حکومتی منصوبہ بندیاں

February 18, 2019

گل و خار …سیمسن جاوید
جب پی ٹی آئی کے خیر خواہ دوستوں سے بات ہوتی ہے تو اکثریہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا آپ عمران خان حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ ان سب کا ایک ہی جواب ہوتا ہےکہ اْسے وقت تو دو ۔ وہ بھی اپنی جگہ درست کہتے ہیں کیونکہ ابھی انہیں حکومت سنبھالے وقت ہی کتناہوا ہے۔ ابھی صرف چھ مہینے ہی تو ہوئے ہیں۔مگران چھ مہنیوں میں ایسا کچھ نظر نہیں آیا جس سے مستقبل میں کوئی امید رکھی جا سکے۔اب توپاکستان یورپین کمیشن کے کمزور مالیاتی نظام رکھنے والے 23 ممالک کی فہرست میں بھی شامل ہو گیا ہے۔ خالی دعوؤں سے تو حکومت نہیں چلتی ۔ اگرکہاوت والے پٹھان کی طرح پرانی کھنچی ہوئی لیکروں کو مٹا کرپھر نئے سرے سے لکیریں کھنچناشروع کردیںگےتوعوام چیخ و پکار کریںگے ہی۔ معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے اورغریبوں کو روز گار مہیا کرنے کے لئے شارٹ ٹرم منصوبوںکی ضرورت ہے اس کے بجائے اگر پچاس سالہ منصوبے اور پالیسیاں بنائیںگے تو مشکلات ہو سکتی ہیں کیونکہ آئین آپ کوصرف پانچ سال کی مدت دیتاہےایک سال تو حکومت کوسمجھنے میں ہی گزر جاتا ہے۔ غریب عوام کے گھر کا چولہاجلنا دشوار ہو گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے کئی حمایتی یہ بھی کہتے ہیں کہ خان صاحب پچھلے 70 سال کی گندگی ختم کر رہے ہیں۔ ان کی بات درست سہی مگرسوچنے کا مقام ہے کہ پھریہ تو ایک معجز ہ ہی ہے جوپاکستان ستر سال تک زندہ رہ گیا ہے۔ان حقائق کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ ملک میںبیشتر عرصے تک مارشل لا اورسیاسی شورشوںنے سر اٹھائے رکھا ۔معاملات فہم و تفہیم سے نمبٹانے اور مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھنے کی بجائے سیاسی پارٹیاں سڑکوں اور چوکوں پر فیصلے کرنے کو ترجیح دیتی رہی ہیں۔’’ احتساب سب کا‘‘ کی بجائے صرف مخصوص لوگوں کے گردگھوم رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میںلنگڑی لولی جمہوریت کبھی بھی پوری طرح صحت یاب نہیں ہونے پائی۔حکومت اور اپوزیشن کی کھینچا تانی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے معیشت کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہے جس کی سزا عوام کو ملتی ہے۔چین کے سابق صدرموزئے تنگ کے مطابق اگر ایک سال کی منصوبہ بندی کرنا ہے تو گندم اگائیں،دس سال کی منصوبہ بندی کرنا ہے تو درخت لگائیں۔اگر صدیوں کی منصوبہ بندی کرنا ہے تو نسلوں کو تعلیم سے روشناس کرائیں۔ پاکستان کی اقلیتیں پہلے ہی سے سیاسی ، قانونی ،معاشی اور سماجی ابتری کاعرصے سے شکار ہیں۔انہیںموجودہ حکومت سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ پی ٹی آئی کے مسیحی کارکن اسی بات سے بہت خوش ہیں کہ عمران خان ان کے لئے عیسائی کا لفظ استعمال نہیں کرتے بلکہ مسیحی برادری کہتے ہیں ۔انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ان کی حیثیت ایک مذہبی اقلیت کی ہے۔یعنی دوسرے درجہ کے شہری ، لفظوں کے استعمال سے دل تو خوش ہو جاتا ہے پر یہاں عمل کی ضرورت ہے۔عمران خان نے خودبھی اور ان کے دو وزیروں ، علی احمد جو وکیل بھی ہے،نے ایک ٹاک شو میں مسیحی نمائندے خلیل سندھو کو کافر کہہ کر ساری مسیحیت کو کافر قرار دے دیا۔ انہوں نے یہ کہا تھا کہ جو ہمارے رسول کو نہیں مانتا وہ کافر ہے۔ ایک اور دوسرے پنجاب اسمبلی کے وزیر نے سیشن کے دوران ایک مسیحی نمائندے کو چوہڑا کہا تھا۔دوسرے معذرت بھی نہ کرنا۔کیا یہ مسیحیوں کی تحقیر نہیں؟۔ مسیحی عوام میں ایک بار پھر’’ سلیکشن نہیں الیکشن ‘‘ کا جذبہ جوش مارنے لگا ہے ۔انہوں نے وزیرِاعظم عمران خان ،چیف جسٹس آف سپریم کورٹ اور چیف آف آرمی سٹاف سے گزارش کی ہے کہ انہیں اپنے ووٹ سے اپنے نمائندے چننے کا حق دلوایا جائےجو ان کا آئینی حق ہے۔اقلیتوں کوجمہوری حق نہ دینا اور ملکی سیاست سے دور رکھنا غیر آئینی ہے۔الیکشن کمیشن جو ایک خود مختار ادارہ ہے اقلیتوں کے بارے میں کوئی قدم نہیں اٹھا رہا۔مگر ایک سازش کے ذریعے انہیں کبھی مخلوط تو کبھی جداگانہ انتخابات میں الجھا کر رکھ دیا گیا ہے۔سیاسی استحکام کسی بھی کمیونٹی کے لئے مستحکم ہونے کا سبب بنتا ہے۔ اس وقت خود مسیحی بھی طریقہ انتخابات میں بھٹ گئے ہوئے ہیں۔قیام پاکستان سے لے کر 1984تک اقلیتوں کے لئے مخلوط طرزِ انتخابات تھے۔ قیام پاکستان کے بعداقلیتوں نے سیاسی جمہوری عمل میں اپنا کردار ادا کیا۔اْس وقت قانون ساز اسمبلی میںاقلیتوں کے12ممبرز تھے ۔جن میں سندھ اسمبلی،سرحد اسمبلی اور پنجاب اسمبلی تھی چونکہ صوبہ پنجاب میں مسیحیوں کی اکثریت تھی لہٰذا یہاں سے چار ممبرز،بنام ایس پی سنگھا،سی ای گبن،فضل الٰہی اور بی ۔ایل رلیارام کو لیا گیا۔ ان ممبران نے 1946سے 1969تک نمائندگی کی۔ 1970میںصدر ایوب نے جنرل الیکشن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا اعلان کیا۔تو مسیحی سیاسی جماعتوںآل پاکستان کرسچن لیگ اور پاکستان مسیحی لیگ نے جداگانہ انتخابات کا پْر زورمطالبہ کیا ۔5جولائی 1977کو جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو معطل کر کے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا۔ مارشل لا ایڈمنسٹریٹرجنرل ضیاء الحق نے مذہبی بنیاد پرستوں کے کہنے پر1985میںمذہبی اقلیتوںبمع احمدیوں کے لئے جداگانہ انتخابات کا قدم اٹھایا۔ حلقہ بندیوں کی بجائے صوبائی اسمبلی کے لئے حلقہ پورا صوبہ اور قومی اسمبلی کے لئے پوراپاکستان ٹھہرایا گیا۔ جس کی وجہ سے امیدواروں کو انتخابی مہم چلانا انتہائی مشکل تھااور دھاندلی کے چانسز سو فیصد تھے۔تمام پولنگ سٹیشنوں سے انتخابی نتائج حاصل کرنے میں ہفتوں لگ جاتے تھے۔منتخب نمائندوں کی کارکردگی بھی فنڈز حاصل کرنے کے علاوہ صفر تھی۔اس کے علاوہ خاندانوں میںتقسیم اور لڑائی جھگڑے شروع ہو گئے۔