سر رہ گزر

January 04, 2013

گوجرانوالہ میں ینگ ڈاکٹرز کا ہنگامہ، ایم ایس اور سینئر ڈاکٹر پر تشدد ، متعدد گرفتار کر لئے گئے۔
یہ ینگ ڈاکٹرز بڑے دبنگ ڈاکٹرز نکلے کہ مریضوں کا تو جو حال کیا سو کیا کہ اب ان کو بھی گریبان سے پکڑ لیا جو ان کو سفید کوٹ پہناتے ہیں، استاد اور شاگرد کا رشتہ شاید ان برسر جنگ ینگ ڈاکٹرز کے ہاں باقی نہ رہا اور یہی وجہ ہے کہ ایک طویل عرصے سے ان کی سڑکوں، گرفتاریوں، لاٹھیوں سے یاری ہے اور وہ مسیحائی نہ رہی جس سے روح تک چین پہنچ جاتا تھا، بلکہ ایک ایسی بے اعتنائی جاری ہے کہ #
مریض ”جسم“ پر رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں ”جفا“ کی
ینگ ڈاکٹرز کا کیا مسئلہ ہے کیوں حل نہیں ہوتا جبکہ ہائی کورٹ نے ان کی ہڑتال پر پابندی بھی لگا رکھی ہے۔ اگر ایک شخص کسی بھی محکمے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد گریڈ 17میں بھرتی ہوتا ہے تو انصاف کا تقاضا ہے کہ تمام سترھویں گریڈ والے ایک جیسا پے سکیل حاصل کریں۔ اب اگر ڈاکٹر اپنے لئے کوئی وی آئی پی سکیل یا سروس سڑکچر مانگتے ہیں تو پھر ہم کیا کہہ سکتے ہیں ۔
بھلا پنجاب حکومت میں اتنی سکت کہاں کہ وہ ینگ ڈاکٹرز کو خصوصی سروس سٹرکچر فراہم کرے۔ اس کے بعد دوسرے شعبوں کے افسران بھی سڑکوں پر نکل آئیں گے، دکھی انسانیت کو اور دکھی کرنے والے ینگ ڈاکٹرز نہیں ہو سکتے کوئی بے نام و ننگ ڈاکٹرز ہی ہوں گے۔ ارباب بست و کشاد ان ینگ ڈاکٹروں کا کچھ علاج کریں کہ یہ پھوڑا جو مسلسل پک رہا ہے، کہیں مریضوں کا ناسور نہ بن جائے۔
#####
میاں نواز شریف نے کہا ہے قوم کو درآمد شدہ سیاسی شعبدہ بازوں کی ضرورت نہیں ۔ دوسری جانب وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف فرماتے ہیں اصلاحات کے لیکچر دینے والے اپنی اہلیت دکھائیں۔
حق تو یہ ہے کہ حق تب ادا ہو گا کہ ہم کہہ دیں میاں صاحب ہوں یا راجہ جی دونوں نے حقائق کے براعظم کو چھوڑ کر ایک چھوٹے سے جزیرے پر کھڑے ہو کر بیان دے دیئے ہیں۔ ہمارے ہاں اگر بہترین مصنوعات باہر سے آ سکتی ہیں تو بہترین لیڈر کیوں درآمد نہیں کئے جا سکتے، یہاں کا کریم تو باہر ہے، کچی لسی اندر ہے جسے قوم64برسوں سے رڑک رہی ہے اور اتنا مکھن بھی سطح پر نہیں آتا کہ روزہ دار اپنے ہونٹ ہی تر کر لے۔ دس برس خود میاں صاحب بھی اپنی پسندیدہ بلکہ مطلوبہ مرضی سے باہر رہے اور جب لوٹ کے آئے تو کئی ڈرامے چل جانے کے باوجود انہوں نے اپنا لیگی ڈرامہ جو سچی کہانی پر لکھا گیا وہیں سے شروع کیا جہاں سے ”شائستہ زید“ نے چھوڑا تھا۔ اگر کوئی غریب آدمی کسی طرح کوئی پج لگاکے باہر چلا جاتا ہے اور وہاں سے زرمبادلہ کما کما کر وطن بھیجتا ہے اور اپنی صلاحیت کو ترقی یافتہ ممالک میں رہ کر اور چمکا لیتا ہے ، اور یہ ارادہ کر کے لوٹتا ہے کہ اس نے جو جنتیں باہر دیکھی ہیں ویسی ہی جنت اپنے وطن کو بھی بنائے گا تو اس میں کونسی شعبدہ بازی ہے ۔ ہاں اگر ایک اندرونی شعبدہ باز باہر سے کسی کو درآمد کرے گا تو وہ شعبدہ باز ہی ہو گا۔ وزیر اعظم تو ہیں ہی راجہ وہ راج کریں چاہے اہلیت ہو نہ ہو، انہیں اہلیت دکھانے کے مطالبے سے کیا مطلب،
شاپ میں سب جمع ہیں مجھ سے نہ پی پی کیجئے
آپ اس بوتل کو میرے گھر پہ وی پی کیجئے
