پاکستان میں تھیٹر کرنے کا خیال کئی بار آیا، مگر مصروفیت آڑے آگئی

February 17, 2019

ڈرامے کے سیٹ پر کاسٹ کے ساتھ نعیم طاہر، یاسمین طاہر، شکیل اور دیگر کا گروپ فوٹو

بالی وُڈ کے اداکاروں کا ہالی وُڈ جاکے کام کرنا ، تو اب ایک عام سی بات ہوگئی۔ تاہم، لولی وُڈ (پاکستانی فلم انڈسٹری)کے بھی کئی اداکاروں نے ہالی وُڈ کی فلموں میں کام کیا، جن میں ماہ نور بلوچ، میشا شفیع، نصرت فتح علی خان، عدنان صدّیقی ، عاطف اسلم اور فاران طاہر کے نام نمایاں ہیں، مگر سب سے اچھی بات یہ ہے کہ گزشتہ دنوں ہالی وڈ خود چل کے پاکستان آیا۔ جی ہاں، ہم بات کر رہے ہیں، طاہر انٹرٹینمینٹ کے بینر تلے بننے والے ڈرامے ’’بھائی بھائی‘‘ کی، جو سیم شیفرڈ کی خُو ب صُورت کامیڈی ’’True West‘‘کی اڈیپٹیشن ہے۔ پاکستانی نژاد امریکی ، معروف ہالی وُڈ اداکار فاران طاہر (تھیٹر، ٹیلی وژن، فلم کا ایک بڑا نام، استاد، اسکالر، کالم نگار نعیم طاہر اور معروف براڈ کاسٹریاسمین طاہر کے ہونہار سپوت علی طاہر کے بڑے بھائی، پہلی بار پاکستان میں اسٹیج تھیٹر لے کر آئےاور نہ صرف اِس ڈرامے میںاداکاری کے جوہر دِکھا ئے، بلکہ اس کے ہدایت کاری کے فرائض بھی نبھا ئے۔ اُن کے ساتھ ڈرامے کا مرکزی کردار اُن کے چھوٹے بھائی علی طاہر کا ہے،جن کی شو بز میں اپنی ایک شناخت ہے، جب کہ دیگر کاسٹ میں وِرسٹائل اداکارہ حنا دل پزیر اور عامر قریشی بھی شامل ہیں۔’’بھائی بھائی‘‘ کی کہانی دو ایسے بھائیوں کے گرد گھومتی ہے، جو مزاج کے اعتبار سے بالکل الگ ہیں۔ چھوٹا بھائی (بونی ) ایک لکھاری اور بڑا بھائی (بَڈی)چور ہے، جو امریکا سے آیا ہوا ہے۔دونوں بھائیوں کے درمیان طنز و مزاح پر مبنی مکالموں کو ناظرین نے خُوب سراہا۔ ابتدائی طور پر ڈرامے کو کراچی میں پیش کیا گیا، جو 3 فروری سے 10فروری 2019ء تک آرٹس کاؤنسل میںجا ری رہا۔ڈراما کاسٹ کی دیگر پراجیکٹس میںمصروفیات کی بنا پر ، فی الحال’’بھائی بھائی‘‘ ملک کے دیگر شہروں میں پیش نہیں کیا جارہا، لیکن عوام کی جانب سے بھر پور پزیرائی کے سبب یہ ڈراما جلد مُلک کے دیگر شہروں میں بھی پیش کیا جائے گا۔ گزشتہ دنوں ہم نےڈرامے کے سیٹ پر فاران طاہر سےایک ملاقات کی، جس میں ڈراما’’بھائی بھائی‘‘ سے متعلق تو بات چیت ہوئی، اُن کی نجی زندگی سے متعلق بھی تفصیلاً گفتگو رہی۔احوال ملاحظہ کیجیے۔

