انسانی جان کتنی ارزاں ہوئی جاتی ہے

February 01, 2019

میں آپ کو دو ملکوں کے دو قصے سناتا ہوں۔ سنئے اور انسانیت اور دردمندی کے پرچے میں بتائیے آ پ ا ن کو کتنے نمبر دیں گے۔کسی کے نمبر اس لئے نہیں کاٹیں گے کہ وہ مسیحی ہے او ر کسی کو رعایتی نمبر اس لئے نہیں دیں گے کہ وہ محراب حرم میں پڑا پہروں دوگانہ پڑھتا ہے۔پہلا واقعہ اسپین کا ہے ۔ وہی ہسپانیہ جہاں فرزندانِ توحید نے صدیوںصداقت اور لیاقت کے پرچم بلند کئے اور فکر و دانش کے ایسے ایسے باب وا کئے جن سے ایک عالم آج تک فیض اٹھاتا ہے (اس میں عالم اسلام شامل نہیں)۔ یہ چند روز پہلے کی بات ہے ۔اسپین کے ایک پہاڑی علاقے میں ایک کنبہ چہل قدمی کر رہا تھا۔ ان کے ساتھ ان کا دو برس کا بچہ بھی تھا جو ہاتھ میں مٹھائی کا پیکٹ لئے کھیلتا کودتا چلا جارہا تھا۔اچانک منظر بدلا۔ بچہ ابھی تھا، ابھی نہیں تھا۔کیا آسمان نے اٹھا لیا یا زمین نگل گئی۔ علاقے کے سارے ہی لوگ بچے کو ڈھونڈنے لگے ۔ پتہ چلا کہ اس کو واقعی زمین نگل گئی ہے۔علاقے میں زیر زمیں پانی تلاش کے لئے وہاں ڈرلنگ کرنے والی مشینوں سے زمین میں آٹھ انچ چوڑا اور بہت ہی گہرا سوراخ کیا گیا تھا۔دو سال کا بچہ کسی طرح سوراخ میں گرگیا اور گرتا ہی چلا گیا۔اس کا مٹھائی کا پیکٹ وہیں پڑا رہ گیا جس سے یقین ہوا کہ اسے زمین نگل گئی ہے۔اب اسے نکالنے کے جتن شروع ہوئے۔ اتنے تنگ سوراخ میں کسی کے اترنے کا ذرا سا بھی امکان نہیں تھا۔جو نہی لوگ ہمّت ہارنے لگے، ریڈیو اور ٹیلی وژن نے بچے کے یوں غائب ہوجانے کی خبریں نشر کرنا شروع کردیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر پورے ملک میں پھیل گئی۔ آس پاس کی آبادی اس جگہ پہنچ گئی جہاں بچہ گم ہوا تھا۔ ہر ایک نے اپنی مہارت کے مطابق مشورے دینا شروع کئے مگر جو بھی سوراخ کے اندر جھانکتا، مایوس ہوکر پیچھے ہٹ جاتا۔ وقت گزرنے لگا اور لوگوں کی تشویش بڑھنے لگی۔ گرجا گھروں میں دعائیں مانگی جانے لگیں، مالدار اداروں نے بھاری انعام کا اعلان کیا۔ بچے کی خیر و عافیت کے لئے شمعیں روشن کی جانے لگیں۔ماہرین سر جو ڑ کے بیٹھے اور سارے کے سارے اس نتیجے پر پہنچے کہ جلد سے جلد جدیدآلات منگوا کر زمین میں سرنگ کھود کر بچے تک پہنچا جائے۔راتوں رات مشینیں وہاں پہنچنے لگیں۔پورے ملک کی نگاہیں خبروں کے ذرائع پر لگی ہوئی تھیں۔ اگلا دن نکل آیا مگر بچے کے نکلنے کے آثار تک نہ تھے۔ گڑھے کے برابر میں ایک اور چوڑا گڑھا کھودا جانے لگا، اتنا چوڑا کہ اس میں انسان اتر سکے۔ دوسر ا دن بھی تمام ہوا، بچے کے زندہ بچ جانے کے امکانات کم ہونے لگے۔ گڑھا کھودنے والوں نے اعلان کیا کہ کچھ بھی ہو ، ہم یہی سوچ کر کام کریں گے کہ بچہ ابھی تک محفوظ ہے۔پہاڑی اور پتھریلا علاقہ تھا اس لئے نیا کنواں کھودنے میں مشکل ہو رہی تھی۔یہاں تک کہ بچے کے بچ جانے کی امید مدھم پڑنے لگی۔ پورا اسپین حوصلہ ہارنے لگا ۔ آخر چوتھے روز اسی گہرائی تک پہنچ کر بچے کی جانب سرنگ کھودی گئی ۔ بچہ کبھی کا مر چکا تھا۔عورتیں،خاص طور پر مائیں پھوٹ پھوٹ کر روئیں۔ پورا ملک سوگوار ہوگیا اور سب ایک دوسرے کو یوں دلاسہ دینے لگے جیسے وہ آپس والوں کا بچہ ہو۔ جن ماں باپ کا وہ بچہ تھا ان کے گھر تعزیتی پیغامات اور گل دستوں کا تانتا بندھ گیا اور یوں ایک خوش باش معاشرہ سوگ میں ڈوب گیا۔یہ ہے زندہ معاشروں کی شان جہا ں انسان کی جان سے بڑھ کر کوئی دوسری شے گراں نہیں،کتنی قیمتی ہے وہ جان چاہے دو برس کے بچے کی ہو ۔ جہاں انسان کی جان بچانے کے لئے لوگ اپنی جان بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں مگر قدرت کی اس مخلوق کو تلف ہوتے دیکھنا انہیں گوارا نہیں۔

