اختلافات کے چکر میں نہیں پڑتا، شفقت امانت علی

February 12, 2019

٭حکومتِ پاکستان کی جانب سےسب سے زیادہ پرائیڈ آف پرفارمنس پٹیالہ گھرانے کو دیئے گئے ٭بچپن میں بہت شرارتی تھا، اکثر دوسروں کے گھروں کی بیل بجا کر بھاگ جاتا تھا ٭اب بھارت کو پاکستانی فن کاروں پرسے پابندی اٹھا لینی چاہیے ٭دونوں ملکوں کے مابین کلچر ایکسچینج کی اشد ضرورت ہے ٭میرے آئیڈیل میرے بابا تھے۔

فن کو آگے بڑھنے اور پروان چڑھنے سے کون روک سکتا ہے، آرٹ کو نہ تو سرحدوں میں قید کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے دلوں پر راج کرنے سے دُور رکھا جاسکتا ہے۔ پاک بھارت سرحدوں کے دونوںجانب حالات کتنے ہی کشیدہ کیوں نہ رہے ہوں، لیکن امن کے گیت دونوں ممالک کے فن کار ہمیشہ گاتے رہے ہیں۔ محبتوں کے رشتوں کو ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بھارت کے فن کار پاکستان آکر اپنی صلاحیتوں کا جادو جگارہے ہیں، تو دوسری جانب بالی وڈ کی درجنوں فلموں میں پاکستانی گلوکاروں کی آواز دلوں کے ذریعے کروڑوں بھارتیوں کے سماعتوں میں رس گھول رہی ہے۔ بالی وڈ کے اُفق پر کل کی طرح آج بھی پاکستانی گلوکار چھائے ہوئے ہیں۔ بھارت میں ہماری کلاسیکی اور پاپ موسیقی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ کلاسیکی موسیقی کو دُنیا بھر میں پسندیدگی سے سُنااور پسند کیا جاتا ہے۔ اس فن کو حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ تربیت لینا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ غزل گائیکی کو دُنیا بھر میں مقبول بنانے میں موسیقار گھرانوں نے نمایاں کردار ادا کیا۔ ان گھرانوں میں دہلی، آگرہ، پٹیالہ، جے پور، بنارس، میواتی، گوالیار سمیت کشمیر کے گھرانے شامل ہیں۔ اس حوالے سے پٹیالہ گھرانے کی خدمات بھی نہایت قابل قدر ہیں۔حکومتِ پاکستان کی جانب سےسب سے زیادہ پرائیڈ آف پرفارمنس پٹیالہ گھرانے کو دیے گئے۔ اسی گھرانے سے تعلق رکھنے والے گائیک شفقت امانت علی خان، نئی نسل کے مقبول ترین گلوکاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ اُستاد امانت علی خان کے بیٹے اور مرحوم اسد امانت علی خان کے چھوٹے بھائی ہیں۔ شفقت امانت علی 26 فروری 1965 کو پیدا ہوئے۔ اُن کا تعلق پٹیالہ گھرانے کی نویں نسل سے ہے۔ انہوں نے چار سال کی عمر سے ہندوستانی کلاسیکی گائیکی کی تربیت اپنی دادی سے لینی شروع کی۔ بعد ازاں انہوں نے موسیقی کے اسرار و رموز اپنے والد اُستاد امانت علی خان، چچا استاد فتح علی خان صاحب، روشن آرا بیگم اور دیگر سے سیکھے۔ انہوں نے موسیقی کے ساتھ اپنے تعلیمی سفر کو بھی جاری رکھا اور 1988ء میں گورنمنٹ کالج لاہور (جو اب جی سی یونیورسٹی کہلاتی ہے) سے گریجویشن کیا۔ انہوں نے میوزک سوسائٹی آف گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی لاہور کی جانب سے ایک اعزاز رول آف آنر بھی وصول کیا۔شفقت امانت علی مشہور پاپ بینڈ فیوژن کے مرکزی گلوکار تھے۔ انہیں موسیقی کی دُنیا میں خاص مقام حاصل ہے، وہ بہ یک وقت کلاسیکی اور پاپ موسیقی پر دسترس رکھتے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ گلوکاروں میں انہیں منفرد حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ ان کی آواز اور انداز گائیکی کو دنیا بھر میں بے حد پسند کیا گیا۔ شفقت امانت علی پاکستان کے نامور گلوکاروں میں سے ایک ہیں۔ اچھی آواز اور بہترین گائیگی کے ہنر کی وجہ سے وہ بھارت میں بھی اتنے ہی مقبول ہیں، جتنے پاکستان میں۔اسی ہنر کی بدولت شفقت امانت علی کو بھارت کے بانی رہنما موہن داس کرم چند گاندھی، جو عوام میں مہاتما گاندھی کےنام سے جانے جاتے ہیں، ان کے 150ویں جنم دن پر ان کے سب سے پسندیدہ بھجن ’’ویشنوجین‘‘ گانے کا موقع دیا گیا۔اس بھجن میں پاکستان سمیت 124 ممالک کے فن کاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔انہوں نے بالی وُڈ کی فلم ’’کبھی الوداع نہ کہنا‘‘ میں سپر اسٹارشاہ رُخ خان پر فلمایا گیا گانا ’’متوا‘‘ گایا، جسے شائقین اور موسیقی کے نقادوں نے بے حد سراہا، ساتھ ہی فلم ’’دور‘‘ کا گانا ’’یہ حوصلہ‘‘ بھی پسند کیا گیا۔کوک اسٹوڈیو میں ان کی رسیلے گیت کئی برس تک گونجتے رہے۔ معروف فن کار ہمایوں سعید کی کام یاب فلم’’ پنجاب نہیں جاؤں گی‘‘ میں ان کی آواز میں یہ نغمہ’’ تیرے نال نال‘‘ بے حد مقبول ہوا۔انجم شہزاد کی فلم’’ ماہ میر‘‘ میں شامل گیت ’’ پیا دیکھن کو‘‘ فلم بینوں نے سراہا۔ بالی وڈ فلموں میں ان کی آواز کا جادو آج بھی چل رہا ہے۔فلم جنت ٹو، کا گانا،توُ ہی میرا،تیورکا گیت، میں نہیں جانا پردیس، را۔ ون کا دل دارہ، مائے نیم از خان کا مشہور نغمہ تیرے نیناں تیرے نیناں اور آئی ہیٹ یو لو اسٹوری، کا سپر ہٹ نغمہ بِن تیرے کی دُھوم دُنیا بھر میں مچی ہوئی ہے۔ 2004ء میں فیوژن گروپ چھوڑنے کے بعد انہوں نے اپنے کیریئر کو بہ طور سولو گلوکار جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اب تک اُن کے کئی آڈیو اور ویڈیو البم ریلیز ہوچکے ہیں۔

