مشرقی تہذیب و ثقافت کا فروغ ناگزیر ہے....

February 10, 2019

محمد ریاض علیمی، نیو کراچی

ثقافت کسی بھی معاشرے میں رائج اُن رسوم و رواج اور اقدار کے مجموعے کو کہاجاتاہے، جن پر معاشرےکے بیش تر افراد مشترکہ طور پر عمل کرتے ہیں۔قوموں کی پہچان ثقافت ہی سے ہوتی ہےاور تہذیب وثقافت واِقدار کےفروغ کا ایک اَہم ذریعہ، ذرایع اِبلاغ ،خصوصاًفلم،ٹی وی،ڈراما،تھیٹروغیرہ ہیں۔گزشتہ دو تین دَہائیوں سے جس طرح غیر ملکی تہذیب وثقافت ہمارے معاشرے میںتیزی سے سرایت کر رہی ہے ،اُس کی ایک وجہ غیر مُلکی فلموں، ڈراموںکی یلغار ہے۔ اگر ایک قوم اپنے اِفکارو نظریات کوفراموش کربیٹھے، تو دوسری قوم اپنےنظریات و افکار کے ذریعے اُس پر مسلّط ہوجاتی ہے۔

پاکستانی قوم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ ہم نے جدّت یا ’’ماڈرن اِزم‘‘ کے نام پر غیر ملکی ثقافت ، رہن سہن اور طور طریقوں کو اپنایا، اسی لیے آج ہماری نسل ِ نو اپنی تہذیب و ثقافت سے انجان نظر آتی ہےاورذہنی انحطاط کا شکارہے ۔ ہماری سوچوں پرمغربیّت کا غلبہ ہےاور یہ سب صرف اسلامی اقدارسے پہلو تہی ہی کا نتیجہ ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمانوں نے اپنی پہچان قائم رکھی ، اسلامی افکار و نظریات پر ڈٹے رہے اور اسلامی ثقافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا ، تب تک پوری دنیا پر اُن کی حکم رانی قائم رہی ۔ دنیا کے کونے کونے میں ان کی عِلمیت کا ڈنکا بجتا تھا۔ یہ اُس وقت کی بات ہے ،جب یورپ کو قلَم و قرطاس کی معرفت بھی نہیں تھی۔ مسلمان علم کے ہر شعبے میں تصنیف وتالیف، تحقیق و تنقید میں مصروف تھے۔

زیادہ دُور نہ جائیں،اگر اَسّی، نوّے کی دَہائی ہی کا جائزہ لیا جائے،تواُس دَورمیں پاکستانی ڈراما انڈسٹری اپنے عروج پر تھی، ایسے ایسے نادرڈرامے تخلیق کیے گئے، جوحقیقی معنوں میںمعاشرے کی عکّاسی کرتے ، اُن میں ناظرین کے لیے کوئی نہ کوئی سبق ضرورپوشیدہ ہوتا تھا،مگر آج بیش ترڈراموں کے ذریعےبے ہودگی وبد اخلاقی اور فلموں کے ذریعے بے حیائی کا سبق دیا جارہا ہے۔ ماں، بیٹی کے درمیان نفاق، بیوی کا شوہر سے بدتمیزی کرنا، شوہر کا بیوی پر ہاتھ اُٹھانا، ساس بہو کے جھگڑے ،دشنام طرازی، والدین کی بے توقیری ، رشتےداروں سے غیر مناسب رویّہ ، باپ بیٹے کی لڑائی اور اسی طرح کی دیگر مخرّ ب ِاخلاق باتیں… کیا یہی ہماری تہذیب وثقافت ہے؟کیا یہ ڈرامے ، فلمیں حقیقتاًہمارے معاشرے کی عکّاسی کر رہے ہیں؟بدقسمتی یہ ہے کہ عموماًڈراموں میں خوش گوار ماحول صرف شادی سے پہلےہی تک دِکھایا جاتاہے،جب کہ شادی کے بعد وہی روایتی لڑائی جھگڑے، چپقلشیں شروع ہوجاتی ہیں۔ اس سے تو یہی واضح ہوتا ہے کہ ڈراموں کے ذریعے شادی کے بہ جائے ’’ فرینڈ شپ کلچر ‘‘کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگر اِنہی ڈراموں کےذریعےگھروں میں ہونے والے معمولی جھگڑوںکو نظر انداز کرنا سکھایا جائے، تو یقینی طور پر کتنے ہی گھر اُجڑنے سے بچ سکتے ہیں۔ بِلا شبہ ڈرامے ، فلمیں اور تھیٹر وغیرہ تہذیب و اِقدار کے فروغ کے مضبوط ذرایع ہیں، تواگر اِن کے ذریعے مثبت سوچ، مشرقی اقدار و روایات ہی کو پروان چڑھایاجائے،تونسل ِنوبھی اپنی روایات سے آشنا ہو سکےگی۔نیز،پھرجب تک والدین گھروں میں اپنے بچّوں کو اخلاقیات اور شرم و حیا کا درس نہیں دیں گے، اُنہیں تہذیب و ثقافت سے آشنا نہیں کروائیں گے، تب تک ہمارا معاشرتی سدھار کی توقع رکھنا بھی بے کار ہے۔