اس صورتحال کوختم کرنے کے لئےNCCP اور پیس اینڈ جسٹس اور دنیا کی جمہوری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے دباؤ کے بعد جنرل رپرویزمشرف نے جنوری 2002میں جداگانہ انتخابات ختم کرکے مذہبی اقلیتوں کے لئے مخلوط طریقہ انتخابات نافذ کر دیئے۔مسیحی حلقوں نے شکرادا کیا کہ وہ دوبارہ قومی دھارے میںشامل ہوگئے ہیں۔جمہوری اور آئینی حق ووٹ کے بجائے سلیکشن پرہی رہا۔مذہبی اقلیتیں اپنے جمہوری حق کے لئے ابھی تک جدوجہدکے عمل سے گزر رہی ہیں۔ مخلوط طریقہ انتخابات پوری دنیا میں رائج ہے مگر مخلوط انتخابات میں سلیکشن نہیں الیکشن ہوتے ہیں ۔سیاسی پارٹیاں وہاں رہنے والی تمام کمیونٹیزکے نمائندوں کو بلا رنگ و نسل و مذہب عوام کے ووٹ سے منتخب کرواتے ہیں اور عوام سیاسی پارٹی کی پالیسوں اور کار کردگی کو دیکھ کر ووٹ دیتی ہے نہ کہ نمائندوں کو دیکھ کر ۔لیبر پارٹی کے صادق خان جو پاکستان نژاد مسلمان ہیںان کا لندن کا میئر منتخب ہونا،مسلم ممبراسمبلی ،وزاء،کونسلر زاور کئی میئر اس کی زندہ مثال ہے۔ جمہوری ممالک میں مذہب کو نہیں بلکہ حقدار کو حق دیا جاتاہےجو پاکستان میں اب تک ممکن نہیں بنایا گیا۔ کیونکہ ان کی تعصب سے بالا تر ہوکر جمہوری اور سیکولرسطور پر تربیت نہیں کی گئی بلکہ انہیں مذہبی انتہا پسند ی کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔ مسیحیوں کا یہ مطالبہ ہے کہ انہیں دہرے ووٹ کا حق دیا جائےجو جداگانہ اور مخلوط طرز انتخابات کی بہتر شکل ہے۔ایک ووٹ وہ اقلیتی نمائندے کودے تو دوسرا وہ مسلم نمائندے کو دے سکے تاکہ قومی یکجہتی کو فروغ ملے ۔مگر مسیحی مذہبی انتہا پسند ی کی وجہ سے نہایت دل برداشتہ ہو چکے ہیں ایک تاثر یہ بھی دیا جارہا ہے کہ احمدیوں کی طرح مسیحیوں کو بھی موجودہ انتخابی سسٹم کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ یہاں میں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ احمدیوںنے خود کو کبھی بھی اقلیت تسلیم نہیں کیابلکہ وہ خود کو مسلمان ہی کہتے ہیں تعزیرات پاکستان کے آئین 295C,296,297خصوصاً 298C کی رو سے نہ تو وہ خود کو مسلم کہہ سکتے ہیں ا ور نہ ہی اپنے عقید ے کی تبلیغ کر سکتے ہیں۔تحریک پاکستان میں انہوں نے بحیثیت مسلمان حصہ لیا اور اہم عہدوں پر فائز رہے۔ذوالفقا علی بھٹو نے ’’ختم نبوت‘‘ کے حوالے سے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کر ان کی تما م مذہبی اور سیاسی سرگرمیوں کو محدود کردیا۔احمدیوں نے اس لئے انتخابات کا بائیکاٹ کیا کہ وہ خود کو کبھی بھی اقلیت تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیںجب کہ مسیحی،پارسی ، سکھ،ہندو اور شیڈول کاسٹ اقلیتیں ہیں اور اقلیتیں ہی رہیں گی۔ 1956 اور 1962کے قانون میں مذہبی اقلیتوں پر کوئی قانونی دباؤ نہیں تھا۔ 1973کے آئین کے مطابق پاکستان کو اسلامک ر ی پبلک آف پاکستان قرار دیا گیاجس کے مطابق پاکستان کا صدرکوئی غیر مسلم نہیں ہوسکتا۔ کیا یہ اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی نہیں؟؟؟