س: آپ کی نانی (حجاب امتیازعلی )پہلی مسلم خاتون ہوا باز (پائلٹ) اور دادی انڈیا کی پہلی خاتون ڈاکٹر تھیں ،تو کیا کچھ منفرد کرنے کی خاندانی روایت بر قرار رکھنے کے لیے ہالی وُڈ میں کام کا انتخاب کیا؟

ج: ہمارے ہاں ایک عام تاثر ہے کہ بچّے کو اچھی باتیں سکھاؤ ، تو وہ اچھا انسان بنے گا، جب کہ حقیقت اس سے تھوڑی الگ ہے۔ بچّہ وہ نہیں سیکھتا، جو اُسے سکھایا جاتا ہے، بلکہ وہ سیکھتا ہے، جو اُس کے سامنے ہورہا ہوتا ہے۔آپ جس ماحول ، خاندان میں پرورش پاتے ہیں، اُس کا اثر آپ پر ضرور ہوتا ہے، لیکن صرف نصیحتیں سُن کر اُن پر عمل نہیں کیا جاتا، بلکہ بچّہ اُن باتوںسے متاثر ہوتا ہے، جو عملاً اُس کے سامنے کی گئی ہوتی ہیں۔یہی معاملہ میرے ساتھ بھی ہوا۔میرے پاس ، والدین کی نصیحتوں سے زیادہ خاندان کے بزرگوں کی مثالیں موجود تھیں، جو میرے لیے مشعلِ راہ بنیں۔ جیسے میری پَر نانی وہ پہلی خاتون تھیں، جنہوں نے میگزین نکالا، ( نام مجھے یاد نہیں)۔ میری نانی نےجس زمانے میں ہوا بازی کی تعلیم حاصل کی، اُس وقت لڑکیوں کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنایا پائلٹ بننا معیوب سمجھا جاتا تھا، مگر اُنہوں نے پائلٹ بن کر یہ ثابت کیا کہ ایسا کوئی کام نہیں ہے، جو مسلمان خواتین نہیں کر سکتیں۔ اِ سی طرح میری دادی نے ڈاکٹر بن کراپنے بعد آنے والی اُن تمام لڑکیوں کے لیے راہ ہَم وار کی،جو طِب کے شعبے سے وابستہ ہونا چاہتی تھیں۔میری امّی(یاسمین طاہر) پاکستان کی ایوارڈ یافتہ براڈ کاسٹر ہیں۔اگر ابّا کی بات کی جائے،تواُن کے خاندان میں اُن سے پہلے کوئی تھیٹر ، ڈراما یا ٹی وی اداکار نہیں تھا، اُن کے والد درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے، دادا، دادی کی یہی خواہش تھی کہ ابّا ڈاکٹر بنیں، مگر اُنہوں نے تھیٹر کا انتخاب کرکے اپنے خوابوں کو تعبیر دی۔ چناں چہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کچھ منفرد کرنے کی عادت مجھے وَراثت میںملی ہے۔ بچپن ہی سے دماغ میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ کوئی کام نا ممکن نہیں ہوتا، اگر لگن سچّی ہو، تو منزل تک پہنچنے کی راہیں خود ہی بنتی چلی جاتی ہیںاوریہی مثالیں اورکچھ الگ کرنے کی جستجو مجھے ہالی وُڈ تک لے گئی۔

