سر رہ گزر

January 01, 2013

محمود خان اچکزئی نے کہا ہے افغانستان سے امن کی آشا شروع کی جانی چاہئے۔
امن کی آشا کوئی نراشا نہیں، اس کی افادیت کا بڑی تیزی سے لوگوں کو احساس ہو گا، کچھ لوگوں نے یہ سمجھا تھا کہ یہ امن کی امید کا پروگرام شاید کوئی شو ہے، اور پھر کیا تھا اپنی نا سمجھی سے اس پر اپنے فتوؤں کی توپیں چلانا شروع کر دیں، وقت بہت غلط خیالات و معتقدات کو درست کر دیتا ہے، آج جب افغانستان پاکستان اور کسی حد تک بھارت بھی امن کی نعمت سے محروم ہے، تو پاکستان جو اس خطے کا اہم ترین ملک ہے اسے یہ امن کی آشا مہم تیز تر کر دینی چاہئے، اور اگر کسی کو امن کی آشا کے نام سے چڑ ہے تو وہ اسے امیدِ امن کا نام بھی دے سکتے ہیں، اور اس امید کو عملی جامہ بھی پہنا سکتے ہیں۔ نائن الیون سے امن کا چولا تار تار ہے، اور ہنوز اس کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں، بارود کے ڈھیر پر بیٹھ اور بندوق کی نالی تان کر مسائل اور الجھتے جائیں گے، سپر پاور سے لے کر ہندوستان پاکستان افغانستان ایران، غرضیکہ پوری دنیا کو امن کی آشا مہم میں حصہ لینا ہو گا ورنہ یہ ہنستی بستی دنیا راکھ کا ڈھیر بن جائے گی، یہ جو ماحول پیدا ہو چکا ہے اس نے انسانوں سے ہنسی اور ہونٹوں سے مسکراہٹ چھین لی ہے، ہر روز ایک مزید بیگانگی، ایک اور ستم در ستم، ایک اور خونِ ناحق، نفرتوں کا ایک اور ریلہ، جنگ و جدل رُت کا قہر اور شہروں کی ویرانی کی اندھی سرخ آندھی ہے کہ تھمنے میں نہیں آتی، بس کچھ ایک ہلکی سی جھلک اس آشوب کی دکھلائیں بھی توکیا #
یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
امن کی آشا کی بھاشا بول کر ہی یہ خطہ جس میں ہم رہتے ہیں، امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
####
مولانا طاہر القادری خطاب کے دوران آبدیدہ ہو گئے، انہوں نے اسلام آباد مارچ فنڈ کیلئے اپنی اہلیہ، بہو، بیٹی کے زیورات اور اپنا گھر پیش کرنے کا بھی اعلان کر دیا ۔
کارکنوں کے مطابق وہ اس لئے روئے کہ کارکنوں نے اپنے کاندھوں پر بہت زیادہ بوجھ لاد لیا اور جب اپنے کرب سے مولانا کو آگاہ کیا تو وہ زار و قطار رو پڑے ممکن ہے قربانیاں دیئے بغیر کارکنوں نے اسلام آباد مارچ کے خوف سے اپنی لرزتی ٹانگوں کے ساتھ مولانا سے کہا ہو کہ ہمارے تو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، مگر کارکنوں کو یہ پتہ نہ چل سکا کہ مولانا زیورات اور گھر پیش کرنے کے اعلان کے باعث روئے یا کارکنوں کی بے بسی کے لئے اس لئے ہر کارکن کی زبان پر یہ الفاظ بھی آئے #
جو ہم نے داستاں اپنی سنائی آپ کیوں روئے؟
کہیں ایسا نہ ہو کہ مارچ کرنے کی تاریخ گزرنے کے بعد یہ گیت فضا میں گونجے #
روتے ہیں چھم چھم نین اجڑ گیا چین
میں نے دیکھ لیا تیرا پیار
یہ درد جو اب اٹھا ہے میرِ کارواں کے دل میں کیا ہی خوب ہوتا کہ یہ خون اور پسینے کی ندیاں بہنے سے پہلے جاگ گیا ہوتا تو آج یہ مارچ کی ضرورت ہی نہ پڑتی اب چونکہ وہ اعلان کر بیٹھے ہیں اپنا گھر اور زیورات مارچ فنڈ میں دینے کا اگرچہ جمع نہیں کرائے تاہم جمع کرانے کا اعلان کر بیٹھے ہیں، تو وہ تمام قوتیں جو اس انارکی سے تنگ ہیں، مولانا کے مارچ کو مضبوط کریں، تاکہ کوئی نتیجہ تو نکلے، اگر وہ روز اول ہی سے سیاست میں ناکامی کے باوجود اسے جاری رکھتے تو آج منہاج سیاسی پارٹی ایک عظیم سیاسی قوت ہوتی اور بیلٹ کے ذریعے عوام دشمن قوتوں کی بیلٹ اتروا دیتے، یہ جو موجودہ طریقہ ہے اگر وہ اسے خمینی جیسے انقلاب میں بدل دیں تو نظام بدل بھی سکتا ہے اور درست بھی۔ اب تو انہوں نے قدم اٹھا لیا ہے پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں، ہمت رکھیں ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی ان کے ساتھ ہے۔
