کشمیریوں کی جدوجہد:کامیابی کے آثار نمایاں

February 07, 2019

بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی منظرنامے میں کشمیریوں کی سات دہائیوں سے جاری جدوجہد کی کامیابی کے آثار آج جتنے روشن ہیں، اس سے پہلے شاید کبھی نہ تھے۔ کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی کا دن گزشتہ روز پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں جس جوش و جذبے سے منایا گیا، وہ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف اسپین اور اٹلی میں احتجاجی مظاہرے ہوئے، بلجیم کے دارالحکومت برسلز میں کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے شمعیں روشن کی گئیں۔ لندن، بریڈ فورڈ، برمنگھم، مانچسٹر اور گلاسگو سمیت برطانیہ کے مختلف شہروں میں تاریخی ریلیاں نکالی گئیں۔ برطانوی پارلیمنٹ میں منعقدہ کشمیر کانفرنس نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی قرارداد منظور کی، جس میں کہا گیا ہے کہ تصفیہ طلب تنازع خطے کی سلامتی کیلئے خطرہ ہے لہٰذا عالمی برادری کو اس کے جلد از جلد منصفانہ حل کی خاطر اپنا کردار مؤثر اور نتیجہ خیز طور پر ادا کرنا چاہیے۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے کانفرنس سے اپنے خطاب میں اس امر کو واضح کیا کہ بھارت کشمیر کو باہمی تنازع بھی مانتا ہے مذاکرات بھی نہیں کرتا۔ صدر آزاد کشمیر سردار مسعود نے اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر کے حل میں برطانیہ سے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا، جس کا خصوصی جواز یہ ہے کہ کشمیر کا تنازع درحقیقت تقسیم ِبرصغیر کے موقع پر حکومت برطانیہ ہی کی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ ناروے کے سابق وزیراعظم شیل بوندویک کا کہنا تھا کہ عالمی حالات بدل رہے ہیں، کوریا سے کابل تک تبدیلی کی رو چل پڑی ہے، لہٰذا کشمیر کا تنازع بھی اب کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل ہو جانا چاہیے۔ افغان عوام کی جانب سے پچھلی تین دہائیوں میں پہلی مرتبہ یومِ یکجہتی کشمیر منایا گیا۔ کابل میں افغان خواتین نے بینر اور پلے کارڈ اٹھا کر کشمیری عوام کے حقِ خودارادی کی حمایت میں نعرے لگائے۔ پاکستان کے طول و عرض میں ہر جگہ آزادی کشمیر کیلئے مظاہرے کیے گئے جبکہ یومِ یکجہتی کشمیر کی مرکزی تقریب پارلیمنٹ کے سامنے ڈی چوک میں منعقد ہوئی۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے اجلاس سے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ کشمیر پر صرف کشمیریوں کا حق ہے، کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ صرف کشمیریوں کو کرنا ہے اور بھارت کو اس میں رکاوٹ بننے سے باز رہنا ہوگا۔ بھارت کالے قوانین ختم کرے، اسیروں کو رہا کیا جائے، مبصرین اور آزادی اظہارِ رائے پر سے پابندی اٹھائی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ برصغیر کی تقسیم کے وقت باؤنڈری کمیشن نے مسلم اکثریتی علاقوں کو بھارت کے حوالے کرکے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کشمیر اور پاکستان کے خلاف سازش کی۔ صدرِ مملکت نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی قوم اور سیاستدانوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ عارف علوی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا لیکن قابض بھارت بات چیت سے بھاگتا ہے، بھارت سے جب بھی بات چیت کا کہا اس نے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیا، کشمیروں کے حق خودارادیت کی بلاتفریق حمایت کرتے ہیں۔ اس موقع پر وزیراعظم آزاد کشمیر فاروق حیدر نے کہا کہ کشمیری عرصہ دراز سے اپنی شناخت کیلئے لڑ رہے ہیں، مقبوضہ کشمیرمیں شہید کو پاکستانی پرچم میں سپرد خاک کیا جاتا ہے، پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو پوری دنیا میں اجاگر رکھا ہے، ہمارا رشتہ وطن عزیز پاکستان کے ساتھ ہے، کشمیر کی قربانیوں کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ وزیراعظم پاکستان نے اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں کہا کہ بھارتی مظالم نے کشمیریوں کو آزادی کے مطالبے پر یکجا کر دیا ہے۔ حقائق کے اس آئینے میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ بھارت کیلئے اب زیادہ دیر کشمیر پر اپنا غاصبانہ تسلط قائم رکھنا ممکن نہیں۔ کشمیریوں کی جدوجہد کو سات دہائیوں میں کچلنے کی بھارتی کوششیں جس بری طرح ناکام ہوئی ہیں اور اس بناء پر کشمیر جس طرح عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے، بھارتی وزیراعظم کے حالیہ دورۂ کشمیر میں ان کے خلاف عوامی جذبات کا جتنا بھرپور اظہار ہوا ہے، افغانستان سے امریکہ کی متوقع واپسی سے خطے کے حالات میں جو تبدیلی ہوتی نظر آرہی ہے، اس کی روشنی میں صاف نظر آتا ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد رنگ لاچکی ہے اور ان شاء اللہ ان کی امنگوں کی منزل اب زیادہ دور نہیں۔