یوم آزادی کے موقع پر حکومت پاکستان کی جانب سے شعبۂ موسیقی میں اعلیٰ کارکردگی کی بناء پر انہیں صدارتی ایوارڈ برائے تمغہ حُسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔ گزشتہ دنوں ہم نے داتا نگری لاہور میں ڈیفنس کے علاقے میں شفقت امانت علی کی رہائش گاہ پر اُن سے ہلکی پھلکی بات چیت کی۔ ہم نے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے اُن سے پوچھا!!’’ آپ کی تربیت میں زیادہ عمل دخل کس کا رہا؟‘‘ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’’میں بہت چھوٹا تھا، جب میرے والد کا انتقال ہوگیا تھا، میری والدہ نے میری تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے میری تربیت میرے والد کی طرز زندگی کے مطابق کی۔ بچپن میں مجھے بہت نظر انداز کیا جاتا تھا، لیکن جیسے جیسے بڑا ہوتا رہا، پھر پیار ملتا رہا۔ بچپن میں بہت شرارتی تھا، میں اکثر دوسروں کے گھروں کی بیل بجا کر بھاگ جاتا تھا، اپنی اس شرارت پر آج بہت ہنسی آتی ہے، لیکن کبھی ایسی شرارت نہیں کی، جس سے کسی کو کوئی تکلیف ہو۔ بچپن کے چھوٹے چھوٹے کھیل بہت یاد کرتا ہوں۔ زمانۂ طالب علمی سے ہی اپنے فن پر پورا بھروسا تھا، کیوں کہ سفارش پر یقین نہیں رکھتا۔‘‘ بھارت میں پاکستانی فن کاروں پر پابندی کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ اب بھارت کو پاکستانی فن کاروں پر سے پابندی اٹھا لینی چاہیے۔ دونوں حکومتوں کے لیے فن کاروں پر پابندی لگانا سب سے آسان ہے، اسی لیے ایسا ہوتا ہے، ورنہ دو طرفہ تجارت بھی اس سے ضرور متاثر ہوتی۔ آرٹ اور انٹرٹیمنٹ انڈسٹری آسان ہدف ہیں، کیوں کہ حکومتوں کو یقین ہے کہ اس جانب سے کوئی ردعمل سامنے آنے والا نہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑے پیمانے پر تجارت جاری ہے۔ آپ اٹاری، واہگہ بارڈر پر چلے جائیں، جہاں سامان سے لدے ٹرک سرحدیں عبور کرتے نظر آ جائیں گے۔ اگر یہ تجارت روک دیں، تو ایک ہلچل مچ جائے گی، جب کہ فن کار میڈیا یا سوشل میڈیا پر اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے کے علاوہ کر ہی کیا سکتے ہیں۔ بھارت میں پرفارم کیے گئے اچھے دنوں کو اب بھی یاد کرتا ہوں۔ بھارت سے مجھے بہت محبت، عزت اور حوصلہ ملتا ہے۔ ہم مثبت انداز میں بہت سے اچھے کام کر سکتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ایسا ہو نہیں پا رہا۔ بھارت میں پاکستانی فن کاروں کے کام کرنے پر پابندی کو کم و بیش تین سال ہو چکے ہیں۔‘‘ بھارتی فن کاروں کے پاکستانی فلموں میںکام کرنے کے بارے شفقت امانت علی خان نے بتایا کہ دونوں ملکوں کے مابین کلچر ایکسچینج اشد ضروری ہے۔