یہ ہوا ایک واقعہ۔ دوسرے کے لئے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں، اسی مملکت خداداد، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے علاقے لاہور کا تازہ واقعہ ہے کہ ایک گھرانے میں کام کرنے والی چودہ سال کی خادمہ سے ایک قصور ہوگیا۔ اس نے گھر کی ایک شہزادی کے کھانے کے برتن سے اٹھا کر ایک لقمہ کھا لیا۔بھوکی ہوگی۔ جی نہیں مانا ہوگا۔ انسانی فطرت ہے،اس نے ایک لقمہ اپنے منہ میں رکھ لیا۔بس، غضب ہوگیا۔ گھر کی دو جوان اور توانا لڑکیاں غریب ملازمہ پر ٹوٹ پڑیں ۔اسے مارنا نہیں ، ایذا دینا شروع کی ۔ مارتی گئیں، اتنا مار ا کہ نو عمر ملازمہ کی جان نکل گئی۔ سنا ہے کہ اسی پربس نہیں،لڑکی کی لاش کو اٹھا کر گندے نالے میں پھینک آئیں۔کہنے کو یہ ایک واقعہ ہے لیکن آنکھیں کھول کر اطراف پر نگاہ ڈالیں تویوں لگتا ہے جیسے موت کو چھوٹ مل گئی ہے، وہ چڑیل کی صورت دانت نکوسے ہماری بستیوں میں ، ہمارے گلی کوچوں میں چیختی چلّاتی، دیوانہ وار دوڑ رہی ہے اورجو کوئی اس کی راہ میں آرہا ہے ، بے دریغ اس کے حلق میں دانت گڑو کر وہ اپنے پیچھے لاشوں کے انبار چھوڑے جارہی ہے، کوئی کچرے کے ڈھیر پر، کوئی بارش میں گرنے والی چھت کے تلے، کوئی کمرے میں بھری ہوئی گیس کے ہاتھوں اور کہیں ننھے بچوں کی وین میں لگے سلنڈر کے شعلوں میں جھلسنے والے نو نہالوں کی طرح۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ فکر نہ کرو،لوگ موت کی اس ارزانی کے عادی ہو جائیں گے۔ ہوگا یہ کہ بس آسانی سے مرجایا کریں گے۔

یہ بات سن کر ایک بار تو آسمان کی طرف دیکھنے کو جی چاہتا ہے، سوالیہ نظروں سے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)