س: بچپن کیسا تھا؟ کس اسکول و کالج سے میٹرک ، انٹر کیا؟

ج:بچپن بہت اچھا ، مگر دیگر بچّوں سے تھوڑا مختلف تھا۔اُس زمانے میں میری عُمر کے دیگر بچّے اسکول سے واپسی پرکھیلوں کے لیے میدان کا رُخ کرتے ، جب کہ میں سیدھا تھیٹر چلا جاتا ، وہی میرا ’’پلے گراؤنڈ‘‘ہوتاتھا۔ امّاں، ابّا اور دیگر فن کار ، جب ریہرسل کرتے ، تو مَیں انہیںچُھپ چُھپ کردیکھتا ، ہر اداکار کی لائن/ڈائیلاگز مجھے یاد ہوتے ، کئی مرتبہ اُنہیں بتاتا بھی تھا کہ آپ فلاں ڈائیلاگ بھول گئے، اِس بات پر وہ حیران بھی ہوتے کہ اتنے چھوٹے بچّے کو ہماری لائنز کیسے یاد ہیں۔جہاں تک بات ہے اسکول لائف کی، تو وہ بھی دیگر بچّوں سے ذرا مختلف ہی تھی، کیوں کہ میں نے کئی اسکول تبدیل کیے، مگر ابتدائی تعلیم ، کیتھڈرل ہائی اسکول ، لاہورسے حاصل کی۔ پھر ابّا کی تقرری ،ٹیلی ویژن ٹریننگ اسکول، راول پنڈی میں بہ طورپرنسپل ہوگئی، تو ہمیں بھی پنڈی جانا پڑا۔وہاں میرا داخلہ سینٹ میریز اکیڈمی میں ہوگیا،بعد ازاں کچھ ذاتی وجوہ کی بنا پر ہمیں دوبارہ لاہور آناپڑا، جہاں میرا داخلہ ڈویژنل پبلک اسکول میں ہوا، جہاں سے میں نے میٹرک کیا۔ بعدازاں، فورمین کرئسچین کالج، لاہور میں داخلہ لیا۔ تاہم، ابھی انٹر مکمّل بھی نہیں ہوا تھا کہ مَیں امریکا چلا گیااورپھر اَدُھوری تعلیم وہیں سےمکمّل کی۔

س: امریکا جا کر تعلیم حاصل کرنے کا اپنا شوق تھا یا والدین کی خواہش ؟

ج: جب مَیں انٹر کر رہا تھا، وہ ضیاء الحق کا دَورِ حکومت تھا۔ اُن دِنوں خراب حالات کی وجہ سے کالج اکثر و بیش تَر بند ہی رہتے۔ پڑھائی کا حَرج ہو رہا تھا، میں سارا دِن گھر پہ بیٹھا رہتا ۔تب والدین نے تعلیم مکمّل کرنے کے لیےمجھے امریکا بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ وہاںبھیجنے کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ میرے پاس پہلے ہی سے امریکی شہریت موجودتھی، تو مجھے ویزے کے لیے کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔پھرہائی اسکول سے ماسٹرز تک ساری تعلیم امریکا ہی سے حاصل کی۔

علی طاہر اور فاران طاہر’’بھائی بھائی‘‘ کا ایک منظر

س: بیرونِ ملک جانے سے پہلے سوچا تھا کہ اداکاری یا تھیٹر کی تعلیم حاصل کرنی ہے؟

ج: بالکل بھی نہیں۔ دَر حقیقت امریکا میں تعلیم کا آغاز مَیں نے اکنامکس، اسٹیٹس ، کیمسٹری وغیرہ پڑھ کر کیا تھا، مگر کیا کر سکتے ہیںکہ فن و ادب تو خُون میں شامل ہے،تو مَیں کیسے اُ س سے دُور رہ سکتا تھا۔ گریجویشن کے دوران ،مَیں نے ہمیشہ اپنے آپ کو تھیٹر کے سامنے پایا۔ان دِنوں دل و دماغ میں ایک جنگ جاری تھی، دِل کہتا تھا کہ تھیٹر چلواور دِماغ کہتا تھا کہ کوئی ایسا کام کیا جائے، جس سے مستقبل تاب ناک ہو، زیادہ پیسے کماسکوں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میں ہر سیمسٹر میںبزنس ، اکنامکس وغیرہ کے ساتھ کوئی ایک کورس تھیٹر یا اداکاری سے متعلق بھی لے لیتا ،مگردل و دماغ کی جنگ کا کوئی نتیجہ تو نکلنا ہی تھااور مجھے فخر ہے کہ بالآخر جیت میرے دل کی ہوئی اور مَیں نے اپنے لیے تھیٹر ، اداکاری کا انتخاب کیا، گریجویشن اور ماسٹرز تھیٹر کے مضامین میں کیا۔مجھے معلوم ہے کہ اگر میں کسی کاروباری شعبے میں اپنا مستقبل بناتا ، تو شاید تھوڑے زیادہ پیسے کمالیتا، لیکن اگر آپ محنتی اورصلاحیتوں سے بھرپور ہیں، تو کسی بھی شعبے میں اتنے پیسے ضرور کما سکتے ہیں کہ اچھی طرح گُزر بسر ہوجائے۔