اوم پوری، نصیر الدین شاہ اوردیگر فن کاروں کا پاکستانی فلموں میںکام کرنا مثبت عمل ہے، اسی طرح گلزار، عرفان خان، شبانہ اعظمی، جاوید اختر، دلیر مہدی، میکا سنگھ اور پنکھج ادہاس وغیرہ بھی پاکستان آتے جاتےرہے ہیں۔ ہمارے ٹی وی کمرشلز میںبھارتی فن کار ماڈلنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ سب کچھ بہت اچھا ہورہا ہے۔ اس موقعے پر ایک بات بتاتا چلوں کہ بھارت میں مجھ سے پہلے میرے گیت مقبول ہوئے۔ اسی وجہ سے مجھے بار بار بھارت بلایا گیا۔ ‘‘ پاکستان میں اب موسیقی کے ذرائع محدود ہوگئے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ میڈیا نے اس سلسلے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ ایک زمانے میں غضنفر علی نے موسیقی کے فروغ میںنمایاں کردار ادا کیا، گلوکاروں کو کام یابی اور پیسے کمانے کے راستے بتائے۔ آئی ایم میوزک کے ذریعے درجنوں گلوکاروںکو متعارف کروایا۔ ہمیں اپنے گلوکاروں اور فن کاروںکو ترجیح دینا ہوگی۔

