عثمان بزدار واقعی وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں

February 07, 2019

یہ بات افواہ کی طرح پھیل رہی ہے کہ جب آصف علی زرداری سے پوچھا گیا کہ ’’چند ہفتے قبل تو آپ کی گرفتاری کا بہت شور و غوغا تھا پھر کیا ہوا‘‘ تو انہوں نے کہا ’’کسی فقیر کی دعا کام آ گئی‘‘۔ وہ دعا کے لئے جس فقیر کے پاس گئے تھے، میں اس وقت انہی کے گھر موجود ہوں- یہ مکان گوجر خان کے وسط میں ہے۔ چھوٹی چھوٹی چار پانچ گلیوں سے ہوکر آدمی اس گلی تک پہنچتا ہے- بڑی گاڑیوں کا یہاں پہنچنا آسان نہیں، خاص طور پر بڑی لینڈ کروز تو یہاں آنے سے رہی۔ ان کا مکان بھی ایک تنگ سی گلی کے اندر ہے مگر اس مکان کے سامنے گاڑیوں کی پارکنگ کی جگہ موجود ہے، پانچ سات گاڑیاں وہاں کھڑی ہو سکتی ہیں- میرے ساتھ اورنٹیل کالج کے سربراہ ڈاکٹر سلیم مظہر اور اردو صحافت کی ایک بڑی شخصیت بھی تھی۔ چھوٹے سے دروازے سے ہم اندر داخل ہوئے اور دروازے کے بالکل ہی ساتھ بنی ہوئی سیڑھیاں چڑھنا شروع کیں۔ سڑھیوں کی پہلی منزل آئی، پھر دوسری منزل، پھر تیسری منزل، پھر چوتھی آئی تو باہر نکلنے کادروازہ دکھائی دیا۔ اس میں داخل ہوئے تو پھر لوہے کی ایک ایسی چھت نظر آئی جس سے چاند کی چاندنی چھن چھن کر نیچے والی منزل کےصحن میں اتر رہی تھی۔ تھورا سا اُس پر چلے تو سامنے کی دیوار میں ایک اور دروازہ دکھائی دیا، جو ایک اور چھت پر کھل رہا تھا۔ ہم اس سے ہوتے ہوئے ایک کمرے میں پہنچے جہاں پروفیسر احمد رفیق اختر کا بستر لگا ہوا تھا۔ ان کے بیڈ کے اوپر کئی شیلف لگی تھیں جن میں کتابیں سجی ہوئی تھیں۔ میں نے کتابوں کو غور سے دیکھا تو مجھے اُن میں ’’دیوانِ منصور‘‘ بھی نظر آئی۔ اپنی شاعری کا دیوان دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی۔ ایک طرف ایک صوفہ پڑا تھا، اس کے ساتھ ایک سنگھار میز بھی دھری تھی- اس کے سامنے ایک باون انچ کا ٹیلی وژن رکھا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ اس کمرے میں آصف علی زرداری آئے تھے، انہی گلیوں اور سڑھیوں سے گزر کر، پھر خیال آیا کہ یہاں کئی بار فریال تالپور بھی آچکی ہیں، نون لیگ کی لیڈر شپ بھی یہاں آتی رہتی ہے کسی زمانے میں عمران خان بھی آیا کرتے تھے۔ سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کئی بار آ چکے ہیں۔ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی پروفیسر صاحب سے ملاقات تو کی ہے مگر میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ ملاقات اسی کمرے میں ہوئی تھی یا کہیں اور۔ لیکن میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ عسکریت پر اُن کے اثرات بہت گہرے ہیں۔

پاکستان اور بیرون ملک سے بڑی بڑی شخصیات پروفیسر صاحب سے ملنے آتی رہتی ہیں۔ صرف انہی پر کیا موقوف، یہاں تو روزانہ دو تین سو لوگ ملنے آتے ہیں۔ اُن سے علم کی باتیں پوچھتے ہیں، رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ بڑے بڑے باریش بزرگ بھی ان سے دعا کی درخواست کرتے ہیں حالانکہ خود پروفیسر صاحب کلین شیو ہیں۔ سوٹ پہنتے ہیں، ٹائی لگاتے ہیں اور انگریزی کے پروفیسر ہیں۔ تاریخ پر بھی ان کی بہت گہری نظر ہے۔ تصوف ان کے ہاں صرف علم الکلام نہیں رہتا، عمل بن جاتا ہے۔ ان کی گفتگو سے حکمت و عرفان کے پھول جھڑتے ہیں۔ علمِ عقائد کے چراغ جل جل جاتے ہیں۔ وہ عالمِ علمِ لدنی بھی لگتے ہیں اورحاملِ علومِ فلسفہ بھی۔ وہ قرآن حکیم کی جب تفسیر کرتے ہیں تو یہ راز کھلنے لگتا ہے کہ ’’قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن‘‘۔ احادیث پر جب بات کرتے ہیں تو محدث لگتے ہیں۔ اسماء کا اُن سے بڑا عالم شاید ہی دنیا میں کوئی ہو۔ کسی کا نام سن کر اُس کی شخصیت کے سارے خدوخال بیان کر دیتے ہیں۔ اسلام اور سائنس اُن کا خاص موضوع ہے۔