س: والدین کو تھیٹر میں کام کرتا دیکھ کر کیسا محسوس کرتے تھے؟

ج: جس طرح ایک خاندان میں جہاں ڈاکٹرز کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، اُن کے بچّے بھی غیر ارادی طور پر طبّی اصطلاحات سے واقف ہوجاتے ہیں، اُنہیں ادویہ کے نام ، کام سے بھی واقفیت ہو جاتی ہے،بالکل یہی معاملہ میرے ساتھ بھی تھا۔تھیٹر میرے لیے کوئی انجان جگہ نہیں بلکہ گھر تھا۔جو دیگربچّوں یا ناظرین کے لیے کام تھا، وہ میرے لیے روز کا معمول تھا، امّاں، ابّا کو اسٹیج پر یا اداکاری کرتے دیکھنا میرے لیے کوئی غیر معمولی بات نہ تھی۔ صبح کا ناشتہ ہو یا رات کا کھانا ، ہمارے گھر میں صرف ادب، تھیٹر، فن، کی باتیں ہوتی تھیں، اس لیے مجھےیہ غیر معمولی نہیں لگتا تھا۔

س: تھیٹر تو گھر جیسا تھا، کیا کسی اداکار سے بہت متاثر بھی تھے؟

ج: میں نے بچپن میں کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں اداکار بنوں گا، لیکن اب سوچتا ہوں، تو خُوب ہنسی آتی ہے کہ میں باتھ روم میں چُھپ چُھپ کر آئینے کے سامنے اداکاری کیا کرتا تھا، خود کو مختلف کرداروں میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ، دیکھتا تھا کہ میں کیسا لگ رہاہوں، کیسا کام کر رہا ہوں۔جہاں تک متاثر ہونے کی بات ہے، تو بلا شبہ اپنے والدنعیم طاہر، قوی خان اور اِن جیسے دیگر اداکاروں سے بے حد متاثر تھااور میں نےاُن سے بالواسطہ اور بِلا واسطہ بہت کچھ سیکھابھی۔کبھی کبھی صرف اُن کا کام دیکھ کر سیکھنے کا موقع مل جاتا تھا، تو کبھی بہ نفسِ نفیس سوالات پوچھ کر۔

فاران طاہر

س: پہلا تھیٹر پلے کون سا دیکھا اور کس عُمر میں؟

ج: ’’آپ کی تعریف ‘‘ دیکھا تھا، جس میں میرے امّاں ، ابّا اداکاری کر رہے تھے اور اُس وقت میں محض تین برس کا تھا۔ یقیناً آپ کویہ سُن کر حیرانی ہوئی ہوگی کہ تین سال کی عمر میں دیکھا گیا اسٹیج شو مجھے کیسے یاد ہے، پر یہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ایک نعمت ہی ہےکہ میری یاد داشت بہت اچھی ہے۔ کبھی کبھی توامّی ابّا بھی حیران ہوتے ہیں،کیوں کہ میرے بچپن کی جو باتیں اُنہیں بھی نہیں یاد،وہ بھی یاد ہیں۔جیسےمیرا پالنا، کمرے کے پردوں کا رنگ وغیرہ ۔