####
لاہور میں ایک روزہ سپلائی کے بعد سی این جی سٹیشن پھر تین دن کے لئے بند، بجلی کا بحران بھی جاری۔
کتنی خوشی کی بات ہے کہ لوڈ شیڈنگ کے ساتھ سی این جی شیڈنگ اور ان دونوں کی سنگت میں قوم کی آئی شیڈنگ، کیا اب بھی حکمرانوں کو لوگ ووٹ نہیں دیں گے کہ وہ ایک بار پھر آ کر مزید کرارے کرارے مسائل سے لوگوں کو شادباد کر دیں، یہ وہی شاد باد ہے جو ہمارے ترانے میں بھی شامل ہے، یحییٰ خان کے پاس تو ایک قومی ترانہ تھا آج کے حکمرانوں کے پاس تو کئی قومی ترانے ہیں، الغرض آج کے حکمرانوں کو کل کے حکمران بنائیں تاکہ قوم کی جان بھی نکل جائے، اور وہ کہہ سکیں ہم نے لاشوں پہ سیاست کی ہے، طاہر القادری کی طرح ریاست ریاست نہیں کی، کسی کو بری لگے یا اچھی یہ جو حکمرانانِ ستمگران ہیں ان کا کوئی قصور نہیں انہوں نے تو اپنے پیشے سے وفا کی، یہ جو افتاد آج عوام پر پڑی ہے وہ اس پر قہقہے لگائیں کہ یہ ان کا اپنا انتخاب ہے، جس کے ذریعے انہوں نے پاکستان کو لاکھوں میں انتخاب کے قابل بنا دیا۔ شاید عوام نے اتنے ”اچھے“ حکمران اس لئے اپنے اوپر خوشی خوشی مسلط کئے کہ وہ کسی خونیں انقلاب کے آرزو مند ہیں، اس وقت لوہا گرم ہے، اگر کسی کے پاس ہتھوڑا ہے تو چوٹ لگائے، وطن کا مسخ شدہ چہرہ اپنی اصلی اور اچھی حالت پر آ جائے گا۔ آخری دنوں میں تو بھیڑیا بھی نرم خو ہو جاتا ہے، یہ شکرے اب بھی قوم کی بوٹیاں نوچ رہے ہیں، چولہوں میں گیس نہیں، پمپوں پہ سی این جی نہیں، تاروں میں بجلی نہیں، مگر جو قوم اپنے لئے انگارے چنے، اور پھر سے جشنِ انتخابات منائے تب یہ کہنا واجب ہو گا #
نہ خوشی ہوتی ہے دل کو، نہ طبیعت کو اُبھار
پھر سالانہ کئے جاتے ہیں ہم عید ہنوز
####
طبی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ عورتوں کی نسبت مرد دل کے کمزور ہوتے ہیں۔
عورتیں یہ کہہ سکتی ہیں، بلکہ وہ تو یہ بھی دعویٰ کر سکتی ہیں کہ مردوں کے سینے میں ایک دل بھی نہیں ہوتا جبکہ ان کے سینے میں دو دو دل ہوتے ہیں، مرد کے پاس جب دل نہ ہو گا تو اس کی بہادری میں مزید اضافہ ہو جائے گا، اور عورتوں کے پاس دو دل ہونے کے باعث انہیں دل دل پاکستان کی اہمیت کا بھی اندازہ ہو جائے گا۔ مرد اگر دل کے کمزور ہوتے ہیں تو خواتین خوش ہوں کہ وہ زیادہ تیزی سے ان کی زلفوں کے اسیر ہو سکتے ہیں۔ سنگدل تو سرے سے محبت جانتا ہی نہیں۔ اور یہ جو مردوں کے دل کمزور ہوتے ہیں، تو ان کے دلوں کی چالاکی ہوتی ہے، کیونکہ ایک کمزور دل ہی پیار کر سکتا ہے، جو پیار کرنے کے بعد پھر سے خود کو پتھر بنا لیتا ہے، چونکہ طبی تحقیق ابھی جاری ہے، اور یہ تحقیق بھی مرد ہی کر رہے ہیں، تو ابھی اور ایسے انکشافات ہوں گے کہ مغرور سے مغرور حسینہ اور بزدل سے بزدل دوشیزہ کمزور دل مرد کے جال سے بچ نہ سکے گی، عورتوں مردوں میں مقابلے کی فضاء پیدا کرنے والی تحقیقات پر پابندی لگا دینی چاہئے، طبی تحقیقات سے یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ مرد جب عورت کو چاہنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ نہایت کمزور دل ہو جاتا ہے، اس لئے خواتین سے یہی عرض ہے کہ ”مشتری ہوشیار باش“ علامہ اقبال کوئی کمزور دل تو نہ تھے، لیکن پھر بھی دل کو رقیق کر کے انہوں نے کہہ ڈالا # ”وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ“ مرد کا کمزور دل ہونا ہی خطرناک ہے، خواتین اس کے کمزور دل پر نہ جائیں۔ کہیں بقول سعدی ”شاید کہ پلنگ خفتہ باشد“
(شاید کہ جھاڑیوں میں چیتا سو رہا ہو) جیسا منظر دیکھنے کو نہ مل جائے۔