا ہوگا۔
باخبر حلقے یہ بھی بتاتے ہیں کہ تجارت کے شعبے میں بھی روس اور پاکستان کے مابین زبردست قسم کے امکانات موجود ہیں۔ نہ صرف فریقین کی باہمی تجارت میں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے، چین۔ پاکستان اقتصادی راہداری بھی روس کیلئے خاصی پرکشش ثابت ہوسکتی ہے۔ 1979ء میں افغانستان میں روسی مداخلت کی ایک بڑی وجہ گرم پانیوں تک رسائی کی اس کی خواہش بھی بیان کی جاتی ہے جو اب اقتصادی راہداری اور گوادر پورٹ کی تعمیر کے بعد پوری ہوسکتی ہے۔