عمران اور چار وزارئے اعظم

February 24, 2019

وزیراعظم عمران خان شدید غصے میں تھے۔ وزیراعظم کو غصہ وفاقی سیکرٹری داخلہ پر تھا جس پر ان کی ڈانٹ ڈپٹ کی جا رہی تھی۔ کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم کے غصے کی وجہ سے مکمل سکوت تھا۔

دراصل ایک روز قبل ہی اسلام آباد پولیس نے انسانی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والی معروف خاتون گلالئی اسماعیل کو اس وقت اسلام آباد سے گرفتار کیا تھا کہ جب وہ بلوچستان میں ارمان لونی کے قتل کے خلاف اسلام آباد میں احتجاج کر رہی تھی۔ سارا معاملہ انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری کے نوٹس میں آیا تو وہ فوری طور پر وزیراعظم عمران خان کے پاس پہنچیں اور انہیں صورتحال سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے وفاقی سیکرٹری داخلہ کو گلالئی اسماعیل کی رہائی کی ہدایات بھیجیں تو ابتدا میں ان کے حکم کی تعمیل نہ ہوئی۔ جب وزیراعظم نے دوبارہ بھرپور انداز میں ہدایت دی تو نوجوان خاتون کو رہا کردیا گیا۔

اس پس منظر میں وزیراعظم پوری کابینہ کے سامنے وفاقی سیکرٹری داخلہ کی ڈانٹ ڈپٹ کر رہے تھے جبکہ سمجھدار وفاقی سیکرٹری کے پاس شرمندگی سے ادھر ادھر دیکھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ وزیراعظم بولے، ’’آپ لوگوں کی پالیسیوں کی وجہ سے بنگلہ دیش بنا یہ سیاسی معاملات ہیں ہم اسے بہترحل کرسکتے ہیں‘‘ وزیراعظم کے الفاظ کابینہ کے اجلاس میں شریک وزرا بھی سن رہے تھے اور اجلاس میں مدعو کئے گئے بیوروکریٹ بھی۔ یہ بیوروکریسی کے لئے واضع پیغام تھا کہ آئندہ وزیراعظم کے احکامات کو نظر انداز نہ کیا جائے۔

اس کے بعد اکیس فروری کو کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کا غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا۔ یہ اجلاس بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ایک حملے کے بعد منعقد ہو رہا تھا اور بھارت اس کا الزام پاکستان پر لگا رہا تھا۔ اس اجلاس میں کالعدم جماعتوں کیخلاف کارروائی تیز کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ بعد میں کابینہ کے اجلاس میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ شروع کرنے کیلئے وزارت قانون کی اہم سمری بھی منظور کرتے ہوئے خصوصی عدالت کے قیام کا فیصلہ بھی کر لیا گیا۔ یہ بات تو وقت ہی بتائے گا کہ عمران خان کی حکومت کالعدم تنظیموں کے بارے میں کیا موقف اختیار کرتی ہے اور عدالت میں سابق صدر کے خلاف بغاوت کیس کی پیروی کرتے ہوئے رویہ جارحانہ ہوتا ہے یا معذرت خواہانہ۔ یہ وہی دو فیصلے تھے جن میں سے ایک ڈان لیکس کی صورت نوازشریف کا آج بھی پیچھا کر رہا اور دوسرے نے تو ان کے اقتدار پر دھرنوں کا ایسا وار کیا کہ نواز شریف اپنے اقتدار کے باقی دنوں کمر تک سیدھی نہ کر سکے۔

اسلام آباد میں عام طور وزرائے اعظم ایسے امور کو چھیڑنے سے بھی گریز کرتے ہیں جن کا تعلق ان کے دائرہ اختیار سے تو ہو مگر عملی طور پر ان کا اختیار وہاں موجود نہ ہو لیکن عمران خان نے یہ فیصلے کر کے اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ظاہر ہے یہ سب کسی سپورٹ سے ہو رہا ہے۔

جنرل مشرف کے دور کے بعد بحال ہونے والی لولی لنگڑی جمہوریت میں اب تک چار منتخب وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی وزیراعظم آفس میں کام کرچکے ہیں۔ عمران خان ملک کی چوتھی ڈکٹیٹر شپ کے بعد سامنے آنے والے مجموعی طور پر پانچویں منتخب وزیراعظم ہیں۔

عمران خان اس اعتبار سے بھی خوش قسمت ہیں کہ ان کے دور میں جیسے تیسے جمہوریت گزشتہ جنوری میں ملک میں طویل ترین جمہوری دور کا خاموشی سے ریکارڈ توڑ چکی۔ جنرل مشرف کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں ہم حکمرانی کے تین بڑے ماڈل دیکھ چکے ہیں۔ ان تین ماڈلز میں زرداری ماڈل، یوسف رضا گیلانی ماڈل اور نوازشریف ماڈل شامل ہیں۔

