ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب

February 13, 2019

مرزا غالب

ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب

خون جگر ودیعت مژگان یار تھا

اب میں ہوں اور ماتم یک شہر آرزو

توڑا جو تو نے آئنہ تمثال دار تھا

گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں

جاں دادۂ ہوائے سر رہ گزار تھا

موج سراب دشت وفا کا نہ پوچھ حال

ہر ذرہ مثل جوہر تیغ آب دار تھا

ہر ذرہ مثل جوہر تیغ آب دار تھا

کم جانتے تھے ہم بھی غم عشق کو پر اب

دیکھا تو کم ہوے پہ غم روزگار تھا

کس کا جنون دید تمنا شکار تھا

آئینہ خانہ وادی جوہر غبار تھا

کس کا خیال آئنۂ انتظار تھا

ہر برگ گل کے پردے میں دل بے قرار تھا

جوں غنچہ و گل آفت فال نظر نہ پوچھ

پیکاں سے تیرے جلوۂ زخم آشکار تھا

دیکھی وفائے فرصت رنج و نشاط دہر

خمیازہ یک درازی عمر خمار تھا

صبح قیامت ایک دم گرگ تھی اسدؔ

جس دشت میں وہ شوخ دو عالم شکار تھا