انسان یا کیڑے مکوڑے؟

January 01, 2013

میں ڈاکٹر رضوی صاحب کو خاصے عرصے سے جانتا ہوں وہ ایک اچھے، عمدہ انسان، ماہر ڈاکٹر اور مخلص دوست ہیں۔ ان کے علاوہ ان کی نمایاں خوبی حب الوطنی، قوم کا درد اور قائداعظم سے عقیدت ہے۔ انہوں نے طویل عرصہ قبل ایم بی بی ایس کیا اور سرکاری نوکری حاصل کرنے کے پاپڑ بیلنے کے بعد دیہاتی علاقوں میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ پھر انہوں نے مزید ڈگریاں حاصل کیں، ماہرین کی فہرست میں نام لکھوایا اور کوئی بیس پچیس برس قبل بیرون وطن چلے گئے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے وہ انگلستان میں ہیں اور پونڈ کما رہے ہیں وہ ہوا اور روٹی انگلستان کی کھاتے ہیں لیکن ہمہ وقت غم پاکستان کا ”کھاتے “ ہیں۔ وہ ان پاکستانیوں میں سے ہیں جن کا جسم بیرون ملک خوشحال معاشرے کی فضا میں سانس لیتا ہے لیکن دل اور روح پاکستان کے مسائل سے گھائل رہتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی مشترک قدروں کے سبب میری ان سے دوستی ہے۔ ڈاکٹر رضوی معروف پیشہ وارانہ زندگی گزارنے کے باوجود پاکستانی اخبارات پڑھتے، کالموں کا مطالعہ کرتے اور ملک کے حالات سے باخبر رہتے ہیں۔ ان کے بیرون وطن جانے کی داستان انہی کہانیوں سے ملتی جلتی ہے جن کے ہم عینی شاہد ہیں یا جنہیں ہم سنتے سنتے بے حس ہوچکے ہیں۔ ہزاروں ماہرین کی مانند وہ پاکستان سے ہمارے نظام کی کرپشن، بے انصافی اور سردمہری کے سبب باہر گئے کیونکہ بقول ان کے ڈگریوں اور اہلیت کے باوجود وہ مسلسل ناانصافی کا شکار ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی خان بہادر سفارش خان نہیں تھا جو انہیں انصاف دلوا سکتا اور نہ کوئی رکن اسمبلی ان کا رشتے دار تھا جو انہیں محکمانہ زیادتیوں سے بچا سکتا۔ ان گنت ماہرین کی مانند وہ بھی اچھے دنوں کے انتظار میں دن گن رہے ہیں۔ ان کا ارادہ ہے کہ جب ملک میں حالات بہترہوں گے، قانون کی حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا، میرٹ کا احترام کیاجائے گا تو وہ اس قافلے میں شامل ہوں گے جو سب سے پہلے پاکستان جائے گا۔ان کا فون اکثر آتا ہے اور قدرے طویل ہوتا ہے۔
گزشتہ دنوں ان سے انگلستان میں ملاقاتیں رہیں۔ وہ مسلسل پاکستان سے اداس رہتے ہیں۔ چنانچہ ملاقاتوں میں وطن عزیز کے بارے میں ہی باتیں ہوتی رہیں۔ ایک دن انہوں نے اپنے تجربات کانچوڑ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ”دراصل ڈاکٹر صاحب مغربی معاشرے میں حکومت کا فوکس، سوچ اور عمل کا محور اور توجہ کا مرکز انسان ہوتا ہے، اپنا شہری ہوتا ہے جبکہ پاکستان بنیادی طور پرفیوڈل معاشرہ ہے جہاں حکومتوں کی ترجیح عام شہری نہیں بلکہ بالائی طبقے ہوتے ہیں۔ میں اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ انگلستان میں حتیٰ الواسع انسان کو مرنے ہی نہیں دیتے اگرچہ موت برحق ہے لیکن سارا نظام انسانی زندگی کو محفوظ بنانے کے لئے متحرک رہتا ہے۔ بے شک ہمارے ہاں انگلستان اور مغربی دنیا کی جنسی بے راہ روی ، آزادی اور بے حیائی کا بڑا چرچا ہوتا ہے اور یہ چرچا درست بھی ہے۔ ہمارے نقطہ نظر سے یہ بے راہ روی فساد کی جڑ ہے لیکن ہمیں اپنے فیوڈل معاشرے کا وہ ظلم نظر نہیں آتا جس میں کم وسیلہ انسان دن رات پس رہا ہے۔ یہاں انسانی زندگی سب سے قیمتی شے ہے جبکہ پاکستان میں انسانی زندگی سب سے ارزاں شے ہے یہاں انسان کو حتی الواسع مرنے نہیں دیتے جبکہ پاکستان میں انسان کیڑے مکوڑوں کی مانند مرتے رہتے ہیں اور کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ نہ اس پر ملا تڑپتا ہے، نہ انسانی حقوق کی انجمنیں سڑکوں پر آتی ہیں، نہ منتخب اراکین اسمبلی دکھ درد کااظہار کرتے ہیں اور نہ ہی حکومت ٹس سے مس ہوتی ہے۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے غریب عوام کا کوئی والی وارث ہی نہیں اور حکومت نام کی شے صرف حکمرانوں، سیاستدانوں اور بالائی طبقوں کی خدمت اور حفاظت کے لئے بنائی گئی ہے۔ ہسپتالوں میں غریبوں کو دینے کے لئے دوائیاں نہیں ہوتیں۔ آپ کسی ہسپتال کے سامنے سے گزریں آپ کو لوگ ہاتھوں میں نسخے پکڑے اور آنکھوں میں آنسو بھرے دوائیوں کی بھیک مانگتے نظر آئیں گے۔ سرکاری ہسپتالوں نے چندے جمع کرنے کے لئے محکمے قائم کر رکھے ہیں جو دن بھر لوگوں سے چندے مانگتے رہتے ہیں حالانکہ سرکاری ہسپتالوں کو فنڈز فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکمرانوں کی گڈ گورننس دراصل غیر متوازن پالیسیوں اور شعبدہ بازی کا شکار ہوچکی ہے۔ ایک طرف غریب لوگ سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کی سردمہری اور فنڈز کی قلت کے سبب مر رہے ہیں دوسری طرف ہزاروں سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی شدید قلت ہے، لاتعداد مقامات پر سکولوں کی عمارتیں موجود ہیں لیکن بچوں کو پڑھانے والا کوئی نہیں،اکثر دیہاتوں میں سکولوں کی عمارتوں پربااثر لوگوں نے قبضے کر رکھے ہیں۔ سرکاری شعبے میں تعلیم کی کارکردگی نہایت افسوسناک بلکہ ناگفتہ بہ ہے اور حکمران چند دانش سکولز کھول کر، اربوں روپے ان پر لگا کر اور اربوں روپوں کے فلائی اوورز بنا کر اور کروڑوں روپوں کے لیپ ٹاپ تقسیم کرکے قوم کو انقلاب کی خوشخبری سنا رہے ہیں۔ بلاشبہ دانش سکولز اچھا منصوبہ ہے، بلاشبہ مستحق اور لائق بچوں کو لیپ ٹاپ دینے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں ایسا نہیں ہوتا، بے شک فلائی اوورز ضروری ہیں لیکن یہ سب کچھ صحت اور تعلیم کے شعبوں کی قیمت پر نہیں۔ نظام کا محور، فوکس اور مرکز عام شہری ہے۔ سرکار سب سے پہلے عام شہریوں کو علاج معالجے اور تعلیم کی سہولت مہیا کرے کہ یہ اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ اس کے بعد آپ دنیا کے یا ایشیا کے سب سے بڑے فلائی اوورز بنائیں، دانش سکول بھی قائم کریں اور لیپ ٹاپ بھی تقسیم کریں۔ اینٹ گارے سے کہیں زیادہ قیمتی شے انسانی جان ہے اور انسانی نشوونما ہے۔ حکومتی وسائل کی منصفانہ تقسیم گڈ گورننس کا بنیادی اصول ہے۔ اگر حکمران وسائل کا متعدد بہ حصہ اپنے حلقوں اور شہروں پر صرف کر دیں اور دیہاتی علاقے تعلیم، صحت، سڑک اور گلیوں محلوں کی ترقی کے لئے ترستے رہیں تو یہ کوئی انصاف نہیں۔ یہ گڈ گورننس نہیں بلکہ سیاسی شعبدہ بازی سمجھی جائے گی۔ ڈاکٹر رضوی نے ایک بڑی دلچسپ بات کی۔ کہنے لگے میں انگلستان میں تقریباً دو دہائیوں سے رہ رہا ہوں۔ ہمارے اکثر حکمران یہاں مہینوں اور برسوں تک گزارتے ہیں ان کو یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آتی کہ لندن کی آبادی لاہور اور کراچی سے زیادہ ہے۔ یہاں کاروں کی تعداد بھی زیادہ ہے، لندن کی سڑکیں لاہور کراچی کی سڑکوں سے تنگ ہیں اس کے باوجود یہاں پبلک ٹرانسپورٹ اور بسیں اور ڈبل ڈیکرز سڑکوں پر چلتی ہیں اور کبھی دو تین منٹ سے زیادہ لیٹ نہیں ہوتیں۔ لندن کی چوتھائی آبادی ان بسوں پر اور نصف سے زیادہ انڈر گراؤنڈ ریلوے پر سفر کرتی ہے اور وقت پر اپنی منزل مقصود پر پہنچتی ہے۔ یہاں چند ایک کے علاوہ کہیں فلائی اوورز نہیں اور نہ ہی ان سے لندن کا روائتی حسن تباہ کرنے کا کبھی سوچا گیا ہے، کراچی اور لاہور کو فلائی اووروں اور رپیڈ ٹرانسپورٹ کی بجائے صرف ایک اچھے ٹرانسپورٹ نظام کی ضرورت ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل تک لاہور میں اومنی بس چلتی تھی جو وقت کی پابند بھی تھی اور عام شہریوں کے لئے بہترین سہولت بھی۔ اگر ہم عوامی سہولت کا نظام چلانے کے اہل نہیں تو یقین رکھئے اربوں روپوں سے بنائے گئے منصوبے بھی کامیاب نہیں ہوں گے۔
کل شام ڈاکٹر رضوی صاحب کا فون آیا۔ وہ مغموم اور افسردہ تھے۔ کہنے لگے میں نہ کہتا تھا کہ پاکستان میں انسان کی اتنی بھی وقعت نہیں جتنی جانوروں کی ہوتی ہے۔ دیکھ لیجئے پنجاب میں پچاس سے زیادہ لوگ کھانسی کے شربت نے مار دیئے، کچھ عرصہ قبل ڈیڑھ سو افراد پی آئی سی سے جعلی دوائیوں کے سبب موت کے منہ میں چلے گئے پھر بھی حکومت کا ڈرگ کنٹرول ڈیپارٹمنٹ نہیں جاگا، بوائلر مرغیوں کے لئے مردہ جانوروں سے بنائی گئی فیڈ کا انکشاف بھی ہو چکا، خوراک اور کھانے پینے کی اشیاء ملاوٹ کے بہترین عملی نمونے ہیں، سندھ میں دو سو بچے خسرہ سے چل بسے ہیں۔ سینکڑوں پولیس ٹارچر اور جعلی مقابلوں میں مارے جاتے ہیں اس قسم کا ایک بھی واقعہ انگلستان میں ہوتا تو بھونچال آجاتا، حکومتیں گر جاتیں لیکن پاکستانی حکمران اور معاشرہ بے حس ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح مر رہے ہیں۔ حکومتی مشینری کرپٹ اور زنگ آلود ہوچکی ہے ۔ اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے ان کا دکھ غم کی ندی میں بہا کر لے گیا۔