#####
شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری فرماتے ہیں : لانگ مارچ سے قبل نگران حکومت بنی تو اٹھا کر پھینک دیں گے، صدر ، وزیر اعظم سے ملنے کو تیار ہوں۔
لگتا ہے طاہر القادری اب شیخ الاسلام طاہر القادری نہ رہے وہ دہان نیل پر کھڑے محمد مرسی بن چکے ہیں اور ایم کیو ایم کے الطاف حسین بھی اب حسینی کردار ادا کرنے پر اُتر آئے ہیں تو وہ ہمیں کہیں ایک اور کربلا نہ دے جائے ۔
اب تو عمران خان نے بھی بلا اٹھا کر کہہ دیا ہے طاہرالقادری سے اتحاد ممکن ہے۔
یہ حواس ثلاثہ اگر اتحاد ثلاثہ بننے پر تل گئے ہیں تو سمجھو کہ قوم پر سارے بند دروازے کھل گئے ہیں کیونکہ یہ تین قوتیں مل کر ایک ایسی حکومت بنا سکتی ہیں جس میں کسی قسم کا وائرس نہ ہو گا اور لوگ بھی جوق در جوق اس میں شامل ہو جائیں گے کیونکہ وہ ان پانچ برسوں میں سب کو پہچان اور خود اپنی قوت کو مان گئے ہیں۔ حیرانی ہے کہ آج حبیب جالب کی سنت پر عمل کرنے والا کوئی شاعر بھی نہیں جس کی ایک نظم ترنم کیساتھ ظلم کا یہ سارا نظم و نسق ہی تلپٹ کر دے۔ کسی نے یہ لکھا ہے کہ طاہر القادری کہتے ہیں انہیں فوج ، عدلیہ ضمانت دیدیں تو وہ لانگ مارچ ملتوی بھی کر سکتے ہیں۔ اگر یہ تینوں حواس ثلاثہ چاہتے ہیں کہ تبدیلی آئے تو پھر فوج اور عدلیہ کا خوف کیوں پال رکھا ہے۔ وہ بھی اس نظام سے خوش نہیں ۔ ہمارے ایک استاذ الاساتذہ مزاح نگار نے طاہر القادری کے ساتھ صرف مولانا کا سابقہ تسلیم کیا ہے حالانکہ مولانا کا مطلب ہے ہمارے آقا و مولیٰ اور یہ تو زیادہ خطرناک ہے۔ اسلئے وہ باقی القابات بے شک قلم زد نہ کریں صرف مولانا لکھنے بولنے سے اجتناب کریں۔
#####
دبنگ گرل سوناکشی سنہا نے حق بات کی ہے کہ سلمان خان کو ”بھائی“ نہیں کہہ سکتی۔ بالی وڈ نے چہروں کی ایسی حسین قطار لگا دی ہے کہ جسے دیکھو لالہ و گل ہے۔ خدا نہ کرے کہ کبھی ایسے خوبروؤں کے بارے کہنا پڑ جائے
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
ایک مرتبہ سوناکشی کی طرح برطانوی وزیر اعظم کیمرون نے بھی کہا تھا، کیا بھارت کو ناچنے کے سوا کچھ نہیں آتا، وہ ان حسیناؤں کو اتھلیٹکس میں داخل نہیں کر سکتا یا من موہن جی رسی ڈگڈگی ہاتھ میں پکڑے یہی کہتے رہیں گے #
ناچ میری بلبل کہ پیسہ ملے گا
کب کیسے مہربان ہمیں ایسا ملے گا
جو لڑکی دبنگ ہوتی ہے وہ کسی کو بھائی بنا کر بھائی کے بھائیوں کو اپنے اوپر کیسے حرام کر سکتی ہے۔ ویسے بھی شرعی مسئلہ ہے کہ کوئی کسی کو بیٹی بیٹا، بھائی بہن نہیں بنا سکتا البتہ فلم میں اگر کوئی بیوی یا گرل فرینڈ واقع ہونے کے بعد اگلی فلم میں بوائے فرینڈ کی بہن بن جائے تو فلمی شریعت میں اجازت ہے۔ اور یہی فلم کے جھوٹ ہونے کی دلیل ہے۔ سلمان خان کتنے خوش ہوں گے کہ سوناکشی سنہا نے اسے بھائی بنانے سے انکار کر دیا اب ان کا گرل فرینڈ بینک کتنا بڑھ گیا ہے وہ چاہیں تو خیرات بھی کر سکتے ہیں۔ دبنگ شاید بولڈ کا نعم البدل ہے اور بولڈ اگر لڑکی ہو تو قیامت بے نقاب ہو جاتی ہے۔ دیکھئے کہ سوناکشی ، سلمان خان میں سے کتنا سونا کشید کرتی ہے کہ پھر وہ صرف بھائی ہی رہ جائیں اور یہ حال ہو کہ #
میرا احوال جب یاروں نے کہا کچھ ان سے
سن کے فرمایا کہ ہو گا مجھے معلوم نہیں