س: خود سب سے پہلے کس اسٹیج شو یا تھیٹر پلے میں کام کیا اور کس سَن میں؟

ج:میں نےامریکا میں سب سے پہلےہیرلڈ پینٹر کے ایک پلے ’’Betrayal‘‘میں 1981ء میں کام کیا تھا۔ اُ س ڈرامے کی خاص بات یہ تھی کہ اُس میں بس چار ہی کردار تھے۔ یہاں میں ایک بات کا ذکرضرور کرنا چاہوں گا کہ مَیں نےکیریئر کے آغاز میں لاتعداد اسٹیج/تھیٹر شوز میں کام کیا،مگر کبھی یہ نہیں سوچا کہ مرکزی کردار یا زیادہ پیسےملیں گے، تو ہی کردار کروں گا۔بس صرف کام کرنے اور سیکھنے کا شوق تھا۔

س: امریکا میں تعلیمی اخراجات کے لیے دوران ِتعلیم ملازمت بھی کی؟ کن جگہوں پر ، کیسا تجربہ رہا؟

ج: جی بالکل کام کیا اور ہر طرح کا کام کیا۔ نوابوں والی زندگی اور آسانیاں صرف گھر میں مل سکتی ہیں، بیرون ِملک نخرے اُٹھانے والا کوئی نہیں ہوتا۔، میں نےبرتن دھوئے، بیرا گیری بھی کی اورمَیں یہ سب بتانے میںکبھی شرم محسوس نہیں کرتا، کیوں کہ مَیں نےچوری کی ، نہ ڈاکہ ڈلا بلکہ محنت کرکے اپنے اخراجات اُٹھائےاور مجھے اس بات پر فخر ہے۔

س: جب والدین کو بتایا کہ آپ بھی اداکار بننا چاہتے ہیں، تو اُن کا ردّ ِ عمل کیا تھا؟

ج: میں نے سوچا تھا کہ ابّا انتہائی خُوش ہو کر کہیں گے کہ ’’جاؤ اور ہالی وُڈ میں نام کماؤ‘‘ مگر ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا ’’تم کیوں اس شعبے کی طرف آنا چاہتے ہو؟‘‘ میں جب جب اُن سے یہ با ت کہتا ، اُن کا بس ایک ہی جواب ہوتا کہ ’’کیوں؟‘‘اُس وقت مجھے ابّا کا رویّہ کافی غیر فطری اور عجیب لگا تھا، مگر پھر احساس ہوا کہ وہ دَر حقیقت مجھے یہ سوچنے پہ مجبور کرنا چاہتے تھے کہ مَیں واقعی اس انڈسٹری میں قدم رکھنا چاہتا ہوں؟ صرف چکا چوند سے متاثر ہوں، پیسے بنانا چاہتا ہوں یا حقیقت میں تخلیقی کام کرنے کے لیے سنجیدہ ہوں۔ کام کے دوران مَیں نے یہ جانا کہ میرے نزدیک پیسا ہی سب کچھ نہیں ہے، کیوں کہ مَیں نے کئی مرتبہ بِناپیسوں کے کام کیا، کم پیسوں میں بھی کام کیا اور کئی مرتبہ زیادہ پیسے بھی لیے، لیکن کام پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔

س: ہالی وڈ میں اپنی پہلی فِلم ’’The Jungle Book‘‘کے لیے آڈیشن دیا یا کردار آفر ہوا تھا؟

ج: ’’دی جنگل بُک‘‘ 1994 ءمیں ریلیز ہوئی، جس میں، مَیں نے ’’نتھو‘‘ کا کردار ادا کیا تھا۔ جن دنوں فِلم کی کاسٹ کا انتخاب ہورہا تھا، اُن دنوں مَیں ایک تھیٹر پلے کر رہا تھا، اتفاق سے فلم کے ہدایت کار بھی وہ شو دیکھنے آئے، میرا کام دیکھ کر اُنہوں نے مجھے فلم اورکردار کے بارے میں بتایا ۔ بعد ازاں، بس ایک رسمی ساآڈیشن ہوا، جو دینا ضروری ہوتا ہے۔