یہ اتنی طویل تمہید کا سبب صرف اتنا ہے کہ جس روز وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے میری ملاقات ہوئی تھی، اُس دن دو باتیں طے ہوئی تھیں۔ ایک پروفیسر احمد رفیق اختر کے ساتھ ملاقات، دوسری سرائیکی زبان کے سب سے بڑے شاعر اقبال سوکڑی کے ساتھ لاہور میں ایک شام۔ اقبال سوکڑی عثمان بزدار کے حلقے سے تعلق رکھتے ہیں یعنی اُن کے ووٹر بھی ہیں۔ عثمان بزدار کو اقبال سوکڑی کے کئی اشعار یاد بھی ہیں، جو انہوں نے مجھے سنائے تھے مگر دونوں باتیں ہوا ہو گئیں۔ اقبال سوکڑی کے ساتھ شام سے متعلق شہباز گل کی وساطت سے کئی بار انہیں یاد بھی دلایا ہے کہ وعدے کو پورا کیا جائے مگر جواباً انتظار فرمائیے کا بورڈ آویزاں نظر آیا۔ مجھے ڈر ہے کہ اِسی انتظار میں تونسہ کی حکمرانی ہی ختم نہ ہو جائے۔ راولپنڈی اسپتال کے ڈاکٹر طارق نیازی کی معطلی جیسے حیرت انگیز فیصلے کے نتائج کچھ بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔

نمل یونیورسٹی میانوالی کے کانووکیشن میں مَیں بھی موجود تھا، جب عمران خان نے ایک بار پھر عثمان بزدار کے حق میں تقریر فرمائی تھی مگر اُس روز اُن کے لہجے میں عثمان بزدار پر پہلے جیسا یقین نہیں تھا۔ وزیراعلیٰ پچھلے ماہ دو مرتبہ میانوالی گئے۔ وہاں قیام بھی فرمایا مگر خدا گواہ وہاں اُن کے جانے سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ میانوالی کو اب تک کوئی پیکیج نہیں دیا گیا۔ اگر چھ ماہ میں وزیراعظم کے ضلع کو کچھ نہیں ملا تو کسی اور ضلع کو کیا ملا ہوگا۔

عثمان بزدار کے وزیراعلیٰ بننے پر سب سے زیادہ خوشی کا اظہار میں نے کیا تھا۔ میں نے اپنے کالم ’’ساڈا بزدار جیوے‘‘ میں لکھا تھا ’’وزیراعلیٰ کا جہاں گھر ہے۔ وہاں سڑک اتنی ناگفتہ بہ ہے کہ جیو ٹی وی کی دو گاڑیاں وہاں تک پہنچنے کی کوشش میں پانی میں بہہ گئی تھیں۔ بجلی وہاں نہیں ہے۔ اب تو بڑے بڑے بیورو کریٹس کو وہاں جانا پڑے گا۔ یقیناً اب بجلی بی بی بھی رقص کرتی ہوئی وہاں پہنچے گی۔ روڈ بھائی بھی دھمال ڈالتے ہوئے وزیراعلیٰ کے گائوں میں داخل ہوں گے۔ اب وہاں بھی ’’ماڈل ویلیج‘‘ بنیں گے۔ تونسہ میں ’’سرائیکی یونیورسٹی‘‘ بنے گی۔ واہ واہ۔ آرٹس کونسل بنائی جائے گی۔ وہاں بھی ڈرامے ہوا کریں گے۔ سرائیکی زبان کے سب سے بڑے شاعر اقبال سوکڑی کے ساتھ لاہور میں شامیں منائی جائیں گی اور ڈیرہ غازی خان کی گلی گلی میں لکھا ہو گا ’’ساڈا بزدار جیوے‘‘۔ ایک بزدار یعنی عاشق بزدار نے کہا تھا ’’اساں قیدی تخت لاہور دے‘‘ دوسرےبزدار یعنی عثمان بزدار نے تختِ لاہور کو فتح کر لیا مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ میری توقعات، میری امیدیں مجھے خاک میں ملتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ عثمان بزدار کے پاس اب وقت ہے مگر بہت تھوڑا سا۔ شش و پنج کے ڈپریشن سے نکلیں اور ثابت کریں کہ وہ واقعی پنجاب کے حکمراں ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)