گلوکار راحت فتح علی خان کے ساتھ

دوسرے ممالک ہمارے فن کاروںسے بے حد سرمایہ کما رہے ہیں، تو ہمارے ملک کے لوگ ان سے فائدہ کیوں نہیںاٹھاتے۔ ‘‘ ’’فیوژن سے علیحدگی کی وجہ کیا تھی؟‘‘ اس سوال کے جواب میں شفقت امانت علی کا کہنا تھا کہ’’ یہ بات اب بہت پُرانی ہوگئی، آپ نے پوچھا ہے تو بتا دیتا ہوں کہ فیوژن سے علیحدگی کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی، چوں کہ میں گلوکار ہوں، اس لیے لوگوں کی نگاہ میں زیادہ رہتا ہوں، یہ بات میرے ساتھیوں کو اچھی نہیں لگ رہی تھی اور اختلافات بڑھنے لگے تو میں نے علیحدگی اختیار کرلی۔ میرا لائف اسٹائل دوسروں سے ذرا مختلف ہے، زیادہ اختلافات کے چکر میں نہیں پڑتا، دوستوں کے ساتھ گُھل مل جاتا ہوں، ہنستا کھیلتا رہتا ہوں۔ اپنے ساتھیوں پر جلد ہی بھروسا کرلیتا ہوں۔ ہمارے ہاتھوں پر ﷲ تعالیٰ نے جو لکیریں بنائی ہیں، وہ بے مقصد نہیں ہیں،ﷲ تعالیٰ کی ہر تخلیق میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے۔ شہرت حاصل ہوتی ہے تو دولت بھی آ ہی جاتی ہے، لیکن میں ہمیشہ اچھی شہرت کا متمنّی رہا ہوں۔ میں کبھی بھی ﷲ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا ہوں۔ کھانے پینے کا بہت شوقین ہوں۔ اس شوق کی وجہ سے پچھلے دنوں میرا وزن بھی بہت بڑھ گیا تھا، اب وزن کنٹرول کرلیا ہے، تقریباً گیارہ کلو وزن کم کیا ہے۔ کراچی میں ہوتا ہوں تو طارق روڈ اور سندھی مسلم سوسائٹی کے بن کباب ضرور کھاتا ہوں۔ میرے کئی شوق ہیں۔ دُنیا بھر میں جہاں کہیں بھی جاتا ہوں، وہاں سے آرٹ سے متعلق اشیاء خرید کر لاتا ہوں اور اپنے گھر کی زینت بناتا ہوں، جب موڈ اچھا ہو تو میوزک کمپوز کرنے بیٹھ جاتا ہوں۔ آگے بڑھنےاور موسیقی کے شعبے میں دُنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرنےکا خواب دیکھتا ہوں۔ یہ میرا فطری حق ہے، لیکن اتنا بڑا خواب نہیں دیکھتا، جیسے کہ میں امریکا کا صدر بن جاؤں۔ کالج کے زمانے میں ایک لڑکی سے عشق ہوا، جس کی یادیں اب تک ذہن میں تازہ ہیں۔عشق انسان کے بس کی بات نہیں۔ میرا بیٹا صادق میرا کُل اثاثہ ہے۔ خاص محفلِ موسیقی میں میرے ساتھ پرفارم بھی کرتا ہے، ابھی اس کی تربیت ہورہی ہے’’ آئیڈیل ازم پر یقین رکھتے ہیں؟‘‘ اس سوال کے جواب میں شفقت امانت علی نے بتایا’’ ہاں بالکل یقین رکھتا ہوں، آئیڈیل ازم زندگی میں آگے بڑھنے میں مدد بھی کرتا ہے۔ میرے آئیڈیل میرے بابا تھے۔ روٹس سے کبھی علیحدہ نہیں ہونا چاہیے، لیکن تبدیلی ضروری ہے، آئیڈیل ازم کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مغرب زدہ بن جائیں۔ آسٹریا کی ہریالی مجھے بے حد متاثر کرتی ہے،جب بھی بیرون ملک دوروں پر جاتا ہوں تو پاکستان بہت یاد آتا ہے۔ اوپر والا میری تمام دُعائیں قبول کرتا ہے۔ والدہ کے انتقال کو کئی برس ہوگئے، اُن کی بہت یاد آتی ہے۔ مجھے آج ایک بات بہت ستاتی ہے کہ میں نے مرحوم اسد بھائی سے زندگی میں کُھل کر بات چیت نہیں کی۔‘‘

میوزک کنسرٹ میں سب سے زیادہ کون سے گانے کی فرمائش کی جاتی ہے؟ دنیا بھر میں ہونے والے کنسرٹ میں سب سے زیادہ فرمائش قلندری دھمال اور ملّی نغمہ ’’اے وطن پاک وطن‘‘ کی کی جاتی ہے۔ ہمارے گھرانے کے گائیکوں نے پاکستان کی محبت میں جو ملّی نغمے گائے، اسے ہر خاص و عام نے پسند کیا۔