س: بہ طور پاکستانی یا ایشیائی اداکار ہالی وڈ میں کن چیلنجز کا سامنا کرناپڑا؟

ج:جس دَور میں، مَیں نے ہالی وُد میں کام کا آغاز کیا، اُس وقت مشکلات بہت زیادہ تھیں، کیوں کہ ہمارے اداکار اُس انڈسٹری میں خال خال ہی نظر آتے تھے۔مجھے بہت سی دُشواریوں کا بھی سامنا کرانا پڑا، مگر مَیں بہت ڈھیٹ ، سَر پھِرا سا ہوں، میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ ہالی وُڈ میں خود کو منوانا ہے، تو منوانا ہی تھا۔ ایسا نہیں کہ مجھ میںخامیاں نہیں تھیں، مگر مَیں نے اُنہیں ختم یا کم کرنے کی ہر ممکن کو شش کی۔ جیسے وہ کہتے کہ آپ کے پاس تھیٹر یا اداکاری کی تعلیم نہیں ہے، تو مَیں نے اس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی، گریجویشن اور ماسٹرز کیا، میرا تلفّظ، لب و لہجہ انگریزوں والا نہیں تھا، تو مَیں نے اُس کے لیے بھی بہت محنت کی۔لیکن اگر کوئی یہ کہتا کہ تم ایشیائی باشندے ہو، اِس وجہ سے کام نہیں مِل سکتا، تو مَیں نے کہا کہ مَیں اسی ’’چمڑی‘‘ کے ساتھ کام کرکے دِکھاؤں گا اور مَیں نے خود کو منوایا۔ یہ تمام کام یابیاں راتوں رات میرا مقدّر نہیں بنیں، بلکہ اس میں بہت وقت ، سخت محنت شامل ہے۔

س: آپ نے پاکستانی فلم ، ڈراما یا تھیٹر انڈسٹری میں کیریئر کیوں نہیں بنایا؟

ج:پاکستان میں کام ملنا یا کام کرنا میرے لیے نسبتاً آسان ہوتا، ایسا نہیں ہے کہ میں یہاں بنا محنت کے آگے بڑھ جاتا ، مگرجو مشکلات اور اُن کے نتیجے میں ملنے والا سبق ، مَیں نے امریکا میں اکیلے رہ کرسیکھا ، وہ یہاں کبھی نہ سیکھ پاتا۔

س:کبھی دل چاہا کہ سب چھوڑ کر اپنے وطن چلا جاؤں ؟

ج: (زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے) ہر روز یہی دِل چاہتا تھا۔ لیکن اگر مَیں ایسا کرتا ، تو میری خود داری کو ٹھیس پہنچتی، زندگی بھر یہ ملال کسی بد نُما داغ کی طرح میرے دِل میں رہتا کہ مَیں اپنے بَل پر کچھ نہیں کر سکا، مشکلات سے راہِ فرار اختیار کر بیٹھا۔ یہ بوجھ اتنا زیادہ ہوتا کہ مجھے کبھی سُکون نہیں لینے دیتا، میں نے ہالی وُڈ انڈسٹری میں ساری کشتیاں جلا کرقدم رکھا تھا۔کیریئر کے ابتدائی دِنوں میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میرے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں تھا، تو مَیں گاڑی میں سویا، برتن دھوئے اور ریستوراں میں کام بھی کیا۔ اگر مَیں چاہتا، تو ابّا کو مشکل حالات یا دُشواریوں سے متعلق آگاہ کر سکتا تھا، مگر مَیں نے ایسا نہیں کیا، اُنہیں یہی کہتا کہ سب اچھا ہے، کوئی پریشانی نہیں ہے۔

س: اتنے برسوں بعد پاکستان میں کام کرنے ، وہ بھی تھیٹر کرنے کا خیال کیوں آیا؟نیز ’’True West‘‘کے انتخاب کی کوئی خاص وجہ؟