حکمرانی کے آصف زرداری ماڈل میں ہم نے دیکھا کہ شروع سے آخر تک صدر آصف زرداری کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر عمل پیرا رہے۔ وہ قابل قبول تو تھے مگر ان کا امیج بہت خراب تھا۔ اسے خراب کرنے یا ہونے میں بہت سے عوامل شامل تھے۔ یوسف رضا گیلانی اب تک کے وزراءاعظم میں سب سے موثر وزیراعظم تھے مگر ان کے لئے اپنے پارٹی صدر کو ساتھ لے کر چلنا، سول ملٹری عدم توازن کو ختم کرنا، ایسی کابینہ سے کام لینا جو انہوں نے منتخب ہی نہ کی تھی اور پھر ہر معاملے پر پارلیمینٹ کو اعتماد میں لینا مشکل کام تھے جو انہوں نے بہرحال اپنے انداز میں کئے۔

نوازشریف کھیل کے پرانے کھلاڑی تھے۔ توقع تو یہ تھی کہ وہ تیسری بار وزارت عظمیٰ پر براجمان ہوئے ہیں اس باران امور پر بہرحال اختیار حاصل کر لیں گے جن پر کسی منتخب وزیراعظم کا تسلط ہونا چاہئے۔ انہیں وزارت عظمیٰ اور اس سے منسلک چیلنجز کی سمجھ اور آشنائی ہی نہیں ماضی کا تلخ و شیریں تجربہ بھی تھا مگر وہ اپنا اقتدار بچا سکے نہ ریاست کو درپیش اہم امور ان کی دسترس میں آ پائے۔ نتیجہ ناکامی پر ہی منتج ہوا۔

شاہد خاقان عباسی اور راجہ پرویز اشرف بھی وزارت عظمیٰ کے عہدوں پر رہے مگر دونوں کے پاس وقت مختصر اور حالات اتنے مخدوش تھے کہ وہ بھرپور طور پر وزیراعظم کی حیثیت سے سامنے ا ٓسکے نہ ان کی خوبیاں اور خامیاں کھل کر سامنے آئیں۔ شاہد خاقان عباسی کو راجہ پرویز اشرف پر بحیثیت وزیراعظم بہرحال زیادہ نمبر دئیے جا سکتے ہیں۔ وزرا اعظم کا تقابلی جائزہ ایک مکمل الگ اور جامع موضوع ہے۔ مگریہاں عمران خان کا ان سب سے مختصرموازنہ مقصود ہے۔

عمران خان کے دور میں شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ بحیثیت وزیراعظم ان کی گرفت مزید مضبوط کر گیا ہے۔ ایک تو یہ کہ اس دورے میں گرتی معیشت کو سہارا دینے کے لئے کچھ خوش خبریاں آئیں دوسرا یہ کہ اس دورے میں وزیراعظم نے جس طرح سعودی عرب میں پچیس لاکھ کے قریب پاکستانی ورکروں اور وہاں کی جیلوں میں قید پاکستانیوں کا معاملہ اٹھایا اس نے جہاں عام پاکستانیوں کے دل جیت لئے وہاں اس دورے اور اسکی کامیابی کا سارا کریڈٹ عمران خان کو دے دیا۔

عمران خان اور نوازشریف میں بہت سی باتیں مختلف ہیں لیکن کچھ باتیں اور حالات بالکل مشترک اور کچھ میں کھلا تضاد پایا جاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ نواز شریف پہلی بار بالکل اسی طرح اقتدار میں آئے تھے جیسے عمران خان آئے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ عمران خان اور نواز شریف اپنے چہرے سے فوری ردعمل ظاہر کردیتے ہیں جو سامنے دیکھنے والا بھانپ لیتا ہے۔ دونوں لوگوں کو استعمال کرنا اور استعمال کر کے چھوڑ دینے کا سیاسی گر بھی خوب جانتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ عمران خان بائیں بازو کی سیاست کرتے کرتے دائیں بازو کی طرف آئے اور نواز شریف دائیں بازو کی سیاست کرتے کرتے بائیں بازو کی طرف آگئے۔

عمران خان اور نوازشریف کے سیاسی فلسفے الگ، پس منظر الگ مگر دونوں میں ایک اور گہری بات بہت مشترک ہے اور وہ یہ کہ دونوں لاہور سے ہیں۔ لاہوریوں میں یہ بات بڑی اہم ہے کہ دیکھ لیں گے، دیکھی جائے گی، پھٹے چک دیو اور بڑا رسک لے لو وغیرہ یہ اس جیسے کام کرجاتے ہیں۔ نوازشریف نے بھی اپنے ادوار میں متعدد ایسے کام کئے جبکہ عمران خان نے تو آتے ہی باریکی سے ان کاموں کا آغاز کردیا ہے۔

عمران خان کو نوازشریف اور باقی وزرا ئےاعظم پر ایک برتری یہ بھی ہے کہ وہ شہرت سے پہلے آشنا ہوئے اور طاقت سے بعد میں۔ طاقت تنہا کچھ نہیں ہوتی اگر طاقت کے ساتھ شہرت مل جائے توبندہ بندہ نہیں رہتا لیکن جو اسے سنبھال لے اسے تاریخ فراموش کرتی ہے نہ عوام۔ عمران خان کی شہرت نے ان کی مدد کی ہے اور اب اس کے پاس وزارت عظمی کی طاقت بھی ہے دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس طاقت کو اپنے مخصوص لاہوری انداز میں دیرینہ مسائل حل کرنے میں استعمال کرتے ہیں یا وہ بھی سابق وزرائے اعظم کی فہرست میں محض اپنا نام ہی لکھواتے ہیں۔