ج: خیال تو کئی بار آیا، انسان اپنی جڑوں سے دُور تو نہیں رہ سکتا، مگر ہر مرتبہ ذاتی یا پروفیشنل کام بیچ میں آجاتا اور یہاں کام کرنے کا خواب ادُھورا رہ جاتا۔ تھیٹر میری پہچان ہےاور اسٹیج پہ کام کرنے کا ااپنا الگ ہی مزا ہے۔اب شروعات کردی ہے، تو پاکستان میںمستقبل میں جلد دیگر پراجیکٹس پر کام کروں گا۔ ’’True West‘‘کا انتخاب اس لیے کیا ، کیوں کہ یہ ایک مزاحیہ ڈراما ہے۔دوایسے بھائیوں کی کہانی ، جو مزاج میں ایک دوسرے سے بالکل الگ اور بے گانے ہیں۔چھوٹا بھائی (بونی)ایک لکھاری ہے، جو اپنی کہانی ایک فِلم پروڈیوسر (نظیرضیغم ) کو بیچنے کی کوشش کر رہا ہے، جب کہ بڑا بھائی (بَڈی، یہ کردار مَیں نبھا رہا ہوں)امریکا سے آیا ہوا ایک چور ہےاوراِ ن کی امّاں ہیں، جو ہُنزہ گئی ہوئی ہیں۔ مزاج کے اعتبار سے بالکل جدا دونوں بھائی ، جب امّاں کی غیر موجودگی میں ملتے ہیں ، تو ہنسی ، مذاق کا طوفان بپا ہوجاتا ہے۔ ہم نے ڈرامے میں مزید رنگ بھرنے کے لیے اس میں’’ مِنگلش‘‘ بولی ہے، تاکہ ناظرین کی سمجھ میں بھی آئے اور وہ شو سے بھر پور محظوظ بھی ہوں۔

س: آپ ڈرامے میں ہدایت کاری کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں، اداکاری اور ہدایت کاری ، ایک ساتھ کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟

ج: تجربہ اچھا، مگر تھوڑا مشکل تھا، کیوں کہ ہدایت کار شو کو مختلف زاویے سے دیکھ رہا ہوتا ہے، اُس کی پوری توجّہ شو پر ہوتی ہے، جب کہ اداکاری کے ساتھ شو کے ہر کردار پر توجّہ دینااور اپنے کردار کو بھی بہ خُوبی نبھانا ذرا مشکل ہوجاتا ہے۔

س: ہالی وڈ اور لولی وُڈکے معیار میں تو زمین آسمان کا فرق محسوس ہوا ہوگا؟

ج: جی ، کام کے معیار میں فرق تو ہے، لیکن اب ہماری انڈسٹری بھی اپنے پَیروں پہ کھڑی ہو رہی ہے، مضبوط ہو رہی ہے اور آگے کی جانب رواں ہے۔ اِس لیے مَیں پُر امّید ہوں کہ آیندہ دس، پندرہ برسوں میں لالی وُڈ بھی ایک مستحکم انڈسٹری بن کر اُبھرے گی۔

س: آپ نے اب تک جتنے بھی کردار نبھائے ، اُن میں پسندیدہ اور مشکل ترین کردار کون سا ہے؟

ج: مَیں کسی بھی کردار کو آسان سمجھ کر نہیں نبھاتا۔ کوئی بھی نیا ڈراما، تھیٹر یا فلم کرنے سے پہلے جو کرادار نبھایا ہوتا ہے، وہی میرا پسندیدہ کردار ہوتا ہے، کیوں کہ اگر وہ مجھے پسند نہ ہوتا ، تو میں اُسے نبھاتا ہی نہیں ۔

س: والدین کی آپ کے کام سے متعلق کیا رائے ہے؟کسی کام یا کردار پر ابّا سے ڈانٹ پڑی یا تنقید کا سامنا کرنا پڑا؟

ج:ڈانٹ تو کبھی نہیں پڑی، مگر صلاح مشورے دیتے رہتے ہیں۔ جب کبھی ابّا میرا کوئی اسٹیج شو دیکھنے کے لیے آئے، تو شو شروع ہونے سے قبل کہتے ’’تم کچھ پریشان لگ رہے ہو، پُر سکون ہو کر اسٹیج پر جاؤ اور کام کرنا‘‘اور مَیں یہ سوچ رہا ہوتا کہ مَیں تو پریشان نہیں ہوں بعد میں پتا چلتا کہ دَر حقیقت وہ میری پرفارمینس کے لیے پریشان ہوتے ، گھبراہٹ تو اُنہیں ہو رہی ہوتی تھی اور وہ مجھے سمجھا کر اپنی گھبراہٹ دُور کرتے۔

س: فیملی لائف کے بارے میں بتائیے، کتنے بچّے ہیں؟

ج: میرے دو بچّے (لینا اور جوان )ہیں۔ بیوی سے علیحدگی ہو چکی ہے۔

س: کیا ذاتی اور پروفیشنل زندگی کے درمیان توازن برقرار رکھنا آسان ہے؟

ج: نہیں، بہت مشکل ہے۔کیوں کہ میری نوکری 9 سے 5 والی تو ہے نہیں، اِس لیے بچّوں کو وقت دینے میں مشکل ہوتی ہے، لیکن جب اُن کے ساتھ ہوتا ہوں ، تو پورا وقت اُن ہی کو دیتا ہوں، اُن کے لیے ناشتا بنانا، اُن کے کام کرنا، اُن کی دِ ن بھر کی رُوداد سننا،اُن کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے جانا ، مطلب بچّوں کے ساتھ مَیں سلیبرٹی نہیں بلکہ صرف اُن کا ابّا ہوتا ہوں، جس کی توجّہ کا محور و مرکز اُس کی اولاد ہوتی ہے۔

ہنسی، مذاق کا طوفان…’’بھائی بھائی ‘ کی کاسٹ کیا کہتی ہے؟

ڈراما ’’بھائی بھائی‘‘ کی کاسٹ سے بھی مختصراً بات چیت ہوئی۔ علی طاہر، حنا دل پزیر اور عامر قریشی نے کچھ اس طرح اظہارِ خیال کیا۔

س: بھائی کے ساتھ کام کا تجربہ کیسا رہا؟اس ڈرامےکی ریہرسل کب شروع ہوئی؟

علی طاہر:بھائی کے ساتھ کام کرنے میں بہت مزا آرہا ہے، اُن کا تجربہ ہم سے زیادہ ہے اِس لیے سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے۔ فاران کام کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہیں، اُس حوالے سے کوئی کوتاہی برداشت نہیں کرتے۔ ہم نےگزشتہ برس دسمبر سے ریہرسلز کا آغاز کردیا تھا، پوری کاسٹ بہت محنت اور لگن سے کام کررہی ہے،امّید ہےکہ ناظرین کو ہمارا کام پسند آئےگا۔

س: حنا! آپ اپنے کر دار کے بارے میں کچھ بتائیں؟

حنا دل پزیر: مَیں دونوں بھائیوں کی امّاں کا کردار نبھا رہی ہوں۔ مَیں اُن دنوں ہُنزہ میں ہوتی ہوں، جب میرابڑا بیٹاامریکا سے پاکستان آتا ہےاور اپنے چھوٹے بھائی کے پاس ٹھہرتا ہے، میری غیر موجودگی میں یہ دونوں بھائی ہنسی ،مذاق کا جو طوفان بپا کریں گے،وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔میرے کردار کی اصل خُوب صُورتی ایکسپریشنز میں ہے، ڈائیلاگز میں نہیں۔

س: ’’بھائی بھائی‘‘ کس طرح کے ناظرین کے لیے بنایا گیا ہے؟

عامر قریشی: ویسے تو یہ ڈراما ہر عُمرکے ناظرین کو پسند آئے گا، لیکن چوں کہ یہ ایک مزاحیہ ڈراما ہے ، اس لیے نوجوانوں کو زیادہ پسند آئے گا۔ذاتی طور پر مجھے اپنے کردار ، اپنے مزاج اور شخصیت سے بہت ہم آہنگ لگا۔